فوجی آمریت سے عوامی جمہوریت تک کا طویل سفر!

عثمان حیدر  منگل 30 اگست 2016
ہم اب تک فوجی آمریت سے سیاسی آمریت تک ہی پہنچے ہیں اور حقیقی عوامی جمہوریت کی منزل تک پہنچنے کیلئے ہمیں جماعتی جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت کی منازل بھی طے کرنی ہیں۔

ہم اب تک فوجی آمریت سے سیاسی آمریت تک ہی پہنچے ہیں اور حقیقی عوامی جمہوریت کی منزل تک پہنچنے کیلئے ہمیں جماعتی جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت کی منازل بھی طے کرنی ہیں۔

اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف نظام حکومت رائج ہیں۔ کہیں ملوکیت و بادشاہت ہے تو کہیں آمریت یا جمہوریت، لیکن آج اکثریتی دنیا کا رجحان جمہوریت کی طرف پایا جاتا ہے۔ کہیں مکمل جمہوریت ہے تو کچھ نیم جمہوری ممالک بھی ہیں۔ جہاں جمہوریت کو موقع نہیں ملا وہاں بھی عوامی رجحان جمہوریت پسندی کی طرف مائل ضرور نظرآتا ہے۔ قائد اعظم ؒ بھی پاکستان میں جمہوری نظام حکومت کا خواب آنکھوں میں لئے رخصت ہوئے لیکن چند برس بعد ہی اس نوزائیدہ مملکت کو جنرل ایوب کی فوجی آمریت نے جکڑ لیا۔

 

پھر کیا تھا کہ فوجی آمریت اور سیاسی یا پارلیمانی حکومتوں کی آنکھ مچولی شروع ہوگئی اور 2008 میں پرویز مشرف کے دور اقتدار کے اختتام کے ساتھ ہی اس ملک میں سیاسی اور جمہوری نظام حکومت کے احیا کا خواب ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں سج گیا۔ ایک اُمید پیدا ہوئی کہ اب عوامی اور سیاسی شعور میں نمودار ہونے والی پختگی کی بدولت اس ملک میں فوجی آمریت کی راہیں مسدود کردی جائیں گی۔ 2008ء اور 2013ء کے کامیاب انتخابات اور پھر دھرنوں سے بچ بچا کر نکل جانے پر ہر طرف سے یہ امید افزا نعرے بلند ہونے لگے کہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے۔ لیکن گزشتہ ایک سال میں سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی طرف سے روا رکھے جانے والے رویے اور اس دوران رونما ہونے والے واقعات نے ہم جیسوں کی خوش فہمی کو گہنا دیا ہے اور ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا واقعی ہم جمہوری دور کی طرف آگئے ہیں یا ابھی اس سے کوسوں دور ہیں؟ اور لگتا یہی ہے کہ پاکستان کو ’’عوامی جمہوریت‘‘ کی منزل تک پہنچنے کیلئے ابھی کافی طویل سفر طے کرنا ہے۔

فوجی آمریتوں اور جمہوری حکومتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد آمریت سے جمہوریت تک پہنچنے کے پانچ مراحل سامنے آتے ہیں، جنہیں پانچ اصطلاحات کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر ترتیب وار جائزہ لیں تو بدترین سے بہترین کی طرف کچھ یوں ترتیب بنتی ہے یعنی،

  • فوجی آمریت،
  • سیاسی آمریت،
  • سیاسی جمہوریت،
  • پارلیمانی جمہوریت،
  • اور عوامی جمہوریت

اب ان کو ذرا تفصیلی انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ جائزہ لیں کہ ہم پاکستانی اپنی انہتر سالہ محنت کے بعد ان میں سے کس اصطلاح یا کس مرحلے تک پہنچ پائے ہیں؟

فوجی آمریت

ہم پاکستانیوں کیلئے سب سے معروف اصطلاح فوجی آمریت کی ہے جس میں فوج مکمل طور پر نظام حکومت پر حاوی ہوتی ہے اور فوج کی مرضی کے بغیر کوئی بھی حکومتی امر سر انجام نہیں پاسکتا۔ پاکستانی قوم کو یہ مرحلہ کم و بیش چار مرتبہ درپیش آچکا ہے اور اس قوم سے بہتر اس کی اذیت ناکیوں کو شاید ہی کوئی اور سمجھ سکے۔

 سیاسی آمریت

اس سے مراد یہ ہے کہ آمرانہ رویے فوجی چھاؤنیوں سے سیاسی ایوانوں کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ فوجی آمر کی طرح حزب اقتدار میں موجود طاقتور سیاسی شخصیات اپنی من مانی پر اتر آتی ہیں اور جمہوریت کے نام پر وہی کچھ کرتی ہیں جو فوجی آمر کرتا ہے۔ وہ خود کو عقل کل اور اپنی بات کو حرف آخر منوانے پر بضد رہتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مقدم رکھ کرعوامی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں (بالکل اسی طرح جیسے اس وقت ہماری سیاسی حکومتیں کر رہی ہیں)۔ سیاسی آمریت فوجی آمریت سے تو بہتر ہے لیکن پھر بھی ایک ناقابل برداشت نظام ہے۔

 سیاسی جمہوریت یا جماعتی جمہوریت

اس اصطلاح کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری روایات کو فروغ دیتی ہیں اور اپنے ارکان کو اہمیت بھی۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اندرونی مسائل کو ہٹ دھرمی کی بجائے جمہوری طریقے سے نمٹاتی ہیں اور اپنے منشور اور کارکردگی کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہوئے اس پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ سیاسی جمہوریت سیاسی آمریت کی نسبت ایک بہتر صورتحال ہے لیکن یہ بھی حقیقی جمہوریت کا روپ نہیں۔

پارلیمانی جمہوریت

اس سے مراد یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں جمہوری روایات کی پاسداری کرتی ہیں بلکہ پارلیمان میں موجود حریف پارٹیوں کے ساتھ بھی جمہوری انداز میں معاملات چلاتی ہیں۔ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف دونوں اپنے موقف میں جمہوری روایات کو مقدم رکھتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت جب رائج ہوجائے تو پارلیمنٹ کی بالادستی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ وزیراعظم ہو یا وزیر و مشیر وغیرہ سب پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے ہیں اور خود کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔

آخری اصطلاح ’’عوامی جمہوریت‘‘ کی ہے

جس سے ہم پاکستانی انتخابی نعروں کی حد تک تو واقف ہیں لیکن حقیقت میں ہمیں کبھی اس کا حسن نصیب نہیں ہوا۔ اس اصطلاح کے مطابق اقتدار عوام کے فیصلوں کا مرہون منت اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہونے کے ساتھ بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں عوام شفاف انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے اور ریاستی حکومت عوامی خواہش کا احترام کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ عوام میں سے کوئی بھی قابل شخص بلا تفریق معاش و رتبہ اپنی کارکردگی اور بہتر منشور کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ الیکشن لڑسکتا ہے بلکہ باآسانی جیت بھی سکتا ہے اور اس طرح منتخب ہونے والا عوامی نمائندہ ریاستی حکام میں فیصلہ ساز حیثیت کا مالک بھی ہوتا ہے۔

لیکن اگر آج ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو ہم اپنی 69 سالہ تاریخ میں ابھی دوسرے مرحلے یعنی سیاسی آمریت تک پہنچ پائے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ابھی تو پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوری روایات کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ موروثی سیاست آج بھی عروج پر ہے، یعنی ابھی ہم سیاسی یا جماعتی جمہوریت سے بھی کوسوں دور ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کی طرف دیکھیں تو حالت یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم اور وزراء صاحبان پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہونا تو دور کی بات ایوان میں آنا بھی گوارا نہیں کرتے، یقین نہ آئے تو قومی اسمبلی یا سینیٹ کا حاضری ریکارڈ چیک کرلیں۔

پسماندہ علاقوں سے منتخب ارکان کو اول تو بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو اس وقت ایوان کا کورم پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہاں جب حکومت دباؤ کا شکار ہو یا کسی مشکل میں پھنس جائے تو پھر جمہوریت کے تحفظ کے نام پر بھاگم بھاگ پارلیمنٹ کی طرف آتی ہے۔ اس وقت وزیراعظم بھی پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں اور وزراء کو بھی اسمبلی آنے کی فرصت مل جاتی ہے۔ وفاق کے ساتھ صوبوں کی بھی یہی حالت ہے۔

سیاسی و پارلیمانی جمہوریت کے فقدان کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے دوران جب ایک حکومتی رکن اسد الرحمان رمدے نے پارٹی قیادت کے رویے کے خلاف آواز بلند کی تو انہیں زبردستی چپ کرادیا گیا اور وزیراعظم صاحب نے ان کی بات سننے کے بجائے کہا کہ آپ اپنی سیٹ پر تشریف رکھیں جس پر اسد الرحمان نے کہا کہ میں اسکول کا بچہ نہیں کہ آپ مجھے اس طرح بیٹھنے کا کہہ رہے ہیں۔ خبر ہے کہ اس ’’گستاخی‘‘ کے بعد انہیں ایک کمیٹی کی رکنیت سے برخاست کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف تبدیلی کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ خیبر پختونخواہ اور پارٹی دونوں کے فیصلے بنی گالہ میں چند ’’بڑی‘‘ شخصیات نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔

گزشتہ دنوں جب تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے محترم عمران خان صاحب کے کچھ فیصلوں پراعتراض کیا تو موصوف نے ارشاد فرمایا کہ جس کو اعتراض ہے وہ چاہے تو پارٹی چھوڑ دے۔ واہ صاحب کیا بات ہے آپ دونوں کی! مجھے تو اس وقت شدید حیرت ہوتی ہے جب یہی آمرانہ مزاج رکھنے والے سیاسی رہنما دوسرے ریاستی اداروں سے پارلیمنٹ کی بالادستی کا خیال رکھنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ ارے صاحب! جب پارلیمنٹ کے کرتا دھرتا لوگ خود پارلیمنٹ اور جمہوریت کی قدر نہیں کرتے تو پھر کس منہ سے دوسروں کو ان کی تقدیس کا بھاشن دیتے ہیں؟ پس ثابت یہ ہوا کہ کئی دہائیوں پر مشتمل سیاسی و جمہوری جدوجہد کے بعد فی الحال ہم فوجی آمریت سے نکل کر سیاسی آمریت میں داخل ہوئے ہیں اور حقیقی عوامی جمہوریت کی منزل تک پہنچنے کیلئے ابھی ہمیں جماعتی جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت کی منازل بھی طے کرنی ہیں، لیکن اس حقیقی عوامی جمہوریت کے خواب کی تعبیر کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ آمرانہ روش ترک کرکے اپنے اندر جمہوری اقدار کو فروغ دیں اور عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر سیاسی و جمہوری شعور کو بلند کریں، وگرنہ عوامی جمہوریت کا خواب بس خواب ہی رہ جائے گا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

عثمان حیدر

عثمان حیدر

بلاگر کا تعلق لیہ سے ہے۔ یو ای ٹی ٹیکسلا سے انجینئرنگ گریجویٹ ہیں اور آج کل واسا لاہور میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ گزشتہ چھ برس سے مختلف موضوعات پر کالم اور بلاگز لکھ رہے ہیں۔ فیس بک آئی ڈی usman.haider.7503 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔