ثقلین مشتاق غدار نہیں

سلیم خالق  بدھ 27 جولائی 2016
اگر ثقلین نے تین دن میں ہی انگلینڈ کو جتوا دیا تو ایسا شخص پچاس لاکھ روپے بھی مانگے تو فوراً بلا لینا چاہیے۔ فوٹو: فائل

اگر ثقلین نے تین دن میں ہی انگلینڈ کو جتوا دیا تو ایسا شخص پچاس لاکھ روپے بھی مانگے تو فوراً بلا لینا چاہیے۔ فوٹو: فائل

’’غدار ثقلین انگلینڈ کے پاس چلا گیا، نام اور دولت کمائی پاکستان سے اب پاؤنڈز کی کشش میں اپنی ٹیم کے ہی خلاف ہو گیا‘‘

اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو بخوبی علم ہو گا کہ آج کل ثقلین مشتاق زیرعتاب آئے ہوئے ہیں، اتفاق سے ان کے انگلش ٹیم کا بولنگ کنسلٹنٹ بنتے ہی پاکستان دوسرا ٹیسٹ ہار گیا، پہلے میچ کے ہیرو یاسر شاہ بُری طرح فلاپ ہو گئے، میزبان بیٹسمینوں نے ان کا اس بار بھرپور اعتماد سے سامنا کیا، معین علی کی بولنگ بھی نکھری ہوئی نظر آئی، ثقلین میچ سے صرف دو، تین روز قبل ہی انگلینڈ پہنچے تھے، ایسا تو کوئی جادوگر ہی کرسکتا ہے کہ راتوں رات کسی ٹیم کی کارکردگی میں ڈرامائی تبدیلی لے آئے اور اسے وننگ یونٹ میں تبدیل کر دے، اگر ثقلین اتنے باصلاحیت ہیں تو پی سی بی سے پوچھنا چاہیے کہ انھیں کیوں کوچ نہیں بنایا، وہ بیچارے درخواست دیتے تو جواب تک نہیں دیا جاتا تھا، اب پہلے سے ہی غیرملکی کوچ لانے کا اعلان کر دیا گیا تھا تو انھوں نے اپلائی ہی نہیں کیا۔

اگر ثقلین نے تین دن میں ہی انگلینڈ کو جتوا دیا تو ایسا شخص پچاس لاکھ روپے بھی مانگے تو فوراً بلا لینا چاہیے، مگر حقیقت یہ نہیں ہے، ثقلین یقیناً ایک باصلاحیت بولر رہے اور اب کوالیفائیڈ کوچ ہیں مگر ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی موجود نہیں، دیگر کوچز کی طرح وہ صرف سمجھا ہی سکتے ہیں، فیلڈ میں کھیلنا پلیئرز کو ہی پڑتا ہے، اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ سے قبل بھی ایسا ہی ہوا، سابق اسپنرنے انگلش ٹیم کو مشورے دیے، میزبان پلیئرز پہلے ہی شکست پر دل شکستہ اور انتقام کیلیے مچل رہے تھے، انھوں نے گھنٹوں لارڈز ٹیسٹ کی ویڈیوز دیکھیں، اپنی غلطیوں پر غور کیا، یاسر شاہ کی بولنگ کو بغور دیکھا، پھر پورا کوچنگ پینل اس کے توڑ میں مصروف عمل ہو گیا، اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

ٹیم نے بھرپور کم بیک کرتے ہوئے بڑی فتح سے سیریز برابر کر دی، یقیناً اس میں ثقلین کے مشوروں کا بھی کردار ہے مگر ایسا نہیں کہ صرف ان کے آنے سے انگلینڈ جیت گیا،ہر شکست کے بعد ہمیں قربانی کے بکروں کی تلاش ہوتی ہے، اس بار حریف کیمپ میں ثقلین کی صورت میں آسان شکار مل گیا تو اب ان پر تنقیدی نشتروں کی برسات کر دی گئی، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ ایک پروفیشنل کوچ ہیں، پہلے بھی انگلینڈ سمیت نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کیلیے خدمات انجام دے چکے، اب بھی اگر انگلش بورڈ نے بلایا تو چلے گئے، جیسے مرلی دھرن ان دنوں اپنے ملک سے سیریز میں آسٹریلیا کے بولنگ مشیر ہیں، کرکٹ میں ایسا ہوتا رہتا ہے، خود ہمارے کوچ مکی آرتھر اب آسٹریلوی شہری بن گئے اور رواں سال کے اختتام پر کینگروز سے سیریز میں گرین کیپس کی رہنمائی کریں گے، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ میچ میں کیا غلطیاں ہوئیں جن کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، سب سے پہلی بات حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہونا تھی، پلیئرز لارڈز میں فتح کے بعد سمجھنے لگے کہ سیریز ہی جیت لی ہے۔

انھوں نے انکساری کے بجائے متکبرانہ انداز اپنایا جو کہ غلط تھا،انگلینڈ میں موجود چیئرمین بورڈ شہریارخان نے بھی تعریفوں کے پل باندھ دیے، ڈنر پر لے کر جانا اچھی بات تھی مگر اس کی بے تحاشا تشہیر سے وہ کیا بتانا چاہ رہے تھے، تھوڑا انتظار تو کر لیتے، یہ کامیابی پلیئرز کے دماغ پر سوار ہو گئی اور وہ مانچسٹر میں بالکل تبدیل شدہ روپ میں نظر آئے، ہماری ٹیم ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی عادی ہے بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، اوپنرز تو دبئی کی پچز پر جدوجہد کرتے ہیں اولڈ ٹریفورڈ میں تو انھیں بیٹنگ کا بالکل بھی اندازہ نہ ہوا،شان مسعود کو فاسٹ بولرز کے سامنے اپنی تکنیک اور فٹ ورک بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی، محمد حفیظ نے ٹور میچ میں بہتر پرفارم کیا مگر لارڈز میں مصباح نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ اچھے آغاز کو بڑی اننگز میں تبدیل نہیں کر پا رہے ہیں بات بالکل یہی ہے،پابندی کے سبب وہ اب بولنگ نہیں کر رہے ایسے میں بطور بیٹسمین ناکامی مسائل بڑھا سکتی ہے۔

خوش قسمتی سے ہمارے پاس مناسب متبادل موجود نہیں اسی لیے زیادہ تبدیلیاں کرنا ممکن نہیں، اسی کا بعض کھلاڑی فائدہ اٹھا رہے ہیں،اظہر علی کی فارم بھی باعث تشویش ہے، یونس خان کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ دس ہزار رنز کے قریب پہنچنے والے ہیں، وہ دوران بیٹنگ عجیب و غریب انداز اپنا رہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ٹیل اینڈر اچھل کود کر رہا ہے، ٹاپ آرڈر کی متواتر ناکامیوں سے مصباح الحق پر دباؤ بڑھ جاتا ہے مگر وہ تن تنہا کیسے ہر بار ٹیم کو سنبھال سکتے ہیں، اسد شفیق نے پہلے ٹیسٹ میں اچھی اننگز کھیلیں مگر پھر دوسرے میچ میں فلاپ رہے، سرفراز احمد وکٹ کیپنگ میں کیچز ڈراپ کرنے کے ساتھ بڑی اننگز کھیلنے میں بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں، ٹیم میں آل راؤنڈرز کا نہ ہونا بھی بڑا مسئلہ اور ٹیل بہت جلدی شروع ہو جاتی ہے، سلپ کیچنگ کا معیار بھی پست ہے، جب حفیظ اور یونس جیسے سینئرز کیچز ڈراپ کریں تو کسی اور سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔

اسپنر یاسر کے ساتھ عامر، وہاب اور راحت پر مشتمل پیس اٹیک بھی دوسرے ٹیسٹ میں بے دانت کا شیر نظر آیا، جس وکٹ پر انگلینڈ نے رنز کے انبار لگا دیے وہاں ہماری بیٹنگ بدترین ناکامی کا شکار نظر آئی اس کے اسباب تلاش کرنے چاہئیں، ابھی دو ٹیسٹ باقی ہیں لہذا ہمت ہارنا درست نہ ہوگا، انہی کھلاڑیوں نے لارڈز میں قوم کا سر فخر سے بلند کیا تھا اب آئندہ میچز میں بھی ایسا کر سکتے ہیں، ہمیں ثقلین مشتاق یا کسی اور کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، ہیروز کو اتنی جلدی زیرو نہ بنائیں تھوڑا انتظار کریں، سیریز کا نتیجہ دیکھیں پھر اندازہ ہو جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے، ابھی تو دو ہی ٹیسٹ ہوئے ہیں،آدھی سیریز گذرنے پر اب میڈیا منیجر آغا اکبر واپسی کیلیے سامان باندھ چکے ہیں۔

دورے میں انھوں نے کوئی کام نہ کیا اور مفت کی چھٹیوں سے ہی لطف اندوز ہوئے، سوشل میڈیا کے عون زیدی خاصے متحرک رہے جس کی وجہ سے میڈیا کو بروقت تصاویر،ویڈیوز اور دیگر معلومات ملتی رہیں ورنہ میڈیا منیجر مزید بُری طرح ایکسپوز ہو جاتے،دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیریز کیلیے لندن کے ایک ہوٹل مالک کی بھی پاکستانی میگزین کیلیے میڈیا ایکریڈیٹیشن ہوئی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملات کس سمت میں گامزن ہیں، خیر اب امجد حسین بھٹی کی آمد سے بہتری کی توقع ہے، لندن کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے والے چیف سلیکٹر انضمام الحق جیسے ہی اسٹیڈیم آئے ٹیم ناکام ہو گئی ، انھوں نے کیسی سلیکشن کی یہ سب کے سامنے ہے ہمارے پاس کوئی مناسب متبادل اوپنر ہی موجود نہیں ہے،پلیئرز بھی اپنے اہل خانہ کا قیام بڑھانے میں کامیاب ہو گئے، انھوں نے بورڈ کے سامنے تو اپنی طاقت ظاہر کر دی اب انگلینڈ سے سیریز میں بھی اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔