- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان اسرائیل کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار
- آدھی سے زائد معیشت کی خرابی توانائی کے شعبے کی وجہ سے ہے، وفاقی وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
جانیے مردوں اور خواتین کی قمیضوں کے بٹن مخالف سمتوں میں کیوں ہوتے ہیں
نیویارک: مردوں اور خواتین کی قمیضوں کے بٹن ایک ہی سمت میں نہ ہونے سے متعلق بہت سے ذہنوں میں سوال ہیں جس کا فیشن اور ملبوسات کے تاریخ دانوں نے دلچسپ جواب دیا ہے۔
زنانہ ملبوسات بنانے والی امریکی کمپنی کی سربراہ میلانی مور نے اس کو بڑی تاریخی وجہ قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی میں جب بٹن نئے نئے ایجاد ہوئے تھے تو وہ بہت مہنگے تھے اور اس مہنگی ایجادات سے صرف امیر خواتین ہی مستفید ہوتی تھیں جن کے ہاں لباس پہنانے کے لیے علیحدہ خادمائیں ہوا کرتی تھیں۔ اب چونکہ زیادہ تر لوگ سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں تو ان خادماؤں کی سہولت کے لیے خواتین کی قمیضوں میں الٹے ہاتھ پر بٹن لگائے جانے لگے جو رفتہ رفتہ ایک رواج بن گیا۔
البتہ، مردوں کی قمیضوں میں بٹنوں کے سیدھے ہاتھ پر ہونے کا معاملہ کچھ مبہم ہے کیونکہ اس سے متعلق ایک سے زائد مفروضات مدمقابل ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں فیشن کی تاریخ نگار چیپن کلوئی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مردانہ قمیضوں اور جیکٹوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ (خواتین کے) بہت بعد میں جاکر شروع ہوا۔ مزید یہ کہ ایک عمومی اصول کے طور پر ’’مردانہ لباس کے بیشتر اجزاء کا گہرا تعلق فوج سے رہا ہے اور شاید مردانہ قمیضوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب نسبتاً چھوٹی بندوقوں کا استعمال شروع ہوچکا تھا۔‘‘
قرینِ قیاس ہے کہ قمیض یا جیکٹ کے اندر رکھی گئی بندوق نکالنے میں زیادہ سے زیادہ سہولت نے اس معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہوگا۔ مردانہ قمیض یا جیکٹ میں بٹن سیدھے ہاتھ پر لگے ہونے کے باعث بندوق زیادہ تیزی سے نکالی جاسکتی تھی۔ اسی فوجی ضرورت نے مردانہ قمیضوں میں بٹنوں کے سیدھے ہاتھ پر ہونے کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک اسی طرح جاری ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔