پاکستانی جنرز60سال بعد بھی روئی کابرانڈ متعارف نہ کراسکے

بزنس رپورٹر  منگل 26 جولائی 2016
پاکستانی کسان اور جنرز سالانہ لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں،چیئرمین کاٹن جنرزفورم فوٹو : فائل

پاکستانی کسان اور جنرز سالانہ لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں،چیئرمین کاٹن جنرزفورم فوٹو : فائل

 کراچی:  پاکستانی روئی برانڈنگ نہ ہونے کے باعث عالمی سطح پر بہتر کوالٹی کی قیمت سے محروم ہے حالانکہ پاکستانی روئی بہترین ریشے کی حامل ہے لیکن ’’ان برانڈڈ‘‘ ہونے کے سبب کم قیمت پرفروخت کی جارہی ہے، پاکستانی جنرز 60سال بعد بھی روئی کا کوئی برانڈ متعارف نہ کراسکے جبکہ امریکا، بھارت اوردیگر ممالک کی روئی کو برانڈڈ ہونے کے سبب عالمی سطح پر اچھی قیمت مل رہی ہے جس سے ان ممالک کو زرمبادلہ کی صورت میں کئی گنازیادہ آمدنی ہو رہی ہے تاہم پاکستانی کسان اور جنرز سالانہ لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ بھارت کے روئی کے برانڈز ڈی سی ایچ۔32، ایم سی ایچ۔5 ، بنی اور شنکر۔6 جبکہ امریکی کاٹن برانڈز پیما اور ای.موٹ اس وقت دنیا بھر میں مشہور ہیں اور پاکستانی روئی کے مقابلے میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہورہے ہیں لیکن پاکستانی روئی کا ریشے کی لمبائی اورمضبوطی کے لحاظ سے بھارتی روئی کے ہم پلہ ہونے کے باوجود ابھی تک کوئی برانڈمتعارف نہیں کرایا جا سکا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستانی روئی کی زیادہ سے زیادہ قیمت 6ہزار800روپے فی من تک ہے جبکہ امریکی روئی پیما کی قیمت 10ہزار300 روپے فی من، بھارتی برانڈ ڈی سی ایچ۔32 کی قیمت 9 ہزار500روپے فی من، ایم سی ایچ۔5کی قیمت 8 ہزار 350 روپے فی من، بنی کی قیمت 8 ہزار 250 روپے فی من جبکہ شنکر۔6کی قیمت 7 ہزار900روپے فی من تک ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاٹن جنرز اور ٹیکسٹائل ملز مالکان کوچاہیے کہ وہ بھی باہمی مشاورت سے پاکستانی روئی کا برانڈ متعارف کرائیں تاکہ پاکستانی روئی بھی دنیا کے دیگر ممالک کے برانڈز کے مقابلے میں مہنگے داموں فروخت ہوسکے تاہم ذرائع کے مطابق پاکستان میں روئی کا برانڈمتعارف نہ ہونے میں بعض بڑے ٹیکسٹائل گروپس حائل ہیں کیونکہ ان کے خیال میں برانڈڈ روئی مارکیٹ میں آنے کی صورت میں ٹیکسٹائل ملزمالکان کو زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔