جانیے مردوں اور خواتین کی قمیضوں کے بٹن مخالف سمتوں میں کیوں ہوتے ہیں

ویب ڈیسک  جمعـء 22 جولائی 2016
مردانہ قمیضوں اور جیکٹوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ (خواتین کے) بہت بعد میں جاکر شروع ہوا، ماہر ہارورڈ یونیورسٹی

مردانہ قمیضوں اور جیکٹوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ (خواتین کے) بہت بعد میں جاکر شروع ہوا، ماہر ہارورڈ یونیورسٹی

نیویارک: مردوں اور خواتین کی قمیضوں کے بٹن ایک ہی سمت میں نہ ہونے سے متعلق بہت سے ذہنوں میں سوال ہیں جس کا  فیشن اور ملبوسات کے تاریخ دانوں نے دلچسپ جواب دیا ہے۔

زنانہ ملبوسات بنانے والی امریکی کمپنی کی سربراہ میلانی مور نے اس کو بڑی تاریخی وجہ قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی میں جب بٹن نئے نئے ایجاد ہوئے تھے تو وہ بہت مہنگے تھے اور اس مہنگی ایجادات سے صرف امیر خواتین ہی مستفید ہوتی تھیں جن کے ہاں لباس پہنانے کے لیے علیحدہ خادمائیں ہوا کرتی تھیں۔ اب چونکہ زیادہ تر لوگ سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں تو ان خادماؤں کی سہولت کے لیے خواتین کی قمیضوں میں الٹے ہاتھ پر بٹن لگائے جانے لگے جو رفتہ رفتہ ایک رواج بن گیا۔

البتہ، مردوں کی قمیضوں میں بٹنوں کے سیدھے ہاتھ پر ہونے کا معاملہ کچھ مبہم ہے کیونکہ اس سے متعلق ایک سے زائد مفروضات مدمقابل ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں فیشن کی تاریخ نگار چیپن کلوئی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مردانہ قمیضوں اور جیکٹوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ (خواتین کے) بہت بعد میں جاکر شروع ہوا۔ مزید یہ کہ ایک عمومی اصول کے طور پر ’’مردانہ لباس کے بیشتر اجزاء کا گہرا تعلق فوج سے رہا ہے اور شاید مردانہ قمیضوں میں بٹن لگانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب نسبتاً چھوٹی بندوقوں کا استعمال شروع ہوچکا تھا۔‘‘

قرینِ قیاس ہے کہ قمیض یا جیکٹ کے اندر رکھی گئی بندوق نکالنے میں زیادہ سے زیادہ سہولت نے اس معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہوگا۔ مردانہ قمیض یا جیکٹ میں بٹن سیدھے ہاتھ پر لگے ہونے کے باعث بندوق زیادہ تیزی سے نکالی جاسکتی تھی۔ اسی فوجی ضرورت نے مردانہ قمیضوں میں بٹنوں کے سیدھے ہاتھ پر ہونے کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک اسی طرح جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔