فن کسی کی میراث ہے اور نہ کوئی ڈگری کامیابی کی ضمانت، ثناء

جاوید یوسف  بدھ 24 اگست 2016
وہ دور چلاگیا جب جس کی ایک فلم ہٹ ہوگئی تو کئی سال تک پردہ اسکرین پر اسی کا راج ہوتا تھا، ثناء۔  فوٹو : فائل

وہ دور چلاگیا جب جس کی ایک فلم ہٹ ہوگئی تو کئی سال تک پردہ اسکرین پر اسی کا راج ہوتا تھا، ثناء۔ فوٹو : فائل

 لاہور:  فن کسی کی میراث نہیں اور نہ ہی کسی انسٹیٹیوٹ سے ڈگری کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے، پاکستان میں ایکٹنگ سمیت دیگر شعبوں میں تربیت دینے کے لیے کوئی ادارہ نہیں ، ان دنوں تھائی لینڈ نئی فلم کی عکسبندی کروا رہی ہوں۔

ان خیالات کا اظہار اداکارہ ثنا نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ شوبز انڈسٹری میں ان رہنے کے لیے خود کو سپرفٹ رکھنا ضروری ہے۔اسی لیے پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤں ایکسائز باقاعدگی سے کرتی ہوں۔ وہ دور چلاگیاجس کی ایک فلم ہٹ ہوگئی تو کئی سال تک پردہ اسکرین پر اسی کا راج ہوتاتھا، اب پردہ اسکرین کے ساتھ فلم بینوں کی بھی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ وہ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ معیار کی فلم دیکھنا چاہتے ہیں، جس کے لیے فنکاروں کو اپنی پرفارمنس کے ساتھ اپنی شخصیت پر بھی توجہ دینا پڑ رہی ہے۔

شوبز انڈسٹری جوائن کرتے ہی پرفارمنس کے ساتھ فٹ رہنے کے لیے جم جانا شروع کردیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی کے ساتھ ماڈل واداکارہ کامیاب کیرئیر جاری وساری ہے۔اس وقت ’’زہر عشق‘‘، ’’راستہ‘‘ کے ساتھ فوکھٹ میں نئی کامیڈی میوزیکل فلم ’’سوکروڑ‘‘ کی عکسبندی کروا رہی ہوں۔ماہ رواں کے آخر میں کام مکمل کروا کر وطن واپس آجاؤں گی جہاں پر دوسرے زیرتکمیل پروجیکٹس کی شوٹنگز میں حصہ لوں گی ۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ورسٹائل اداکارہ ہوں اسی لیے آئٹم سانگ سمیت چیلجنگ رول کے لیے پروڈیوسر اور ہدایتکار کا انتخاب ہوتی ہوں۔ فلم انڈسٹری کے سنیئرز لوگوں سے بھی درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنے تجربے سے نئے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں کیونکہ ان کی رہنمائی سے وہ فلم ٹریڈ کو بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔