لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا آسان نسخہ

سعد اللہ جان برق  اتوار 24 جولائی 2016
barq@email.com

[email protected]

لوگوں کا کیا ہے وہ تو کچھ بھی بولتے رہتے ہیں لیکن ہمارا عقیدہ ہے بلکہ بہت ہی پکا کم از کم پاکستانی ٹھیکیداروں کی بنائی ہوئی سڑکوں اور عمارتوں سے زیادہ پکا عقیدہ ہے کہ ہمارے لیڈروں میں کچھ بھی عیب ہو سکتے ہیں، شرعی یا غیر جتنے بھی عیب ممکن ہیں وہ ان میں ہو سکتے ہیں یہ چور ہو سکتے ہیں ڈاکو ہو سکتے ہیں آدم خور، بجٹ خور، فنڈر خور، محکمہ خور،عوام خور،غریب خور وغیرہ کچھ بھی ہو سکتے ہیں لیکن جھوٹے بالکل نہیں ہو سکتے۔

جھوٹ سے تو انھیں شدید نفرت ہے بلکہ وہ تو اس کے قریب جانیکو گناہ کبیرہ جانتی ہیں اور زبان کے اتنے پکے ہیں کہ آپ ان کی زبان کاٹ کر ہتھوڑوں سے کوٹیں، آگ میں ڈالیں، تیزاب میں ڈبوئیں، سڑکیں کوٹنے والے انجن تلے رکھ دیں بلکہ ریل کی پٹڑی پر رکھ کر ایک سو بوگیوں والی ریل چلا دیں، ٹس سے مس نہیں ہو گی۔ اب یہ جو لوڈ شیڈنگ کے بارے میں اکثر کہتے ہیں کہ بہت جلد ختم ہو جائے گی تو اس پر بھی ہمیں پورا یقین ہے،بلکہ یقین بھی ایسا ہے کہ اس میںدور دور تک شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ چند سال میں یہ منحوس لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔

جب بجلی ہی نہیں ہو گی تو لوڈ شیڈنگ کس بات کی ہو گی، بانس ہی کو بیخ و بن سے اکھاڑا جائے تو بانسری کہاں سے آئے گی اور کیسے بجے گی۔ ویسے تو سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہمارا قارورہ بالکل بھی نہیں ملتا بلکہ اکثر کے ساتھ ہمارا چھتیس کا آکڑہ چلتا رہتا ہے لیکن ان میں بعض لوگ اتنے ’’بیبے‘‘ اور پیارے ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ ہماری دوستی ہو جاتی ہے اگرچہ یہ دوستی یک طرف ہوتی ہے لیکن پھر بھی دوستی تو دوستی ہوتی ہے، دراصل لیڈروں سے دوستی ممکن بھی نہیں ہوتی ،ان ہی کے بارے میں مرشد نے کہا ہے کہ

تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

اپنا اپنا شوق اور پیشہ ہوتا ہے کوئی گائے بھینس پالتا ہے کوئی مرغی مچھلی پالتا ہے تو کوئی بطخ خرگوش وغیرہ ۔ اب مچھلی پالنے والا یہ تو نہیں کر سکتا کہ بھینس بھی پالے، اسی طرح لیڈر لوگ بھی ’’دوست‘‘ بالکل نہیں پالتے بلکہ چمچے پالتے ہیں، تکنیکی طور پر آپ ان کو کیٹلری فارمنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہ لمبی تمہید ہم نے اس لیے باندھی ہے کہ آج ہمیں اپنے ایک لیڈر دوست کی کچھ تعریف کرنی ہے جو باقی تمام لیڈروں کی طرح بالکل سچے اور سچے لیڈر ہیں، نام ان کا امیر ہے لیکن یہ پتہ ہمیں کبھی نہیں چلا کہ کس مقام پر رہتے ہیں لیکن جہاں بھی رہتے ہیں خدا انھیں خوش رکھے اور ہماری دوستی سلامت رکھے، اور اب جب انھوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی تو ہمیں مکمل طور پر یقین ہو گیا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے دن گنے جا چکے ہیں یہ تو اب ہمیں یاد نہیں کہ انھوں نے ’’کب‘‘ لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔

شاید اگلا سال کہا ہے یا شاید اگلی صدی کہا ہو گا لیکن ہمیں ان کی سچائی پر یقین ہے کہ انھوں نے جو بھی کہا ہے سچ ہی کہا ہے اور سچ کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہا ہے، ان کی سچائی اور ایک بات پر اٹل رہنے کا تجربہ ہمیں یوں ہوا کہ انھوں نے ہمیں اپنا ایک ٹیلی فون نمبر دیا ہے جس پر ہم جب بھی کال کرتے ہیں … ہیں نہیں بلکہ کرتے تھے تو ایک ہی بات سننے کو ملتی تھی کہ اس نمبر سے فی الحال رابطہ ممکن نہیں … آپ یقین کریں کہ پورے تین چار سال میں مجال ہے جو ان الفاظ میں زیر زبر کی بھی کمی آئی ہو تب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ موصوف لیڈر ضرور ہیں لیکن بات کے پکے ہیں یعنی وہ رحمن بابا نے جو کہا ہے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا ہے

لکہ اونہ مسقیم پہ خپل مقام یم
کہ خزان را باندے راشی کہ بہار

یعنی میں کسی پیڑ کی طرح ایک ہی ’’مقام‘‘ پر کھڑا ہوں چاہے خزاں آئے بہار آئے آندھی طوفان آئے مجھے اپنے مقام سے بے مقام نہیں کر سکتا۔ اس لیے اگر انھوں نے کہہ دیا ہے کہ لوڈ شیڈنگ اگلے سال یا اگلے عشرے یا اگلی صدی یا ہزار سال میں ختم ہو جائے گی تو ہمیں بھروسہ ہے کہ ایسا ہی ہو گا اور چونکہ ہم نے ان کو دوست کہا ہے یک طرف ہی سہی تو اب انھوں نے جو یہ بات کہی ہے تو دوستی کا تقاضا کہے کہ ہم بھی ان کی بات کی لاج رکھنے کے لیے دامے درمے قدمے نہ سہی قلمے کالمے اور سخنے کچھ مدد کریں۔

یہاں پر کسی کے دل میں پھر کچھ کچھ ہو سکتا ہے کہ آخر جب لیڈروں سے ہماری بنتی نہیں ہے بلکہ ہماری تو اسپیشلسٹی یہ ہے کہ اچھے خاصے دوست بھی اپنے اصول پر وار دیتے ہیں خاص طور پر جب وہ اقتدار میں آجائیں، مثلاً اے این پی کو لے لیجیے ان کے اکثر لیڈر ہمارے لنگوٹیے تھے لیکن جب حکومت میں آئے تو … اب کیا بتائیں صرف اتنا یاد ہے کہ ان کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، بلکہ وہ چراغ ہی  نہ رہے تو روشنی کہاں سے آتی، دراصل اس میں بھی قصور سراسر ہمارا ہے ہماری شکل اتنی تبدیل ہو گئی کہ ہم خود کو خود بھی آئینے میں پہچان نہیں پا رہے ہیں تو کسی اور سے کیا ہو گا، لیکن جناب امیر مقام جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اتنے پیارے اپنے بیبے اور اتنے ذائقے دار ہیں جیسا کہ کسی نے کہا ہے

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

اب آتے ہیں اس منحوس روشنی چوس، آرام چوس، بلکہ سب کچھ چوس لوڈ شیڈنگ کی طرف … جب جناب امیر مقام نے کہا ہے تو اسے ہر حال میں ختم کرنا ہو گا، چونکہ ہمارا تعلق الفاظ کی دنیا سے ہے تو ہم ذمے داری لیتے ہیں کہ اس لفظ کو ایسا مٹا دیں گے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا داستانوں میں، نہ کبھی یہ لفظ کسی کہ منہ پر آئے گا، نہ قلم نہ زبان پر اور نہ کھیت کھلیانوں پر … اس کا ایک طریقہ تو وہ ہے جسے ایک بادشاہ نے اپنایا تھا اس بادشاہ کا نام نہ جانے کیسے مشہور ہو گیا چلیے آپ ’’ سادہ لوح‘‘ فرض کر لیں بادشاہ کو پتہ چلا کہ لوگ میرا ذکر  سادہ لوح کے نام سے کرتے ہیں تو اس نے پابندی لگائی کہ آج کے بعد جو بھی یہ نام لے گا اسے پانچ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

اب لوگ بھی تو وہی نہیں ہوتے جس لفظ پر پابندی لگی تھی چنانچہ انھوں نے بھی اپنا طریقہ نکال کیا کوئی ایسا کام کرتا جو اس لفظ کا متقاضی ہوتا تو دوسرا نام لیے بغیر کہتا … ہو تو ہو لیکن میرے پاس پانچ روپے نہیں … یا کاش میرے پاس پانچ روپے ہوتے تو ۔۔۔ یا ۔۔۔ یار تم تو پورے پانچ روپے کے نکلے مگر، مطلب یہ کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے لفظ پر سرکاری پابندی عائد کی جائے اور اس کی وصولی بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں کسی کے منہ سے جتنی بار بھی یہ لفظ نکلے بل میں اسے بطور جرمانہ درج کیا جائے۔

ویسے بھی کس کو یاد رہے گا کہ اس نے کتنی بار اس لفظ کا استعمال کیا ہے اور بل تو ویسے بھی ’’بل‘‘ ہوتا ہے کوئی ہاتھ ڈالے گا تو خود کو کسی سانپ بچھو سے کٹوائے گا، اس طریقے میں اگرچہ حکومت کا فائدہ بہت ہے اگر پانچ روپے فی لوڈ شیڈنگ کے لگائے جائیں تو کم از کم دو چار وزیروں کا کام تو ہو جائے گا لیکن چونکہ اس میں تھوڑی سی زبردستی اور بدنامی ہے اس لیے یہ طریقہ صحیح نہیں ہے، اس کے بجائے ہمارے ذہن میں جو طریقہ اس لفظ کا قلع قمع کرنے کے لیے ہے وہ نہایت ہی مناسب بلکہ کم خرچ اور بالا نشین ہے کہ اس کم بخت منحوس کابوس کی ماں کو مار دیا جائے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا ہے کہ جب ماں ہی نہ ہو گی تو اولاد کہاں سے آئے گی اور جب ماں نہیں ہو گی اور اس بکرے کی خیر نہ منائے گی تو ایک دن اس لفظ کا خاتمہ یوں ہو جائے گا جس طرح ہمارے صوبے سے وزیراعلیٰ اور وزیروں نے مل کر عمران خان کی آشیرباد سے کرپشن کا خاتمہ کیا ہوا ہے۔ ویسے حکومت اور جناب امیر مقام کے لیے ایک خوش خبری اور ہے، بجلی اور حکومت کی مہربانیوں سے سرشار ہو کر عوام نے جس تیزی کے ساتھ سولر انرجی سسٹم کو اپنانا شروع کیا ہے اس کی بنیاد پر ہم انھیں صلاح دیں گے کہ نہایت یقین کے ساتھ بلکہ قسم اٹھا کر وہ یہ بیان دے سکتے ہیں کہ اگلے دو سال میں بجلی اور لوڈ شیڈنگ دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اب حکومت کو اپنی پیاری پیاری بجلی راج دلارے لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی مد میں اپنی بے پناہ آمدنی کا تحفظ کرنا ہے تو جلدی سے سولر انرجی کے آلات پر پابندی لگائیں یا اتنا ٹیکس لاگو کر دیں کہ لوگ توبہ توبہ کرنے لگیں، ورنہ حکومت اپنے دوسرے ’’کاموں‘‘ میں مصروفیت کی وجہ سے بالکل بے خبر ہے کہ سولر سسٹم ملک کو بہت جلد فتح کرنے والا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔