ایک محققانہ کالم

سعد اللہ جان برق  بدھ 27 جولائی 2016
barq@email.com

[email protected]

اب ہم پچھتا رہے ہیں کہ آخر ہمیں کس ’’بھڑ‘‘ نے کاٹا تھا کہ میدان تحقیق میں ہم بھی اپنے نحیف و نزار ٹٹو کو دوڑائیں، ٹھیک ہے مرض تو ہمیں تحقیق کا لگ چکا ہے، پشتو اکیڈمی اور اس طرح کی دیگر اکیڈمیوں کی ’’بری‘‘ صحبت کا کچھ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا اور پھر اپنے یہاں یہ جو قانون نافذ کرنے اور تحقیق و تفتیش کے بے شمار ادارے ہیں ان سے روزانہ کا واسطہ پڑنے کا بھی تو کچھ نہ کچھ اثر تو ہونا ہی تھا کیوں کہ صحبت کا اثر تقریباً تمام اقوال زرین والے بزرگوں نے تسلیم کیا ہے جیسے

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طامع ترا طامع کند

ہمارے عزیزوں میں ایک شخص کو دمے کا مرض لاحق ہو گیا تھا اس نے کسی بھی قسم کے معالجوں کو نہیں چھوڑا حتیٰ کہ دموں، تعویزوں اور جن نکالنے والوں سے بھی رجوع کیا کہ شاید یہ کوئی مرض نہ ہو بلکہ جن ہو اور جن نکالنے والوں نے یہی کہہ بھی دیا تھا کہ اس تگ و دو میں ’’دمہ‘‘ تو اس کے دم کے ساتھ رہا لیکن فائدہ تو یہ ہوا کہ ڈاکٹری کی دکان کھول ڈالی کیوں کہ ھمہ اقسام کے طریقہ ہائے علاج کی دواؤں کے نام اور اصطلاحات اسے ازبر ہو گئی تھیں، ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور ہم بغیر کسی ارادے یا خواہش کے محقق بن گئے، اس کا پتہ ہمیں یوں چلا کہ ایک دن راستے چلتے ہوئے ہم اچانک ٹھٹک گئے اور ایک دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر سوچنے لگے کہ آخر گائے یا بھینس اس دیوار پر چڑھی کیسے ہو گی جو گوبر سے لت پت تھی، اس کے بعد ہم نے خود میں پیدا ہونے والے اس ’’جوہر‘‘ کو آزمایا تو واقعی ہم محقق بن چکے تھے۔

اس کالم میں بھی کبھی کبھی تحقیق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا نحیف و نزاد ٹٹوئے تحقیق دوڑاتے رہتے ہیں مثلاً ہم نے یہ تحقیق کر لی تھی کہ علی بابا والے چور کہاں گئے اور ان کا غار اب کہاں ہے، غار بلکہ غاروں کے بارے میں تو ہم بتا سکتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ اور انگلینڈ میں منتقل ہو گئے لیکن چوروں کے بارے میں نہیں بتا پائیں گے کیوں کہ ایک تو وہ اب چالیس نہیں بلکہ ہزاروں میں ہیں اور رہتے ایسے مقام پر ہیں جہاں وہ اگرچہ ہماری دسترس میں نہیں ہیں لیکن ہم اکثر ان کی دسترس میں ہیں اور ہمیں یہ بالکل پسند نہیں کہ کسی دن وہ ہمیں بھی کسی ایسے زیر زمین غار میں ڈال دیں جو سم سم سے نہیں کھلتا ہو، خیر یہ بات ہم نے اس لیے شروع کی کہ اب ہم اس محقق کے دم چھلے سے بہت زیادہ تنگ آئے ہوئے ہیں ایک تو اکثر لوگ ہم سے عجیب عجیب قسم کے سوالات کرتے رہتے ہیں کہ ہو از ہو اینڈ وہٹ از ہٹ بلکہ ہاؤ از ہاؤ تک بات چلی جاتی ہے۔

ابھی چند روز پہلے کی بات ہے ایک شخص نے ہم سے ’’یک جہتی‘‘ کے ویر اباؤٹ کا پوچھا، کہ دنیا کے کسی بھی ’’نکرے‘‘ میں کچھ بھی ہو جاتا ہے تو اپنے ہاں متاثرین کے ساتھ ’’یک جہتی‘‘ کا اظہار کرنے کے جلوس نکلتے لگتے ہیں، پوچھا اس نے یہ تھا کہ یہ ’’یک جہتی‘‘ ہوتی کیا ہے، ہوتی ’’کیسے‘‘ ہے یہ اس کو پتہ تھا کہ دکانوں گاڑیوں وغیرہ کے شیشے توڑنے وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے بلکہ اصل سوال اس نے یہ پوچھا تھا کہ اس ’’یک جہتی‘‘ کے اظہار کو مطلوبہ مقام تک پہنچایا کیسے جاتا ہے؟ لوگ دعوتوں میں کھانے اڑاتے ہیں اور ہم یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اس مرغ نے کیا گناہ کیا تھا اس بھیڑ بکڑی نے کون سا جرم کیا تھا اور کیا جن لوگوں نے یہ چیزیں پالی ہیں یا اگائی ہیں انھوں نے اور ان کے بال بچوں نے کبھی ان کا ذائقہ چکھا ہو گا یا نہیں۔ اس مرتبہ تو خیر افطار پارٹیاں نہ ہونے کے برابر تھیں کیوں کہ جن لوگوں کے دم قدم سے سرکاری خرچ پر افطاریاں ہوا کرتی ہیں ان میں زیادہ ’’معکف‘‘ ہو گئے تھے اور وہ مال جو صحافیوں وغیرہ پر خرچ ہونا تھا مساکین کے رمضان پیکیج میں کھپا دیا گیا۔

خدا خوش رکھے ایک ہمارے پولیس جرنیل جناب ناصر خان درانی کو جنہوں نے اصل مساکین کے لیے ایک افطار پارٹی دی اور اس لحاظ سے منفرد افطار پارٹی تھی کہ انھوں نے بدلے میں کچھ بھی نہیں ’’بیچا‘‘ جس طرح اکثر پارٹیاں دی ہی اسی لیے جاتی ہیں کہ صاحبان کو تقریر وغیرہ کی صورت میں کچھ نہ کچھ بیچنا ہوتا ہے، خیر یہ تو بیچ میں یونہی ذکر آگیا اصل رونا ہم اپنی تحقیق کا رو رہے ہیں جو اب ہمارے منہ میں چھچھوندر ہو گئی ہے۔ ایک صاحب نے اس قصے کے بارے میں پوچھا ہے جس میں بادشاہ نے وزیر کو ایک دنبہ دیا تھا کہ اسے روزانہ ایک سیر چنا کھلاؤ گے اور سال بھر کے بعد اس کا وزن اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا اب ہے اور پھر وزیر کی بیٹی نے اس کا یہ حل نکالا تھا کہ دنبے کے سامنے ایک کتا باندھ لیا، دنبے کو چنا کھلاؤ اور کتے کو بھوکا رکھو اسی طرح وہ بھونک بھونک کر دنبے کی جان نکالتا رہے گا اور حکیموں کی اصطلاح میں خوراک اس کا جزو بدن نہ ہو گی۔

اب آپ ہی بتایئے ہم نے تو محض یہ قصہ کہیں سنا تھا کسی نانی دادی سے… ہمیں کیا پتہ ہے کہ اس بادشاہ وزیر اور اس کی بیٹی کا تعلق کس ملک سے تھا لیکن اب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نہ صرف یہ تحقیق کریں کہ یہ لوگ کس ملک کو بیلانگ کرتے ہیں بلکہ یہ بھی بتا دیں کہ یہ بادشاہ اور وزیر لوگ اتنے اسٹوپڈ کیوں ہوتے ہیں، کیا ان کو کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا تھا، آخری سوال کا جواب تو آسان ہے واقعی ان کو کوئی ’’دوسرا کام‘‘ نہیں ہوتا تھا کیوں کہ اس زمانے میں یہ سوئٹزر لینڈ، انگلینڈ اور اوبابہ لینڈ یا دبئی وغیرہ نہیں ہوتے تھے، لیکن باقی باتوں کی تحقیق کے لیے ہم نے نہ جانے کتنے کنوؤں میں بانس ڈالے، دانتوں پسینے آگئے تب کہیں جا کر پتہ چلا کہ اصل ماجرا کیا تھا ویسے اس ملک کا نام ہم اب بھی نہیں بتا پائیں گے کیوں کہ

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

البتہ یہ بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ بادشاہ یہیں کہیں تھا اور وہ اتنا اسٹوپڈ بھی نہیں تھا دراصل اسے تحقیقاتی اداروں نے رپورٹ دی تھی کہ عوام کو اچھا کھانے پینے کو مل رہا ہے خطرہ ہے کہیں بغاوت پر نہ اتر آئیں تب بادشاہ نے بالواسطہ طور پر وزیر کو دبنے کا ٹاسک دیا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وزیر کی بیٹی بڑی دانا ہے اور جب یہ کام کا نکتہ اسے مل گیا تو بادشاہ نے عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے ان کے سامنے ایک بڑا سا ڈراونا خطرناک اور خونخوار قسم کا کتا باندھ دیا، آپ مان لیں گے کہ ہم واقعی محقق ہیں کیوں کہ ہم نے اس کتے کا نام تک معلوم کر لیا ہے اس کا نام نامی اور اسم گرامی مہنگائی تھا جو عوام کا کھایا پیا نکالتا رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔