انسانی ناک سے دنیا کی مؤثر ترین اینٹی بایوٹک بنانے والے جراثیم دریافت

ویب ڈیسک  بدھ 27 جولائی 2016
یہ اینٹی بایوٹک سب سے سخت جان جرثوموں کے خلاف بھی کارآمد ثابت ہونے کی امید ہے، ماہرین، فوٹو؛ فائل

یہ اینٹی بایوٹک سب سے سخت جان جرثوموں کے خلاف بھی کارآمد ثابت ہونے کی امید ہے، ماہرین، فوٹو؛ فائل

جرمنی: جرمنی کے سائنسدانوں نے انسانی ناک میں دنیا کی مؤثر ترین اینٹی بایوٹک بنانے والے جراثیم دریافت کر لیے ہیں اور یہ اینٹی بایوٹک سب سے سخت جان جرثوموں کے خلاف بھی کارآمد ثابت ہونے کی امید ہے۔

اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف جرثوموں میں بڑھتی ہوئی مزاحمت ایک سنگین طبّی مسئلہ بنتی جارہی ہے ان میں سرِفہرست ’’ایم آر ایس اے‘‘ کہلانے والے جراثیم ہیں جن کے خلاف اب تک کی طاقتور ترین اینٹی بایوٹکس بھی اثرانداز نہیں ہوتیں۔

جرمنی کی توبنجن یونیورسٹی کے ماہرین نے انسانی ناک میں دنیا کی مؤثر ترین اینٹی بایوٹک بنانے والی جراثیم دریافت کیے ہیں جسے ’’لگڈیونین‘‘ (lugdunin) کا نام دیا گیا ہے جو ’’ایم آرایس اے‘‘ تک کو ہلاک کرسکتی ہے۔ اس دریافت کا اعلان مشہور و معتبر تحقیقی مجلے ’’نیچر‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں کیا گیا ہے۔ لگڈیونین کو اب تک چوہوں پر بڑی کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے اور انسانوں پر اس کی آزمائشیں شروع کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔

اب تک بیشتر اینٹی بایوٹک دوائیں مٹی میں رہنے والے بیکٹیریا سے حاصل کی جاتی رہی ہیں مگر اب ان سے کسی نئے اور زیادہ مؤثر مرکب کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ مٹی کی طرح انسانی جسم میں بھی ہزاروں اقسام کے خردبینی جاندار پائے جاتے ہیں جنہیں مجموعی طور پر ’’مائیکروبایوم‘‘ کہا جاتا ہے۔

مختلف مطالعات سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اسپتالوں میں داخل 30 فیصد مریضوں کی ناک میں ایم آر ایس اے موجود ہوتا ہے جب کہ 70 فیصد کی ناک میں یہ جرثومہ نہیں ہوتا۔ اس سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسانی ناک میں یقیناً کچھ ایسے بیکٹیریا ضرورہوتے ہیں جو یہاں ایم آر ایس اے کو پنپنے ہی نہیں دیتے۔ لگڈیونین خارج کرنے والے جرثوموں کی دریافت نے اس خیال پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔

پیٹری ڈش میں کیے گئے تجربات میں یہ نئی اینٹی بایوٹک، ایم آر ایس اے کے علاوہ دوسری کئی اقسام کے سخت جان جرثوموں کے خلاف بھی یکساں طور پر کارآمد دیکھی گئی۔ اور تو اور لگڈیونین کے خلاف جرثوموں میں مزاحمت بھی پیدا نہیں ہوسکی۔ یہ دریافت ایسے حالات میں ہوئی ہے جب ساری دنیا کے طبّی ماہرین نئی اور بہتر اینٹی بایوٹک تلاش کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت نئی اینٹی بایوٹکس کی بہت کم تعداد طبّی آزمائشوں کے مختلف مرحلوں سے گزر رہی ہے۔

اس دریافت نے جہاں ایک نئی اور زیادہ طاقتور اینٹی بایوٹک دوا کی امید پیدا کی ہے وہیں انسانی جسم میں قدرتی طور پر پائے جانے والے جرثوموں کا مجموعہ یعنی ’’ہیومن مائیکروبایوم‘‘ مزید نئی اور مؤثر دواؤں کے متوقع ماخذ کے طور پر سامنے آیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔