وزیراعظم پاناما لیکس پر عوام کوآخر کب مطمئن کریں گے؟

رحمت علی رازی  اتوار 24 جولائی 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

وزیراعظم نوازشریف تقریباً دو ماہ کی طویل غیرحاضری کے بعد جمعرات کی شام اسلام آباد کی گھٹن بھری فضا میں واپس لوٹے تو انہیں احساس ہوا کہ وزیراعظم ہاؤس کے در و دیوار ان کا منہ چڑا رہے ہیں اور شہر کی آب و ہوا بھی ان سے کافی اجنبیت کا اظہار کر رہی ہے،لندن سے لاہور اور لاہور سے اسلام آباد لوٹ کر انہیں یقین ہو چکا تھا کہ یہ وہ اسلام آباد نہیں جو وہ خود ساختہ جلاوطنی سے قبل چھوڑ کر گئے تھے۔

ان کے آس پاس بھلے ہی سرکاری ملازمین اور وزیروں مشیروں کا تانتا بندھا ہو مگر جو اداسی اور تنہائی ان کے اندر گھر کر چکی ہے، اسے دُور کرنے میں اب شاید وہ کامیاب نہ ہو پائیں گے۔ ان کے، مملکت کو اپنے رحم وکرم پر لاوارث چھوڑ کر جانے کے بعد ان دو مہینوں میں پاکستان نے داخلی اور خارجی سطح پر بہت کچھ کھویا ہے،اسی دوران بھارت نے ہمارے تمام نقصانات کو اپنے فوائد میں تبدیل کر لیا مگر ہم منہ دیکھتے رہے،افغانستان، ایران اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ڈرامائی موڑ آئے، مقبوضہ کشمیر میں ایک نئی بربریت نے جنم لیا مگر ہم خاموش رہے۔

کراچی کا امن ایک بار پھر داؤ پر لگ چکا ہے،رینجرز اختیارات کی مدت ختم ہو گئی اور وفاقی حکومت بے بسی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہے۔ نوازشریف کے سامنے اس وقت سب سے اہم داخلی معاملہ رینجرز اختیارات میں توسیع ہے، ایسی توسیع جس میں انہیں اندرون سندھ کارروائی کے اختیارات بھی حاصل ہوں۔

ڈاکٹر عاصم کیس میں مزید گرفتاریوں کے بعد پی پی پی اور ن لیگ میں مزید دُوریاں بڑھنے کے امکانات پر نہیں لگتا کہ نون لیگ کی حکومت کا کراچی آپریشن میں کوئی خاص عمل دخل ہے،یہ ایک فوجی آپریشن ہے جس کی باگ ڈور فوج کے ہاتھ میں ہے،کبھی چوہدری نثار کی بات ہوتی ہے اور کبھی کسی اور کی کہ وفاقی حکومت یہ چاہتی ہے، وفاقی حکومت کچھ نہیں چاہتی وغیرہ وغیرہ۔

ایک سوال یہ بھی اٹھا تھا کہ کیا اس مسئلے پر نون لیگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پی پی پی کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی؟ اس وقت واضح طور پر نون لیگ نے کہا کہ اس معاملہ پر وہ اسٹینڈ نہیں لینگے،اس صورتحال پر دونوں جماعتوں میں دُوریاں پیدا ہو گئیں جس کی بنیادی وجہ ڈاکٹر عاصم کا کیس ہے،وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدگی رینجرز کی وجہ سے نہیں بلکہ نیب اور ایف آئی اے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔

ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد آصف زرداری کا بہت سخت بیان آیا تھا،اس کے بعد وفاق اور سندھ حکومت کبھی بھی قریب آتے نظر نہیں آئے۔ سندھ میں رینجرز اور صوبائی حکومت کے درمیان تناؤ کافی سنجیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ قائم علی شاہ نے ایک لکیر کھینچ دی کہ آپ کراچی سے باہر آپریشن نہیں کرینگے۔ رینجرز کی جانب سے اندرون سندھ کے لیے اختیارات مانگنے پر جو فیصلہ ہوا،اس سے واضح ہوگیا ہے کہ سندھ حکومت کسی صورت میں اسد کھرل کو حوالے نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ’’مہربانوں‘‘نے اسے حیدرآباد سے گرفتار کر لیا ہے۔

نون لیگ اور پی پی پی میں ایک عجیب طرح کی مجبوری کا رشتہ ہے،جب دونوں کو بہتر لگے تو فیصلہ ہو جاتا ہے ورنہ اسٹاک ایکسچینج کی طرح زیادہ تر مندی کا رجحان ہی رہتا ہے اور یہی اس نام نہاد جمہوریت کا حسن اور عوام سے بہترین انتقام بھی ہے،اسے قطعی طور پر سیاسی انداز میں دیکھنا ہی نہیں چاہیے،یہ دو مجرموں کا رشتہ ہے جو ایک ہتھکڑی سے بندھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کیس کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ چل نہیں رہا،اس کی وجوہات ہم سب جانتے ہیں، چنانچہ کسی کی ضمانت مسترد ہونا اور کسی کا چند دن کے لیے اندر چلے جانا اہمیت نہیں رکھتا۔

کراچی شہر رینجرز کی جاں گسل کاوشوں کے نتیجہ میں کافی حد تک پرامن ہو گیا ہے مگر اس کا سارا کریڈٹ آج قائم علی شاہ نے خود اپنی انتظامیہ، ڈاکوؤں، بھتہ خوروں اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد کی سرپرست پولیس کے نام کر دیا اور انھوں نے اپنے منہ سے رینجرز کا نام بھی نہیں لیا۔ پیپلزپارٹی کی قومی سطح پر سیاست بلاول زرداری دیکھ رہے ہیں جب کہ حکومت ِسندھ کوئی اور چلا رہا ہے،سندھ کی حکومت فیڈریشن کے ساتھ یا اپنے مفادات کے خلاف کچھ کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔

رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے فیصلے میں تاخیر اور پی پی پی کی جانب سے کچھ لو کچھ دو کی پالیسی اختیار کر کے اپنے لوگوں کے لیے رعایت حاصل کرنے کے معاملے پر پی پی پی والے سوچ تو ایسا ہی رہے ہیں لیکن رعایت ہو نہیں سکتی، اس کا تعلق انور سیال کے بھائی کے معاملے سے ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اس کا تعلق ایف آئی اے اور ان 15ہزار فائلز سے ہے جسکے بارے میں سندھ حکومت ایف آئی اے سے بارہا کہہ چکی ہے کہ ایف آئی اے وہ فائلیں ہمیں واپس کرے،ان فائلوں میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آ سکتے ہیں۔

اگر رینجرز پیچھے نہیں ہٹتے تو یہ ایک تنازع بن سکتا ہے اور لگتا ہے کہ بات عدالتوں تک جائے گی، وفاق آرٹیکل149 کے تحت بات کر رہا ہے اور سندھ حکومت 147 کے تناظر میں،اب یا تو رینجرز قانون اپنے ہاتھ میں لینگے اور پھر وہ عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔ اویس شاہ کا اغواء ہونا رینجرز کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا اور سیکیورٹی اداروں کے لیے یہ ایک داغ تھا کہ چیف جسٹس کا بیٹا اغواء ہوگیا جب کہ وہ کراچی آپریشن کی کامیابی کے شادیانے بجا رہے تھے۔

اس سے پہلے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو ایک سیاسی جماعت کے دہشت گردوں کی دھجیاں اُڑا دی گئیں اور رینجرز والے کہہ رہے تھے کہ جرائم پیشہ افراد شہری علاقوں سے فرار ہوکر دیہی علاقوں میں چھپ گئے ہیں اس لیے اب وہ شہری آبادی سے آپریشن کو دیہی علاقوں کی طرف لے جا رہے ہیں، اس صورتحال میں اویس شاہ کے اغواء کا واقعہ ہونا ناقابلِ برداشت تھا، ہمارے سیکیورٹی اداروں کی پکڑ خاصی مضبوط ہے اور جب یہ کچھ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں،اسی طرح سلمان تاثیر کے صاحبزادے بھی جلدی بازیاب ہو گئے۔

اویس شاہ سے متعلق ایجنسیوں کو کافی کچھ پتہ تھا۔ رینجرز کی سمری کی مدت پوری ہو چکی ہے، اس پر ہنوزدستخط نہیں ہوئے،شرمناک بات تو یہ ہے کہ قائم علی شاہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ اور امن قائم کرنے کے لیے جو اختیارات رینجرز سندھ کے لیے مانگ رہے ہیں، وہ نہیں ملیں گے۔ ڈی جی رینجرز کے مطابق لوگ کراچی سے بھاگ کر اندرون سندھ میں جا کر چھپ رہے ہیں،یہ بات بالکل ٹھیک ہے،رینجرز کو اختیارات اندرونِ سندھ کے لیے بھی ملنے چاہییں،قانون کی بالادستی قائم کرنے اور دہشت گردی ختم کرنے کے لیے رینجرز کے مطالبات برحق ہیں جس کے لیے اجازت ملنی بھی چاہیے۔

وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو ٹینشن ہے، اس کی کافی وجوہات ہیں۔ قائم علی شاہ جانتے ہیں کہ اب پی پی پی کمزور نہیں ہے جیسے کہ پہلے تھی، اس لیے وزیر داخلہ بھی ان سے اس معاملے پر درخواست کر رہے ہیں، نہ کہ پہلے کی طرح کوئی دھونس دے رہے ہیں،چونکہ نوازشریف پاناما لیکس کیوجہ سے کافی کمزور ہو چکے ہیں، اس لیے پی پی پی کہے گی کہ رینجرز کو روکا جائے۔ ڈاکٹر عاصم کے اسپتال میں رؤف صدیقی، وسیم اختر وغیرہ کے کہنے پر علاج ہوتا تھا، رینجرز ایک پیغام بھیج رہے ہیں، ان کے مطابق وہ یہ آپریشن کر کے رہیں گے۔

چوہدری نثار اب اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ رینجرز کو کہیں گے کہ آپ اندرونِ سندھ آپریشن کی بات نہ کریں،وفاقی حکومت رینجرز سے یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ آپ سندھ حکومت سے خود منوا لیں، لیکن آنیوالے دنوں میں ایک ٹینشن رینجرز اور سندھ حکومت، رینجرز اور وفاقی حکومت کے درمیان اور ایک ٹینشن سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان جنم لے سکتی ہے۔ وزیر داخلہ نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہا ہے کہ وہ رینجرز کو قانونی کور فراہم کرینگے مگر شاید اب ایسا نہ ہو کہ وہ رینجرز کو کوئی کور دے سکیں۔ انیس قائم خانی کے بغیر مصطفی کمال کام نہیں کر سکتے۔

وہ دوسری پارٹی کے بارے میں کافی کچھ جانتے بھی ہیں اور لوگوں کو توڑ کر لائے بھی ہیں،رینجرز ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اس معاملے پر سیاست کی مداخلت نہیں ہونے دیں گے کیونکہ رینجرز اندرونِ سندھ جانا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اگر کمزور ہوتی ہے تو پی پی پی کو چانس ملے گا،ایسا تو ساری سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ نوازشریف کو کمزور کر دیا جائے،پی پی پی کا رول ٹی او آر پر بڑا متنازع ہو گیا ہے۔

جماعت اسلامی کی بات کریں تو وہ آزاد کشمیر میں نون لیگ کے ساتھ کھڑی تھی اور یہاں چھٹی کرانے کی بات کرتی ہے، یہی سیاست ہے،جماعت اسلامی مارشل لاء کے لیے نہیں اکسائے گی،وہ نہیں چاہے گی کہ فوج آئے۔ اگر عمران خان اپنے تھنک ٹینک اور مخلص مشیروں کے ساتھ ملکر کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل حکمتِ عملی اپنائیں گے تو وہ صحیح معنوں میں اپوزیشن کا کردار اداکر سکتے ہیں اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں،اگر ایسا کر لیں تو وہ یوتھ کے ساتھ ملکر اگلا الیکشن بآسانی جیت سکتے ہیں۔

اویس شاہ کراچی سے ٹانک تک کیسے پہنچے؟ گیلانی صاحب کے بیٹے کے مطابق اس نے بھی دس چیک پوسٹیں کراس کی تھیں جہاں فوج بھی موجود تھی لیکن کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ برقعے والے کو کہاں لے کر جا رہے ہو،چیک پوسٹ پر کوئی خاتون سیکیورٹی گارڈز نہیں، جب کہ لال مسجد واقعہ کے بعد یہ بات عام ہے کہ برقعہ پہن کر دہشت گردی ہو سکتی ہے مگر سیکیورٹی ناقص ہونے والی بات درست نہیں ہے۔

چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ انہیں اغواء کے پہلے روز ہی آرمی چیف نے فون کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کیس کو وہ خود دیکھیں گے،پھر جب بازیاب کیا تب بھی خود فون کیا،آج کل تو ہر چیز ہی ویسے بھی آرمی چیف کے دروازے پر چلی جاتی ہے۔ اویس شاہ کو افغانستان منتقل کرنے کی اطلاعات تھیں، انہیں انٹیلی جنس آپریشن میں ڈی آئی خان سے ٹانک کے راستے سے ایک گاڑی سے بازیاب کرایا گیا،اغواء کاروں کا تعلق تحریک ِطالبان پاکستان سے الگ ہونے والے ایک گروپ سے تھا جس میں القاعدہ کی بھی شمولیت کے بھی کچھ آثار ہیں۔

دہشت گردوں کے مطالبات آپریشنل وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیے جا رہے جب کہ ان کی شناخت کے حوالے سے بھی ابھی کچھ انتظار کیا جائے گا۔ اغواء کار دو صوبوں سے گزر کر یہاں پہنچے۔ ٹانک سے آگے فاٹا کا علاقہ ہے،فاٹا کا علاقہ اس سے قبل علاقہ غیر سمجھا جاتا تھا لیکن اب وہاں فوج کی انتھک محنت کیوجہ سے ریاست کی رِٹ ہے۔ آپریشن کی وجہ سے کتنی بہتری آئی، لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ رمضان اور عید پر امن ماحول میں گزرے،اس دوران بھی بیشمار تھریٹ الرٹ تھے جن کو ناکام بنایا گیا،اس کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بیشمار کوششیں ہیں۔

جرائم کی شرح میں کتنی کمی ہوئی،یہ لوگوں کے سامنے ہے۔ کراچی آپریشن سے دہشت گردی میں بے پناہ کمی نظر آ رہی ہے اورضربِ عضب کے نتائج بھی ملک بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں سے دہشت گردوں کے سہولت کار اور معاون گرفتار نہ کیے گئے ہوں۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر مزید کومبنگ آپریشن جاری ہیں اور اب تک ایسے 19800 آپریشن کیے جا چکے ہیں۔

اب دہشت گردوں کے پاس سرحد کے قریب چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اگر آپریشن ضربِ عضب شروع نہ ہوا ہوتا تو وہ تمام مغوی جو افغانستان سے بازیاب ہوئے ہیں وہ خیبر، تیراہ اور شمالی وزیرستان سے ملتے۔ میڈیا سے گفتگو میں جسٹس سید سجاد علی شاہ کا کہنا تھا، ’’اللہ تعالیٰ کا کرم، احسان اور لوگوں کی دعائیں ہیں کہ میرا بچہ صحیح سلامت بازیاب ہو کر گھر پہنچ گیا۔ مجھے اویس شاہ کی بازیابی سے متعلق صرف اتنا کہنا ہے کہ رات تین بجے جنرل راحیل شریف کا فون آیا،انھوں نے مجھے کہا کہ آپ کا بیٹا ہم نے بازیاب کروا لیا ہے۔ وہ ذاتی طور پراس ٹیم کو مانیٹر کر رہے تھے جو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر نے بنائی تھی۔

جنرل راحیل نے کہا کہ بچہ مل گیا ہے اور ہم اسے پہنچانے کا انتظام کر رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میری بات کروا دیں، انھوں نے مہربانی کرتے ہوئے ایک گھنٹے بعد ٹانک کے قریب سے بات کروا دی،پھر جہاز کا بندوبست کیا اور اویس کو ٹانک سے کراچی پہنچایا۔ میرے بیٹے کی بازیابی میں سارا کردار پاک فوج کا ہے،جس دن یہ واقعہ ہوا، اسی دن جنرل راحیل شریف کا فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس کی نگرانی کرینگے،اس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی مجھ سے رابطہ میں رہے۔

مجھے کچھ پتہ نہیں اویس شاہ کو کس گروپ نے اغواء کیا تھا،مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ میرا بچہ مل گیا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے افواجِ پاکستان کی کارکردگی مثالی ہے۔ یہ اداروں سے پوچھا جائے کہ کس طرح دہشت گرد اویس شاہ کو اغواء کر کے ٹانک تک لے گئے،اللہ کا مجھ پر بڑا احسان رہا،اس نے مجھے استقامت دی اور میں پورا وقت اپنے عدالتی معاملات نمٹاتا رہا،اللہ نے مجھے حوصلہ اور ہمت دی‘‘۔

حکومت کی غیرحاضری میں بھی افواجِ پاکستان بشمول رینجرز اپنا فرض نبھانے میں رات دن ایک کیے ہوئے ہیں اور ہمارے ناتجربہ کار سیاستدان اپنی باریوں کے چکر میں الٹی سیدھی بیان بازی سے باز نہیں آ رہے۔ بلاول بھٹو کے نواز مخالف اور جمہوریت نواز بیان کا عمران خان کے بیان سے کسی حد تک موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کا بیان جمہوریت کے خلاف نہیں تھا،ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو نوازشریف سے خطرہ ہے، فوج سے نہیں،ان کی اس بات کی مختلف انداز میں تشریح کی جا سکتی ہے، مگر اس کا جو موازنہ کیا گیاوہ اس انداز میں نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اچھی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے جو پہلی باضابطہ پریس کانفرنس کی، اس میں انھوں نے اعتماد سے تمام سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ نواز حکومت کے خاتمے تک عمران خان کے ساتھ چلنے کو بھی تیار ہیں لیکن اگر اس کے بدلے میں مارشل لاء لگتا ہے تو وہ اس کا ساتھ نہیں دینگے۔ بلاول نے جو بات کی ہے وہ بنیادی طور پر بجاہے۔ جہاں تک جمہوریت کا بار بار رونا رونے کی بات ہے تو ہمیں تو اس ملک میں جمہوریت کبھی دکھائی ہی نہیں دی،الیکشن والے دن مخصوص اقلیت کے لیے عوام کے خون پسینے سے جو ڈرامہ رچایا جاتا ہے، وہ جمہوریت نہیں ہے، لہٰذا جس چیز کا وجود ہی نہیں ہے، اس کی موافقت یا مخالفت کم از کم ہمارے نزدیک بالکل ہی بے معنی سی بات ہے۔

ابھی دیکھنا یہ ہے کہ بلاول زرداری جمہوریت نواز بنتے ہیں یا نہیں؟ منگل کی پریس کانفرنس میں جو اشارے انھوں نے دیے، وہ اچھے مستقبل کی نشاندہی تو ہو سکتی ہے مگر امکانات کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بلاول بھٹو نے یہ مخصوص بیان کسی سیاسی پنڈت کے مشورے پر دیا ہے۔ اُصولوں کی بنیاد پر سیاست اس ملک میں کم ہی نظر آتی ہے، یہاں سیاستدان ذاتی مفادات کی بنیاد پر سیاست کرتے اور اُصولوں سے انحراف کرتے ہیں۔

نوازشریف میں پچاس ہزار غلطیاں ہیں، آپ ان پر روزانہ تنقید کیجئے، لیکن اس کی بنیاد پر لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے کہ اس ملک میں اگر مارشل لاء لگے تو لوگ خوشی خوشی سڑکوں پر نکل آئینگے۔ عمران خان کے بیان کوصحیح تناظر میں نہیں دیکھا گیا، انھوں نے حکمرانوں کی مایوس کن کارکردگی کے حوالے سے ترکی کا پاکستان سے موازنہ کیا تھا جو ہم سمجھتے ہیں کہ بالکل صحیح موازنہ تھا وگرنہ تو کوئی بھی مارشل لاء کو پسند نہیں کرتا،حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور پانامالیکس پر دھوکہ دینے کی وجہ سے عوام سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر ہے کہ مارشل لاء آ جائے اور لوٹ مار کا بازارگرم کرنیوالوں سے حساب لیا جائے۔

یہ سب کو معلوم تھا کہ مُک مُکا والی اپوزیشن ٹی او آر کے معاملے پر یکجہتی نہیں کر سکے گی اور عمران خان کو اسلیے مجبوراً سڑکوں پر آنا پڑیگا، عمران خان نے جو احتجاج کا اعلان کیا ہے ہماری نظر میں انھوں نے اپنے آپ کو منفرد رکھنے کے لیے ایسا موقف اپنایا ہے، وہ اگر ایسا نہ کرتے تو انہیں نام نہاد اپوزیشن نے ڈبو دینا تھا۔

وہ دراصل پی پی کی انگڑائیاں بھرتی تازگی سے خود کو کمزور ہوتا دیکھ رہے ہیں جس کے لیے انھوں نے اپنی اسٹریٹ پاور کو جگانے کے لیے پاناما لیکس کے ایشو پر ایک بار پھر سولو فلائٹ بھرنے کا پروگرام بنایا ہے،پاناما پیپرز پرا سٹریٹ موومنٹ میں کارنر میٹنگز کی جائینگی، جلسے جلوس نکالے جائینگے، لوگوں کو لایا جائے گا اور بڑے بڑے جلسے کرنے کی کوشش کی جائے گی، اس کے ردعمل میں حکومت کا کیا رویہ ہوتا ہے، وہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا اور یہ بھی انٹیلی جنس ہی بتا سکتی ہے کہ عمران خان کے درونِ پردہ ارادے کیا ہیں، البتہ یہ تو طے ہے کہ باقی سیاسی جماعتیں حکومت کی بی ٹیم ہونے کیوجہ سے ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔

مشرف کے خلاف جوڈیشل کمیشن کے ساتھ ساری جماعتیں تھیں اور سب نے اپنے بندے بھی دیے تھے لیکن عمران خان کے معاملے میں لوگ خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں یہ اسٹیبلشمنٹ کو تو نہیں اُکسا رہے، البتہ یہ تھوڑا بہت اسلام آباد کی حد تک لوگ جمع کر کے ایسا کام کر سکتے ہیں جس سے حکومت سے کوئی حماقت ہو جائے اور اصل میں ساری پلاننگ بھی یہی ہے کہ حکومت کی جانب سے کوئی حماقت ہو اور کوئی ایسی فورس آ جائے جو چھوٹی چیز کو بھی بڑا کر دے اور سارا میڈیا اس کے خلاف ہو جائے،ایسے عناصر بھی درمیان میں ڈالے جا سکتے ہیں جو ایسے حالات پیدا کر دیں جس سے معاملات گڑ بڑ ہو جائیں۔

حکومتی متحدہ اپوزیشن نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے پارلیمنٹ میں ’’پاناما پیپرز انکوائری ایکٹ بل 2016ء‘‘انے کا اعلان کر دیا ہے،اپوزیشن کا موقف ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز پر حکومت سے مزید بات چیت نہیں کرینگے، وہ اپوزیشن کے ٹی او آرز پر مبنی بل منظور کرا کر قانون بنالے تو بہتر ہے ورنہ فیصلہ سڑکوں پر ہوگا،مزیدبرآں اپوزیشن نے پاناما لیکس پر مشترکہ حکمت ِعملی طے کرنے کے لیے جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

بقول فرینڈلی اپوزیشن کے یہ اقدام اسلیے اٹھایا گیا کہ حکومتی رویہ بالکل غیرمناسب ہے جسکے بعد اپوزیشن نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ جن ٹی او آر پر اتفاق ہو گیا ہے ان کو بنیاد بنا کر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بل متعارف کرایا جائے گا اور اگر حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے تو اس بل کے لیے سینیٹ، سندھ اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں ’’پاناما قرار داد‘‘منظور کرائی جائے گی کیونکہ پارلیمان ہی ایسا فورم ہے جس کو اپوزیشن مقدم سمجھتی ہے، لہٰذاپارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں پاناما کے مخصوص ایجنڈا کو اٹھایا جائے گا، اس کے بعد بھی معاملہ حل نہ ہوا تو سڑکوںپر آنے کو سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

اپوزیشن کاپاناما کا ایشو سینیٹ کے موجودہ اور قومی اسمبلی کے آنیوالے سیشن میں اٹھانے کا ارادہ ہے،وہ پاناما معاملے پر جتنی لچک دکھا سکتے تھے انھوں نے دکھائی ہے لیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں حالانکہ وزیراعظم نواز شریف نے برملا کہا تھا کہ وہ اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرینگے،اس بات کا اظہار انھوں نے اسمبلی فلور پر اپنے خطاب میں،ہری پور اور بنوں کے جلسوں میں بھی کیا تھا مگر ان کے وزراء کا رویہ اس کے بالکل برعکس ٹھہرا۔ اب ایک طرف تو متحدہ فرینڈلی اپوزیشن (جس میں پیپلزپارٹی سرِفہرست ہے) نے پاناما پیپرز انکوائری ایکٹ بل پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب وہ یہ دھمکی بھی دیتی ہے کہ حکومت کی عدم توجہی کی صورت میں معاملہ سڑکوں پر حل ہو گا،ہماری نظر میں یہ محض گیدڑ بھبکی ہے اور جہاں تک پیپلزپارٹی کا سوال ہے تو وہ کبھی بھی سڑکوں کا رُخ نہیں کریگی،وہ صرف ڈنگ ٹپانے کے لیے اور دیگر جماعتوں کو اپنے ساتھ نتھی رکھنے کے لیے یہ ساری حکمتِ عملی بنا رہی ہے۔ جو راستہ سیاستدانوں کے لیے بہتر ہے انھوں نے اس کا انتخاب بھی کیا ہے۔ عمران خان کا فیصلہ ان کے مزاج کے عین مطابق ہے کیونکہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔

یہ فیصلہ اب سڑکوں پر ہو گا یا سوموٹو کے ذریعے، یہ مستقبل قریب میں واضح ہو جائے گا۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ عمران خان پی پی پی کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چل سکیں گے۔ پاناما لیکس اسکینڈل سامنے آنے کے بعد پی ایم ایل (این) یا شریف خاندان نے ابھی تک کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے عام لوگوں کی تسلی ہو کہ وہ عوام کے سامنے اپنی مالی تفصیلات رکھنے میں سنجیدہ ہیں جس سے اندازہ ہو سکے کہ یہ معلومات درست ہیں یا غلط۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ لوگوں کو سڑکوں پر لا کر ہی احتساب کا عمل یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

عمران خان نے اپنی سیاست میں دھرنوں کا مرکزی کردار دیکھا ہے، ہمارا خیال ہے کہ ان کا دوبارہ دھرنے کی طرف لوٹنا مجبوری کی حالت میں ہی ہو سکتا ہے کیونکہ حکمران اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ آزادکشمیر انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے غیرمتوقع طور پر ایک تہائی اکثریت حاصل کرنے پر نوازشریف پھولے نہ سمائے اور اگلے ہی روز کشمیری عوام کو مبارکباد دینے مظفرآباد جا پہنچے۔

بلاول اور عمران خان کے کشمیر میں موثر انداز میں انتخابی مہم چلانے کے باوجود اگر نون لیگ کو کامیابی ملی ہے تو نوازشریف کسی غلط فہمی میں نہ رہیں کیونکہ کشمیر میں نہ تو ان کی عوامی خدمت کا کوئی ٹریک ریکارڈ ہے، نہ انھوں نے وہاں ترقیاتی کام کیے ہیں، نہ ہی انھوں نے آزاد کشمیر میں دھواں دھار الیکشن مہم چلائی ہے،ان کی کامیابی کا صرف ایک ہی راز ہے، اور وہ ہے ’’کشمیر کارڈ‘‘۔ نوازشریف کا تعلق بھلے مقبوضہ کشمیر کے علاقے، اننت ناگ سے ہے لیکن ان کا کشمیری ہونا ان کے خوب کام آیا۔

پاکستان میں قوم پرستی سے بڑی کوئی بیماری نہیں،سندھیوں اور پٹھانوں کے بعد یہاں کشمیری سب سے زیادہ قوم پرست ہیں،زرداری کو سندھی ہونے کی وجہ سے سندھ میں ووٹ ملے،عمران خان کو خان ہونے کیوجہ سے خیبرپختونخوا نے اعزاز بخشا اور نوازشریف کو کشمیریوں نے کشمیری ہونے کا صلہ دیا ہے،دوسرا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ ان کی وفاق میں حکومت ہے، اور کشمیر اور گلگت بلتستان کی یہ روش رہی ہے کہ وہ وفاق کو چڑھتا سورج سمجھ کر سلام کرتے ہیں،یہی وجوہات نون لیگ کی کامیابی کے پیچھے بھی ہیں ورنہ تو پاکستان میں وزیراعظم کی سیاسی ناموس سب کے سامنے ہے اور وہ پانامالیکس کے عفریت سے جان چھڑانے کے لیے اسلام آباد سے سیاسی مفروری کی سی کیفیت میں ہیں۔

پاناما لیکس اُس کرپشن کا نشان ہے جو ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے اس پر کوئی اقدام نہیں لیا گیا، صرف ٹی او آرز پر اس سے متعلق بات ہو رہی ہے،وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے یہ اتنا کھنچ جائے کہ مارچ بھی گزر جائے اور مارچ میں جب سینیٹ کے اندر اُن کی اکثریت ہو جائے گی تو اس وقت تک یہ معاملہ کسی طرح سے لٹکا رہے۔

لگ یہ رہا ہے کہ عمران خان کا متوقع اقدام بھی کسی خاص حکمتِ عملی کا حصہ ہے،جب پارلیمنٹ میں بل آئیگا تو اس میں بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہو گا،عمران خان ایک بہت بڑا رسک لینے جا رہے ہیں،ایک طرف تو وہ سپریم کورٹ میں حامد خان اور نعیم بخاری سے پٹیشن تیار کروانے جا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ دھرنا کرنے جا رہے ہیں،اگر وہ پٹیشن پہلے فائل کر دیتے ہیں تو اس کے بعد ان کا احتجاج کا راستہ نہیں بنتا۔

حسبِ سابق اس بار بھی عمران خان تھوڑی سی جلد بازی کر گئے ہیں جسکے نتائج ان کی توقع کے برعکس ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو ناکام دھرنے کا شاندار تجربہ ہے، ان ناکام دھرنوں نے ان کی سیاسی ساکھ اور جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں پر سخت دباؤ ڈالنے کے لیے مثالی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور اگر اب بھی وہ مثالی حکمتِ عملی نہ اپنا سکے تو 2018ء کے انتخابات تک ان کی سیاسی ساکھ کو مزید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔