ایک بلوچ لڑکی اور پاکستان!

سالار سلیمان  ہفتہ 27 اگست 2016
بلوچ نے ہمیشہ پیار کی زبان سمجھی ہے۔ عسکری زبان ہمیں سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ وفاق سے کچھ گلے شکوے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے خلاف ہیں۔

بلوچ نے ہمیشہ پیار کی زبان سمجھی ہے۔ عسکری زبان ہمیں سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ وفاق سے کچھ گلے شکوے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے خلاف ہیں۔

دنیا میں بعض باتیں جو کہ بظاہر لگتی ہیں کہ درست نہیں، وہ حقیقت میں درست ہوتی ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں کشمیر ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کردی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہے جس دن وہاں کے کسی شہری کو شہید نہ کیا جاتا ہو، وہاں کرفیو نافذ نہ ہو، اور وہاں پر ظلم و بربریت کا بازار گرم نہ ہو۔

ان واقعات کو حال ہی میں بین الاقوامی میڈیا نے بھی اجاگر کیا ہے، اور اسی وجہ سے بھارت پر دباؤ ہے کہ وہ کسی بھی طرح کشمیر میں بگڑتی صورتحال کا جائزہ لے۔ لیکن برہان وانی کی شہادت نے حریت پسندی کی اس تحریک کو نیا موڑ دیا ہے، اور تقریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی وادی میں آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان نے بھی اپنی اخلاقی حمایت کشمیریوں کے پلڑے میں رکھی ہے اور سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت سب نے ہی کشمیریوں کی کھل کر حمایت کی ہے۔

یوم آزاد ی سے پہلے کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم بھارت کے یوم آزادی پر وزیر اعظم مودی کی جانب سے بلوچستان میں مداخلت کے بیان کے بعد اب صورتحال مزید واضح ہوجاتی ہے کہ رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ، جس میں معدنیات کا خزانہ بھرا پڑا ہے۔ وہ کسی بھی صورت دشمن کو قبول نہیں ہے اور مزید یہ کہ اس علاقے سے سی پیک گزرے۔ اس قسم کے بیان کے خود بھارت کے چیف جسٹس نے مودی کے لتے لئے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ سیاسی پنڈتوں نے مودی کے اس بیان کو حماقت کہا ہے۔ اگر پاکستان سفارت کاری میں تھوڑی سی تیزی اور دکھائے تو اس بیان کے بعد مودی کو لینے کے دینے پڑجائیں۔

اس بیان کے بعد میں نے سوچا کہ کیوں ناں موجودہ حالات کے حوالے سے بلوچستان کے کسی رہائشی سے بات کی جائے۔ اس مقصد کیلئے میں نے ایک طالب علم کے انتخاب کا فیصلہ کیا۔ میں نے بلوچستان یونیورسٹی میں اپنی ایک دوست سے بات کی کہ میں کسی طالب علم کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں تو اُس نے میرا کنزہ مہناز خان نامی ایک طالبہ سے رابطہ کروا دیا۔ کنزہ سے گفتگو کرکے خوشی ہوئی کہ طلبہ و طالبات بھی بلوچستان سے متعلق معاملات کو سمجھتے ہیں۔ اس گفتگو کے دوران بلوچستان کی صورت حال پر کئے گئے سوالات اور ان کے جوابات قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا، تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ بلوچستان کی نئی نسل اپنے وطن سے کتنی محبت کرتی ہے اور سیاسی پس منظر کو کس انداز میں دیکھتی ہے۔ کچھ وجوہات کی بنیاد پر میں اس طالبہ کا صرف نام ہی شائع کرسکتا ہوں اور دیگر معلومات دینے سے قاصر ہوں۔

  •  آپ بلوچستان کے احساس محرومی کو کس طرح سے دیکھتی ہیں؟

کنزہ: بلوچستان میں وفاق کی پالیسیوں کی وجہ سے احساس محرومی موجود تو ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بلوچ وطن دشمن ہے یا یہ کہ بلوچ کو پاکستان سےعشق نہیں ہے۔ پاکستان کی اپنی فوج میں بلوچ موجود ہیں اور اپنی جانیں وطن کیلئے قربان کرتے ہیں۔ اس احساس محرومی کا حب الوطنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دیکھیں! کیا اپنے ہی گھر میں بہن بھائیوں میں تلخ کلامی نہیں ہوجاتی؟ ناراضگی نہیں ہوتی؟ لیکن کیا ایسا ہونے سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے؟ میں یہ بات سمجھتی ہوں، صرف سمجھتی ہی نہیں بلکہ پُرامید بھی ہوں کہ آج احساس محرومی ہے تو کل کو ختم ہوجائے گا۔

  • کیا آپ نے بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دیگر حصے بھی دیکھے ہیں؟ آپ کا تجربہ کیسا رہا ہے؟

کنزہ: جی! میں نے لاہور کا دورہ کیا تھا، میں نے کراچی بھی دیکھا ہوا ہے، راولپنڈی اور اسلام آباد بھی دیکھا ہوا ہے۔ لاہور میں ایک مرتبہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ خریداری کیلئے انار کلی چلی گئی تو وہاں ایک خوبصورت شال مجھے اچھی لگی، میں نے دکاندار سے اس کی قیمت پوچھی تو وہ مناسب ہی تھی۔ میں نے ویسے ہی کہا کہ میں تمہاری بلوچ بیٹی طرح ہی ہوں، قیمت صحیح مناسب بتائیے۔ آپ یقین کیجئے کہ دکاندار نے پہلے اس شال کو مفت لینے پر اصرار شروع کردیا۔ میرے پر زور انکار پر اس نے اپنی ڈائری کھول کر اس شال کی قیم خرید دکھائی اور اسی قیمت میں زبردستی دے دی۔ سارا پاکستان ہی ہم سے محبت کرتا ہے۔ کراچی اور اسلام آباد میں بھی مجھے ہمیشہ پیار اور عزت ہی ملی ہے اور میں بے خوف ہوکر ان علاقوں میں گئی ہوں۔

  •  سی پیک کے حوالے سے وہاں کی عوام کیا کہتی ہے؟

کنزہ: دیکھیں! سچ تو یہ ہے کہ ہمیں پہلے پہل یقین ہی نہیں تھا کہ یہ راہداری بنے گی۔ تاہم جیسے ہی اس پر کام کا آغاز ہوا اور پھر اس کا افتتاح ہوا تو ہمیں یہ یقین ہوا کہ بلوچستان سے اتنی اہم شاہراہ نے گزر کر جانا ہے۔ ہم سی پیک کی جلد از جلد تکمیل چاہتے ہیں تاکہ اس خطے میں بھی ترقی کا دروازہ کھل سکے۔

  •  بلوچستان کے ناراض عناصر کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

کنزہ: ہاں! کچھ لوگ تو ناراض ہیں، وہ پہاڑوں میں جا کر چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ درحقیقت، بلوچ نے ہمیشہ پیار کی زبان سمجھی ہے۔ عسکری زبان ہمیں سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ وفاق سے کچھ گلے شکوے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے خلاف ہیں اور یا کہ ہمیں فوج سے مسئلہ ہے۔ یہ فوج بھی ہماری فوج ہے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں۔

  •  نواب اکبر بگٹی کے قتل سے پہلے کا بلوچستان کیسا تھا اور آج کا بلوچستان کیسا ہے؟

کنزہ: نواب صاحب کوئی فرشتہ نہیں تھے، وہ بھی انسان تھے اور انسانوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ نواب اصولوں کے پکے تھے۔ اُن کی شہادت کے بعد کچھ عرصے کیلئے بلوچوں میں غم و غصہ پایا گیا تھا لیکن اب سیاسی قوتوں کی وجہ سے معاملات تقریباً ٹھیک ہوچکے ہیں۔ باتیں سیاسی طریقے سے ہی حل ہوجائیں تو بہتر ہوتا ہے اور اس بات کو سمجھنا بھی چاہیئے کہ ہمیں خود پر کسی کو بھی ہنسنے کا موقع دینا ہے یا نہیں دینا ہے۔

  •  پاکستان کے ساتھ بلوچستان نے 69 سال گزار دیئے ہیں اور آپ تو ابھی نوجوان ہیں۔ کیا احساسات ہیں بلوچستان کے بارے میں؟

کنزہ: 69 سال گزارے ہیں تو انشااللہ 169 سال بھی ساتھ گزاریں گے اور مجھے یقین ہے کہ آج سے سو سال بعد جب کوئی صحافی کسی بلوچی سے ایسا ہی سوال کرے گا تو اس کو وہ بلوچی بھی کچھ ایسا ہی جواب دے گا۔

  • آپ کی نظر میں سانحہ کوئٹہ کس کی کارروائی ہے؟

کنزہ: یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال ہے؟ اندھا بھی جانتا ہے کہ یہ کاروائی بھارت کی ہے۔ میری ناقص نظر میں تو بھارت نے یہ کارروائی اقوام عالم کی توجہ کشمیر سے ہٹانے کیلئے کی تھی۔ کشمیر میں بھارت نے مظالم توڑے ہیں اور پھر پاکستان نے بھی کشمیریوں کی اخلاقی حمایت کی ہے۔ آپ یہ بات سمجھیں کہ بھارت ایک کمینہ ہمسائیہ ہے۔ اس نے اپنی خار ایسے نکالی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کمزور ہوئے ہیں۔ چوٹ لگی ہے لیکن ہم پھر سے کھڑے ہوں گے۔

  • مودی کے بلوچستان کے حوالے سے سوالات کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

کنزہ: میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ بھارت ایک کمینہ دشمن ہے۔ وہ ہماری آپس کے معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اس نے ہی بلوچستان میں فضا کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ کلبھوشن یادو یہاں بھارتی ایجنڈے کی تکمیل ہی کر رہا تھا۔ مودی کے بیانات کا ردِعمل تو آپ نے بلوچستان میں پاکستان کیلئے نکلنے والی فقید المثال ریلیوں کی صورت میں دیکھ لیا ہوگا۔ بھارت کا خیال ہے کہ وہ ہمسائیہ ممالک کی مدد سے بلوچستان میں بے چینی اور انارکی کی فضا پیدا کرلے گا۔ میں ایک غیور بلوچی لڑکی ہوں اور میں آپ کو وثوق سے کہتی ہوں کہ بھارت کا یہ خواب محض خواب ہی رہے گا۔ نواب آف قلات نے پاکستان سے الحاق تب کیا تھا جب نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وآل وسلم اُن کے خواب میں آئے تھے۔ ہم کسی بھی صورت پاکستان سے الگ نہیں ہوسکتے ہیں اور میں میڈیا سے بھی درخواست کرتی ہوں کہ وہ ایسی تصویر کشی نہ کرے کہ جس سے ایسا لگے کہ بلوچی الگ ہونا چاہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے اور میں بطور بلوچی آپ کو بتا رہی ہوں کہ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے۔ ہم پاکستانی ہیں اور ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ ابھی سانحہ کوئٹہ میں جب وزیراعظم نے ہسپتال کا دورہ کیا تھا تو اس وقت ایک زخمی وکیل نے جناب وزیراعظم سے یہی کہا تھا کہ خدارا آپ نے ہمت نہیں ہارنی ہے۔ میں بھی یہی کہتی ہوں کہ آپ لوگ مایوس نہ ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ پورا پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور ہم بلوچی یہ بات پورے یقین سے کہتے ہیں کہ پورا بلوچستان پاکستان کا ہے۔ انشاءاللہ اغیار کی سازشیں اپنی موت آپ ہی دم توؤڑ دیں گی۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان سے نفرت کا عنصر پایا جاتا ہے؟َ

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔