شاید آپ

جاوید چوہدری  جمعـء 29 جولائی 2016
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

منظر بہت ہولناک تھا‘ نوجوان ایس ایس پی کی کنپٹی میں سوراخ تھا‘ خون ابل ابل کر اس کے دامن میں گر رہا تھا‘ ہاتھ میں پستول تھا لیکن ہاتھ مردہ حالت میں گود میں پڑا تھا‘ آنکھیں بند تھیں‘ ہونٹ بھنچے ہوئے تھے‘ داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا اور کمرے میں موت کا گہرا سکوت تھا‘ اسٹاف بھی دوڑ کر اندر آگیا‘ ان کے منہ سے بھی چیخ نکل گئی‘ یہ چیخیں پورے صوبے میں سراسیمگی بن کر پھیل گئیں‘ اطلاع چینلز تک پہنچی اور بات ملک بھر کا موضوع بن گئی ’’جہانزیب خان نے خودکشی کر لی‘‘۔

جہانزیب خان کون تھا؟ یہ پولیس کا شاندار آفیسر تھا‘ خاندان معزز تھا‘ یہ پڑھا لکھا‘ بہادر اور بے خوف شخص تھا‘ سی ایس ایس کیا‘ پولیس سروس جوائن کی اور تیزی سے ترقی کرنے لگا‘ ڈیپارٹمنٹ اس کی ذہانت‘ معاملہ فہمی‘ جرأت اور ایمانداری کی تعریف کرتا تھا‘ شادی کی‘ گھریلو زندگی بھی اچھی گزر رہی تھی‘ چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کے دوران جہانزیب خان نے کھوسہ اور بگٹی خاندان کے طاقتور لوگ تک پکڑ لیے‘ یہ کیریئرآفیسر تھا‘ ساتھیوں کا خیال تھا یہ زندگی میں پولیس سروس کا چیف ضرور بنے گا لیکن پھر 15 مئی 2016 ء آگیا اور جہانزیب جیسا پولیس افسر عبرت کی نشانی بن کر رہ گیا‘ یہ بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کا ایس ایس پی تھا‘ اس کا ایک دوست اسلام آباد کا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھا‘ یہ دوست اپنے کسی عزیز کی تقریب میں شمولیت کے لیے شکار پور گیا‘ اس نے جہانزیب کو بھی شکار پور بلا لیا‘دوست تقریب کے بعد اسے کسی تیسرے رشتے دار کے گھر لے گیا‘ یہ لوگ وہاں رات دیر تک شراب پیتے رہے‘ ہمارے ملک میں شراب کے ساتھ ’’ڈرگز‘‘ لینے کا رجحان شروع ہو گیا ہے۔

یہ نشہ آور ادویات کا خوفناک ’’کمبی نیشن‘‘ ہوتا ہے‘ یہ ادویات انسان کو ایک آدھ دن کے لیے دنیا و مافیہا سے بے گانہ کر دیتی ہیں‘ انسان چل پھر رہا ہوتا ہے‘ یہ باتیں بھی کرتا ہے اور یہ جی بھر کر اچھل کود بھی مچاتا ہے لیکن اس کا دماغ سن ہوتا ہے‘ مدہوشی کے یہ گھنٹے اس کے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں‘ میزبان نے یہ گولیاں بھی جہانزیب کے سامنے رکھ دیں‘ وہ شراب کے ساتھ یہ گولیاں بھی نگل گیا‘ گولیوں نے چند لمحوں میں اپنا اثر دکھایا اور جہانزیب نے اٹھ کر ناچنا شروع کر دیا‘ وہ ناچتے ناچتے کپڑے اتارنے لگا ‘ میزبان نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن وہ آؤٹ آف کنٹرول ہو چکا تھا‘ ان لوگوں نے اسے وہیں چھوڑا اور وہاں سے غائب ہو گئے‘ جہانزیب ننگا ناچتا ناچتا باہر نکلا‘ مکان کی چھت پر آیا اور اونچی آواز میں چیخنے لگا‘ محلے دار جاگ گئے‘ باہر نکلے‘ نوجوان شخص کو چھت پر ننگا ناچتے دیکھا تو انھوں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا‘ لوگ جمع ہوتے چلے گئے اور جہانزیب چھتوں پر چھلانگیں لگاتا رہا‘ لوگوں نے موبائل فون سے اس کی فلم بنا لی‘ لوگوں نے اس دوران اسے پکڑا اور مارنا شروع کر دیا‘ وہ مار کھاتا جاتا تھا اور بلوچی‘ سندھی‘ اردو اور انگریزی میں گالیاں دیتا جاتا تھا‘ پولیس کو اطلاع دی گئی۔

پولیس آ گئی‘ یہ شکار پور کی پولیس تھی‘ یہ اسے نہیں پہچانتی تھی چنانچہ پولیس اہلکاروں نے بھی اسے مکوں اور ٹھڈوں سے مارنا شروع کر دیا‘ پولیس نے اس کے بعد اسے باندھا اوراسی حالت میں گاڑی میں پھینک دیا‘ دوسری طرف اس کا اسٹاف تقریب کی جگہ پر اس کا انتظار کر رہا تھا‘ وہ لوگ پریشانی کے عالم میں ایس ایس پی کو تلاش کرنے لگے‘ یہ لوگ تلاش کرتے کرتے بالآخر اس گاڑی تک پہنچ گئے جس میں جہانزیب پڑا تھا‘ اس کے ہاتھ بندھے تھے اور پورے جسم پر زخموں کے نشان تھے‘ اے ایس آئی رحیم داد نے مقامی اہلکاروں کو’’ملزم‘‘ کا عہدہ بتایا‘ ہاتھ کھلوائے‘ جیسے تیسے سیدھا کر کے اسے کپڑے پہنائے‘ منہ صاف کیا‘ گاڑی میں بٹھایا اور جعفر آباد روانہ ہوگیا‘ جہانزیب کے اسٹاف کے باقی آٹھ لوگ بھی ساتھ تھے‘ راستے میں جہانزیب کے حواس بحال ہو گئے‘ اس نے اے ایس آئی رحیم داد سے پوچھنا شروع کر دیا ’’میں کہاں ہوں‘ میں کہاں تھا‘ میرا جسم کیوں دکھ رہا ہے اور میرے ساتھ کیا ہوا‘‘ وغیرہ غیرہ‘ اسٹاف ٹالنے کی کوشش کرتا رہا لیکن جب جہانزیب نے سختی سے پوچھا تو رحیم داد نے ساری بات بتا دی‘ اس نے اسٹاف سے پوچھا ’’کیا تم ان لوگوں کو پہچانتے ہو جنہوں نے میری فلم بنائی‘‘ رحیم داد نے جواب دیا ’’سر یہ ہمارا ضلع نہیں‘ میں ان میں کسی شخص کو نہیں پہچانتا‘‘ جہانزیب شرمندہ ہو گیا‘ وہ سارا راستہ خاموش رہا۔

جہانزیب گھر گیا اور فریش ہو کر دس بجے دفتر پہنچ گیا‘ وہ شدید ڈپریشن میں تھا‘ اس کے اسٹاف نے اسے انتہائی غیر حالت میں دیکھ لیا تھا‘ وہ محلے کے سامنے رات بھر ننگا ڈانس کرتا رہا تھا اور لوگ اس کی فلمیں بناتے رہے‘ لوگوں نے اسے مارا پیٹا بھی تھا اور گلیوں میں بھی گھسیٹا تھا‘ وہ پولیس کے چھوٹے ملازمین کے ہاتھوں بھی پٹتا رہا اور اسے آخر میں ہاتھ باندھ کر پولیس کی گاڑی میں پھینک دیا گیا‘ وہ جوں جوں یہ سوچتا گیا‘ اس کے ڈپریشن میں اضافہ ہوتا گیا‘ اے ایس آئی رحیم داد معمول کے مطابق دفتر میں داخل ہوا اور ڈائری اور سرکاری پستول اس کی میز پر رکھ دیا‘ جہانزیب نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا ’’آپ کسی کو کمرے میں نہ آنے دیں‘‘ اسٹاف نے لوگوں کو روک دیا‘ جہانزیب نے ہر دس منٹ بعد گھنٹی بجاکر چپڑاسی سے پانی مانگنا شروع کر دیا‘ چپڑاسی اسے پانی دے دیتا‘ وہ ایک سانس میں گلاس خالی کرتا اور چند منٹ میں دوبارہ پانی مانگ لیتا‘ یہ سلسلہ بڑی دیر تک جاری رہا‘ اسٹاف کو اس دوران کمرے کے اندر گولی چلنے کی آواز آئی‘ وہ لوگ گھبرا گئے لیکن انھیں اس کے باوجود کمرے میں جانے اور صورت حال دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔

ڈی سی زین العابدین جہانزیب خان کا قریبی دوست تھا‘اسٹاف نے اس سے رابطہ کیا‘زین العابدین فوراً جہانزیب کے دفتر پہنچ گیا‘ وہ اندر داخل ہوا اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی‘ اندر کا منظر بہت ہولناک تھا‘ جہانزیب کی کنپٹی میں سوراخ تھا‘ خون سوراخ سے ابل ابل کر اس کی چھاتی پر گر رہا تھا‘  سرکاری پستول اس کے ہاتھ میں تھا اور ہاتھ مردہ حالت میں گود میں پڑا تھا‘ زین العابدین نے دوڑ کر گردن پر انگلی رکھی‘ گردن میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں تھی‘ آئی جی بلوچستان نے ڈی آئی جی نصیر آباد شرجیل کریم کھرل اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ بلوچستان عبدالرزاق چیمہ کو تحقیقات کی ذمے داری سونپ دی‘ انکوائری ہوئی اور انکوائری میں سارے حقائق سامنے آگئے‘ کمیٹی نے جہانزیب کے دوست عبدالستار عیسانی کے خلاف ’’مس کنڈکٹ‘‘ کی سفارش کر دی۔

جہانزیب خان باعزت گھرانے سے تعلق رکھتا تھا‘ یہ کیریئر آفیسر تھا‘ یہ آگے بڑھتا رہتا تو یہ آئی جی کے عہدے تک ضرور پہنچتا لیکن غلط صحبت نے ایک شاندار انسان کی جان لے لی‘ وہ عادی مجرم نہیں تھا‘ وہ غیرت مند اور بہادر تھا لہٰذا وہ خود کو اپنی عدالت سے معافی نہ دلا سکا اور اس نے وردی میں اپنے دفتر میں اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو سزائے موت دے دی‘ جہانزیب خان چلا گیا لیکن یہ بے شمار لوگوں کو بے شمار سبق دے گیا‘ یہ ہمیں بتا گیا انسان کی صحبت اچھی ہونی چاہیے‘ آپ زندگی میں کوشش کریں آپ کے حلقہ ارباب میں برے لوگ شامل نہ ہوں کیونکہ یہ لوگ کسی بھی وقت آپ کو وہاں لے جائیں گے جہاں جہانزیب پہنچ گیا تھا‘ یہ ملک کے بے شمار لوگوں کو یہ سبق بھی دے گیا نشہ تباہی کے سوا کچھ نہیں‘ یہ آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی‘ آپ تھوڑے سے سرور کے لیے وہاں نہ جائیں جہاں آپ کے ہوش آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں‘ یہ زندگی نعمت ہے‘ آپ جہانزیب کی طرح اس نعمت کی توہین نہ کریں ‘ جہانزیب ہم جیسے لوگوں کو یہ پیغام بھی دے گیا دنیا کا ہر گناہ‘ہر غلطی اور ہر جرم قابل معافی ہوتا ہے‘ آپ خودکشی سے قبل معافی اور توبہ کے دروازے پر ضرور دستک دیںاور یہ نوجوانوں کو یہ بھی بتا گیا‘ آپ نشے سے پہلے ایک بار خون میں ڈوبے جہانزیب کی تصویر ضرور دیکھ لیں‘ یہ خون‘ گولی کا یہ سوراخ اور سینے پر جھکی ہوئی یہ گردن شاید آپ کو جہانزیب جیسے انجام سے بچا لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔