سی پی ایل میچز سے امریکا میں کرکٹ کوفروغ ملے گا، کمار سنگاکارا

اسپورٹس ڈیسک  پير 25 جولائی 2016
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

نیویارک: کیریبیئن پریمیئر لیگ کا افتتاحی میچ امریکا میں جمعے کو کھیلا جائیگا، جمیکا تلاواز کی ٹیم سی پی ایل میچز کے انعقاد سے6 دن پہلے لائوڈر ہل کے سینٹرل بورڈ ریجنل پارک پہنچ چکی ہے۔

تلاواز کے وکٹ کیپر کمارا سنگاکارا جو 2010 میں اسی مقام پر امریکا میں کھیلے جانیوالے پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ میں سری لنکا کی ٹیم کی قیادت بھی کر چکے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی پی ایل امریکا میں کرکٹ کی ترقی میں مدد فراہم کریگا، تلاواز کی جانب سے پہلی پریس کانفرنس میں کمارا سنگاکارا نے کہا کہ یہاں واپس آنے پر کافی پرجوش ہوں، مجھے یاد ہے کہ جب یہاں 2010میں نیوزی لینڈ کیخلاف ہم نے میچ کھیلا تھا، وہ 2 نہایت مسابقتی میچز تھے، میرے یہ خیال میں وہ ایک ایک سے برابری پر ختم ہوئے اور ہم نے یہاں کافی تفریحی وقت گزارا تھا، فورٹ لائوڈرڈیل میں کرکٹ کی واپسی اور برورڈ پارک میں کرکٹ میچز کی دوبارہ موجودگی سے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہاں اس کھیل کو دیکھنے والوں کی تعداد بڑھے، نئے دیکھنے والوں کی یہاں آنے کیلیے ہمت افزائی کرنا کہ وہ دیکھیں کرکٹ کے میدان میں کیا ہوتا ہے اور بیس بال اور کرکٹ میں فرق ملاحظہ کرسکیں۔

امید کی جارہی ہے کہ شائقین کافی حد تک کرکٹ کو سمجھ سکیں اور یہ انھیں پسند آئے کہ وہ اسے کھیلنے کا بھی تجربہ کریں، سنگاکارا جب پہلی بار یہاں آئے تو انھوں نے کچھ خاص پرفارمنس کامظاہرہ نہیں کیا تھا کہ جس سے نئے شائقین اس کھیل کی جانب متوجہ ہوتے، یہاں کھیلی جانے والی 4میں سے 3اننگز میں 100سے بھی کم رنز بنائے گئے، مجموعی طور پر 2میچز میں محض4چھکے ہی لگ پائے، اس کے دو سال بعد ویسٹ انڈیز نے نیوزی لینڈ کیخلاف میچ میں یہاں 2وکٹوں کے نقصان پر 209رنز اسکور کیے جو اس وقت کا ریکارڈ ٹوٹل بھی تھا، تاہم یہاں ہائی لیول کے کرکٹ میچ کا انعقاد ہوئے تقریباً 4سال بیت چکے ہیں، نیوزی لینڈ کے کیوریٹر مارک پرہام کی خدمات پچز بنانے کیلیے حاصل کی گئی ہیں۔

سنگاکارا نے کہا کہ پچ کافی بہتر نظر آرہی ہے اور پچھلے کئی سالوں میں جو رپورٹس ہمارے سامنے آئی ہیں اس کے مطابق پچز کو بہتر بنانے کیلیے بہت کام کیا گیا ہے، سنگاکارا نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ شائقین اور عام امریکن یہ دیکھنے کیلیے ضرور آئیں گے کہ یہاں کیا ہورہا ہے، انھیں اس کے بارے میں تجسس ہوگا کیوں کہ وہ اس حوالے سے پہلے ٹی وی پر سن چکے ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔