- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
- گزشتہ ہفتے 22 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، ادارہ شماریات
- محکمہ موسمیات کی کراچی میں اگلے تین روز موسم گرم و مرطوب رہنے کی پیش گوئی
- بھارت؛ انسٹاگرام ریل بنانے کی خطرناک کوشش نے 21 سالہ نوجوان کی جان لے لی
- قطر کے ایئرپورٹ نے ایک بار پھر دنیا کے بہترین ایئرپورٹ کا ایوارڈ جیت لیا
- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
- 14 دن کے اندر کے پی اسمبلی اجلاس بلانے اور نومنتخب ممبران سے حلف لینے کا حکم
اقوام متحدہ کا ’’ہیٹی‘‘ میں ہیضے کی وبا پھیلانے کا اعتراف
نیویارک: اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ 2010 کے دوران ہیٹی میں پھیلنے والی ہیضے کی وبا جس سے 8 لاکھ افراد متاثر اور ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے وہ اقوامِ متحدہ کی وجہ سے پھیلی تھی۔
ہیٹی میں اس وبا کے اثرات آج تک جاری ہیں حالانکہ اس ملک میں پچھلے 100 سال کے دوران ہیضے کی وبا کبھی نہیں آئی تھی۔ اپنے اعترافی بیان میں بان کی مون نے کہا کہ ہیٹی سے یہ وبا ختم کرنے کے لیے ابھی ’’بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘‘ لیکن نیویارک ٹائمز نے اقوامِ متحدہ کی کچھ خفیہ دستاویزات کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں ثابت کیا گیا ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ وہاں (ہیٹی میں) کارروائی نہ کرتی تو وہاں ہیضے کی وبا بھی نہ پھیلتی۔
ہیضہ ’’وبریو کولریا‘‘ نامی جرثوموں کی وجہ سے ہوتا ہے جو انسانی فضلے کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ 2010 سے ایک صدی پہلے تک ہیٹی میں ہیضے کی وبا کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن اُس سال وہاں دریائے میئل کے قریب سے یہ وبا شروع ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں ایک وسیع علاقے میں پھیل گئی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے 454 اہلکار ہیٹی بھیجے گئے تھے جو اس سے پہلے ہیضے کی وبا سے متاثرہ نیپال میں تعینات تھے۔
ان فوجیوں کا قیام دریائے میئل کے قریب ایک اڈے میں تھا اور اس اڈے سے خارج ہونے والا فضلہ مسلسل دریا میں شامل ہوتا رہتا تھا۔ ہیٹی میں ہیضہ پھیلنے کی واحد ممکنہ وجہ ان ہی لوگوں کا فضلہ ہوسکتا تھا جو دریا میں شامل ہورہا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وبا سے کم از کم 10 ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ رہی ہوگی۔
اب تک اقوامِ متحدہ نے اس وبا کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی اور اپنا یہ مؤقف برقرار رکھا تھا کہ ہیٹی میں ہیضے کی وبا پھیلنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن نیویارک یونیورسٹی کے فلپ ایلسٹن نے جو اقوامِ متحدہ کے ماہرین میں بھی شامل رہے ہیں، اس سارے واقعے کی تفصیل سے چھان بین کرنے کے بعد 19 صفحے کی ایک رپورٹ مرتب کرکے چند ہفتے پہلے بان کی مون کے سپرد کی۔
اس کے جواب میں بان کی مون کے نائب ترجمان فرحان حق نے ایک ای میل میں یہ اقرار تو کرلیا کہ ہیٹی میں ہیضے کی وبا میں اقوامِ متحدہ نے ’’کردار ادا کیا تھا‘‘ لیکن اس کی نوعیت اور شدت کا تعین کرنے کے لیے مزید 2 سے 3 مہینوں کا وقت مانگا ہے۔
اس سے پہلے جنوری 2016 کے دوران ’’پی ایل او ایس میڈیسن‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اقوامِ متحدہ پر تنقید کی گئی تھی کہ اگر وہ اپنے اہلکاروں کو ہیضے کی ایک کم خرچ دوا بروقت فراہم کردیتی تو ہیٹی میں ہیضے کی وبا پھیلنے کے امکانات 91 فیصد تک کم رہ جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
ہیٹی میں ہیضے کی وبا اب تک قابو سے باہر ہے جس سے بیمار پڑنے والوں اور مرنے والوں کی تعداد ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔