جی ہاں، زندگی بس اسی کا نام ہے

ذیشان الحسن عثمانی  منگل 26 جولائی 2016
اللہ بھی ایسے ہی کرتا ہے۔ بندہ پریشان ہوجاتا ہے پھر خدا قسمیں کھاتا ہے کہ اس نے ہمیں چھوڑا نہیں، نہ ہی ناراض ہوا۔ بلکہ عنقریب ہمیں اتنا کچھ دے دے گا کہ ہم بھر جائیں گے۔ فوٹو: فائل

اللہ بھی ایسے ہی کرتا ہے۔ بندہ پریشان ہوجاتا ہے پھر خدا قسمیں کھاتا ہے کہ اس نے ہمیں چھوڑا نہیں، نہ ہی ناراض ہوا۔ بلکہ عنقریب ہمیں اتنا کچھ دے دے گا کہ ہم بھر جائیں گے۔ فوٹو: فائل

زندگی کا پہیہ گھومتا رہتا ہے، کبھی اوپر کبھی نیچے، اور اِس پہیے کا سوار اِنسان سمجھتا ہے کہ دنیا اس کے زورِ بازو پر چل رہی ہے۔ جب اِنسان اس کے اوپر ہوتا ہے تو ایک بدمست ہاتھی کی طرح ان لوگوں کو کچلتا چلا جاتا ہے جن کی باری نیچے کی ہوتی ہے۔ بغیر یہ سوچے سمجھے کہ ابھی کچھ ہی دیر میں اس نے بھی نیچے آنا ہے۔ پہیے کا تو کام ہی گھومنا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ سوار کون ہے؟ کیا ذات ہے؟ کس مذہب کا ہے؟ قومیت یا رنگ کیا ہے؟ وہ تو بس گھومتا رہتا ہے، کبھی کسی کو اوپر کردیا اور سوار پر زندگی کھلتی چلی گئی تو کبھی کسی کو انتہائی بلندی سے فرش پر دے مارا اور زندگی کچلتی چلی گئی۔

کسی کے لئے یہ بلندی پر پہنچ کر کچھ دیر کو رک جاتا ہے کہ آزمائش ہو کہ بندہ کیسے برتاو کرتا ہے، تو کسی کی آزمائش نیچے رک جانے سے ہوتی ہے کہ مصیبت و پریشانی کے وقت کیا کرتا ہے؟

بڑا مشکل ہے یہ کہنا کہ کب کس کی آزمائش ہے۔ بظاہر تو وہ بندہ جس پر زندگی تنگ ہوگئی ہو آزمائش میں نظر آتا ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ آزمائش کی بھٹی سے گزر کر کندن بن رہا ہوتا ہے اور قدرت آپ کے اُس کے ساتھ برتاو کو آپ کی آزمائش بنا کر آپ کو پرکھ رہی ہوتی ہے۔ کسی ایسے بندے کا احتساب کرنا جسے اللہ پاک نے چھوٹ دے رکھی ہو، خدائی کاموں میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اگر گناہ ہی گننے ہیں تو کیا اپنے کم ہیں؟ کسی کے دو چار کھل گئے تو کیا ہوا۔ آپ کے جو ہزاروں اللہ نے ڈھک دئیے ہیں ان پر شکر اور توبہ کرتے رہیں۔ سمجھنے کی بات ہے کہ انسانی جذبات، مقدمات اور کلیات اللہ پر لاگو نہیں ہوتے۔ یہ بات ہی غلط ہے کہ اللہ گناہگاروں سے کام نہیں لیتا۔ وہ اپنے علم کے باوجود جسے چاہے چن لے۔ اس سے کس نے پوچھنا ہے؟ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ متقی کا رزق اور ظالم کی گرفت دونوں ناگہانی ہیں۔ ایسی جگہ سے آتی ہے جہاں کا وہم و گمان بھی نہ ہو۔

اپنے آپ پر کام کرنا چاہئیے۔ بندہ علم حاصل کرے۔ کسی فیلڈ میں ہو، اُس میں ٹاپ پر پہنچے اور ساتھ میں اللہ کا ذکر کرتا رہے۔ ساتھ میں کسی اللہ والے کی مجلس میں جاتا رہے۔ کوئی نسبت باندھ لے تو بہت آسانی ہوجاتی ہے۔ نسبت کا اپنا رنگ ہوتا ہے۔ بندہ بھٹک بھی جائے تو یہ کھینچ لیتی ہے۔ توبہ کی توفیق مل جاتی ہے۔ بندہ جڑا رہتا ہے۔ ہلکے ہلکے کام ہوتے رہتے ہیں۔

انٹرپرنئیرشپ اور اِسٹارٹ اپ کی دنیا میں ہم لوگوں کو بلین ڈالر ایگزٹ کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ جب مر جائیں اور جنت کے فرشتے روح قبض کرنے آئیں تو یہ ہوگا بلین ڈالر ایگزٹ جس پر فخر کیا جاسکے۔ اگر اِدھر عذاب کے فرشتے آگئے اور آپ کے پاس دو چار بلین ڈالر بینک اکاونٹ میں پڑے ہوئے ہوں تو یقین جانیے بنکرپسی (دیوالیے) سے بُری صورتحال ہے کہ اس کے بعد موقع کوئی نہیں۔

میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ ارب پتی کا مطلب ہے کہ آپ ایک ارب لوگوں کی زندگی میں کوئی بہتری کوئی اُمید لا سکیں۔ نہ کہ یہ کہ ایک ارب بے جان کاغذ کے نوٹ آپ کے بینک کے رجسٹر میں ایک ہندسہ ظاہر کر رہے ہوں۔ بے اُمید، بے جان، احسان فراموش ہندسہ۔

ہر بندے کی اپنی ایک آکاس بیل ہوتی ہے جو اسے اندر سے چمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ بظاہر کچھ نظر نہیں آتا مگر اندر سے کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اِس آکاس بیل پر نظر رکھنی چاہیے۔ کسی کے لئے یہ حسد، تو کسی کے لئے جنس، کسی کی کینہ تو کسی کے لئے ظلم۔ اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ وہ رب ہے۔ وہ تنہا نہیں چھوڑتا، ہم اکیلے رہ جاتے ہیں اور دونوں میں بڑا فرق ہے۔

کبھی کسی ماں کو دیکھا ہے جب وہ بچے کو چلنا سکھا رہی ہوتی ہے تو وہ اسے دیوار کے ایک کونے میں کھڑا کرکے دوسرے کونے میں جا کر بیٹھ جاتی ہے اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر اُسے اپنی جانب پکارتی ہے۔ یہاں بچہ ذرا سا ڈگمگایا وہاں اس کا کلیجہ منہ کو آیا۔ اس کے باوجود وہ دور بیٹھی پکارتی رہتی ہے کہ بچہ خود چل کر اس کے پاس پہنچے اور بچہ تو انسان ہی کا ہے نا! عجلت پسند، چلنے سے پہلے دوڑنا چاہتا ہے۔ خیر دیر بدیر پہنچ ہی جاتا ہے، چلنا سیکھ ہی لیتا ہے۔ اب اگر یہ بچہ آپ سے کہے کہ مجھے تو میری ماں نے بے آسرا چھوڑ دیا، مجھے بھول گئی، میری پرواہ نہ کی تو اس بات میں کتنی صداقت ہوگی؟

اللہ بھی ایسے ہی کرتا ہے۔ بندہ پریشان ہوجاتا ہے پھر خدا قسمیں کھاتا ہے کہ اس نے ہمیں چھوڑا نہیں، نہ ہی ناراض ہوا۔ بلکہ عنقریب ہمیں اتنا کچھ دے دے گا کہ ہم بھر جائیں گے۔

زندگی کے نشیب و فراز میں چڑھتے ڈوبتے، مسکراتے بلکتے، پھسلتے اور کچلتے انسانوں پر کمنٹری کرنے والوں کو ڈرنا چاہئیے کہ زندگی کو نقاد پسند نہیں۔ زندگی، زندگی چھین لیتی ہے اور ایسے لوگ سوائے عبرت کے کسی کام کے نہیں رہتے۔

ہمیں تو صرف دعا ہی مانگنی چاہیے کہ بندگی کا کچھ حصہ ہمیں بھی مل جائے۔ یہ ایسی نوکری ہے جس میں ہر ملازم کا بلین ڈالر ایگزٹ ہے۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے جسے لگ جائے وہ باقی نہیں رہتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔