کراچی پولیس کے 820 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے صرف 17 فعال

ویب ڈیسک  جمعرات 28 جولائی 2016
کراچی میں 2 ہزار 321 سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول پولیس، کے ایم سی اور حکومت سندھ کے پاس ہے فوٹو: فائل

کراچی میں 2 ہزار 321 سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول پولیس، کے ایم سی اور حکومت سندھ کے پاس ہے فوٹو: فائل

 کراچی: چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2012 میں کراچی پولیس کی جانب سے لگائے گئے 820 کیمروں میں سے صرف 17 ہی فعال ہیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق چیف سیکرٹری کی رپورٹ پیش کی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کےایم سی نے 2008 میں 168 جب کہ 2014 میں 910 کیمرے نصب کئے جو کہ 2 میگا پکسل کے تھے۔ اس کے علاوہ 2011 میں حکومت سندھ نے 46 مقامات پر198 کیمرے نصب کئے، یہ کمیرے 5 میگا پکسل کے تھے، سندھ پولیس نے 2012 میں 2 میگا پکسل کے 820 کیمرے لگوائے جن میں سے صرف 17 کام کررہے ہیں، 2015 میں 5 میگا پکسل کے 225 کیمرے نصب کئے گئے، سندھ حکومت کیمروں کا سارا نظام پولیس کے سپرد کررہی ہے، جس کا مقصدعوام کے تحفظ کو بہتر بنانا ہے، آئی جی نے کیمروں کےنظام کو چلانے کےٹینڈرزجاری کر دیے ہیں، جس کی آخری تاریخ 26 جولائی تھی۔ حکومت نے رواں برس پولیس کےآئی ٹی کیڈرمیں 2 ہزار500 اسامیاں پیدا کی ہیں، حکومت نےحالیہ بجٹ میں اس مقصد کے لئے27 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ یہ تمام اقدامات جرائم کی نگرانی اور موثر کنٹرول کے لئے معاون ثابت ہوں گے۔

آئی جی سندھ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ پولیس کو امجد صابری کیس میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، انہیں قتل کرنے والے گروہ کا تعین ہوچکا ہے، پولیس ملزمان کے بہت قریب پہنچ چکی ہے، آئندہ چند روزمیں امجد صابری کے قاتل قانون کی گرفت میں ہوں گے۔

عدالت نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ فوجی جوانوں کی شہادت کے موقع پرسی سی ٹی وی کیمرے کام کیوں نہیں کررہے تھے۔ آپ کے کیمروں پر شہد کی مکھیاں بیٹھی ہیں، کیمرے واضح تصاویر نہیں لےسکتے تو کیوں لگائے گئے، جس پر اللہ ڈنوخواجہ نے جواب دیا کہ پولیس تفتیش کا بنیادی محکمہ ہے لیکن سہولیات کی عدم فراہمی سے تفتیش متاثرہوتی ہے،اسلام آباد میں 10 ارب روپے کی لاگت سے 15 ہزارکیمرے لگائے جارہے ہیں۔

آئی جی سندھ کی بات پرجسٹس خلجی عارف حسین نے استفسارکیا کہ اسلام آباد میں اتنی بڑی رقم اورکراچی کے لیے حکومت کے پاس پیسا نہیں، کیا اسلام آباد کے لوگوں کا بلڈ گروپ زیادہ اچھا ہے۔ اسلام آباد کےلوگوں کی طرح کراچی کے لوگ بھی اہم ہیں۔ چیف سیکرٹری سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت کیمرے لگانے پرغورکرے گی ، جس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ لوگ 5 سال سے مررہے ہیں اور آپ ابھی سوچیں گے۔ سی سی ٹی وی کیمرے وقت کی اہم ضرورت ہے ، اگر انفراسٹرکچر ہی خراب ہوگا تو پولیس کیا کرے گی ، وزارت آئی ٹی سندھ حکومت کا نااہل ترین محکمہ ہے، اگر ادارہ اسے نہیں چلا سکتا تو اس معاملے کو ٹھیکے پر دے دیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ تو شفاف ہونا چاہیے، ابھی اچانک ایک کمپنی بن جائے گی اور اسے ٹھیکہ بھی دے دیا جائے گا۔

جیو فینسنگ سے متعلق سپریم کورٹ کے استفسار پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ سیلولر کمپنیاں اپنے ڈیٹا تک رسائی نہیں دیتیں، ہمیں ایک کیس میں 14 دن بعد ڈیٹا تک رسائی دی گئی۔ آئی جی کے بیان پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیوفینسنگ کی سہولت بھی ضرورت پڑنے پر دو گھنٹے میں دی جاتی ہے جب کہ چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سیلولرکمپنیوں کے ڈیٹا تک رسائی صرف متعلقہ اداروں کو حاصل ہے۔ جس پرجسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری ادارے ایک دوسرے کی طرف انگلی اٹھائیں یہ مناسب نہیں، آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔

عدالت نے ناقص کیمروں کی تنصیب پراظہاربرہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگرانفراسٹرکچر ہی خراب ہوگا تو پولیس کیا کرے گی، ناکارہ کیمروں کی منظوری دینے والے افسران کے خلاف کارروائی ہوگی، دو ہفتوں میں بتایا جائے نئے کیمروں کی تنصیب کا عمل کب تک شروع کردیا جائے گا اوریہ بھی بتایا جائے کہ پولیس کو غیرسیاسی کرنے کیلیے کیا اقدامات کیے گئے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے آئی جی جیل خانہ جات سے بھاگے ہوئے ملزمان سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمیں معلوم ہے کہ سزایافتہ لوگ بھی جیلوں سے بھاگے ہوئے ہیں اور یہ معاملہ پیرول پر رہا کئے گئے ملزمان سے زیادہ سنگین ہے۔ کیس کی مزید سماعت 11 اگست کو ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔