چکناہٹ پیدا کرنے والا مادّہ پانی کوجراثیم سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا

عبدالریحان  جمعرات 25 اگست 2016
 پاکستان جیسے کئی ملکوں میں حکومتوں کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے کروڑوں لوگ ناقص اور مضرِ صحت پانی استعمال کررہے ہیں : فوٹو : فائل

پاکستان جیسے کئی ملکوں میں حکومتوں کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے کروڑوں لوگ ناقص اور مضرِ صحت پانی استعمال کررہے ہیں : فوٹو : فائل

آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے عام طور پر اسے اُبالا جاتا ہے، یا پھر پلاسٹک کی بوتل میں بھر کر دھوپ میں رکھ دیا جاتا ہے، تاکہ سورج کی سمت سے آنے والی بالائے بنفشی شعاعیں ( الٹرا وائلٹ ریز) پانی میں موجود جراثیم کا خاتمہ کردیں۔ اول الذکر طریقے میں پانی کو صاف کرنے کے لیے ایندھن درکار ہوتا ہے جب کہ مؤخرالذکر میں وقت بہت صَرف ہوتا ہے۔

بالائے بنفشی شعاعیں پانی کو جراثیم سے پاک کرنے میں چھے سے اڑتالیس گھنٹے لگا دیتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں شعاعوں میں توانائی محض چار فی صد تک ہوتی ہے جو کہ بہت کم ہے۔ امریکا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ سائنس دانوں نے ایک ایسا آلہ ایجاد کرلیا ہے جو بالائے بنفشی شعاعوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تیزی سے پانی کو جراثیم سے پاک کرسکتا ہے۔ ڈاک ٹکٹ جتنی جسامت رکھنے والا یہ آلہ بھی دھوپ کا استعمال کرتے ہوئے جراثیم کا خاتمہ کرتا ہے۔ تاہم بالائے بنفشی شعاعوں کے ساتھ ساتھ یہ شمسی طیف کے نظر آنے والے حصے کا بھی استعمال کرتا ہے جس میں پچاس فی صد شمسی توانائی موجود ہوتی ہے۔

یہ آلہ یا ڈیوائس تیار کرنے والی ٹیم کی سربراہ چونگ لوئی کہتی ہیں کہ دھوپ پڑتے ہی اس ڈیوائس میں کیمیائی عمل شروع ہوجاتا ہے اور ہائیڈروجن پرآکسائیڈ اور کئی دوسرے جراثیم کُش کیمیکلز بننے لگتے ہیں اور صرف بیس منٹ میں پانی میں سے 99.999 فی صد جراثیم کا خاتمہ کردیتے ہیں۔ جراثیم کے خاتمے کے ساتھ ہی کیمکلز بھی ازخود غائب ہوجاتے ہیں اور برتن میں صحت افزا پانی رہ جاتا ہے۔ بس اس ڈیوائس کو پانی سے بھری بوتل میں ڈالیں اور بیس منٹ کے بعد نکال لیں۔ یہ اپنا کام خود ہی انجام دے گا اور پانی کو مضر اجزا سے پاک کردے گا۔

اگر الیکٹرونی دوربین سے اس ڈیوائس کا جائزہ لیا جائے تو یہ فنگر پرنٹ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ انسانی انگلی کی پوروں کی طرح نظر آنے والے خطوط دراصل Molybdenum disulfide نامی مرکب کی انتہائی باریک فلمیں ہیں جو ایک مستطیل شیشے پر بچھائی گئی ہیں۔ محققین نے انھیں ’’نینو فلیکس‘‘ کا نام دیا ہے۔

Molybdenum disulfide صنعتوں میں استعمال ہونے والا لبریکینٹ یعنی چکناہٹ پیدا کرنے والا ایک مادّہ ہے، تاہم محض چند ایٹموں جتنی موٹائی رکھنے والی تہوں میں ڈھالنے پر، متعدد دوسرے مادّوں کی طرح اس کی خصوصیات بھی یکسر بدل جاتی ہیں۔ یہ ضیائی عمل انگیز (  photocatalyst) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب اس سے روشنی ٹکراتی ہے تو اس کے بیش تر الیکٹرون اپنے مقامات سے ہٹ جاتے ہیں اور پھر یہ الیکٹرون اور ان کی چھوڑی گئی جگہیں کیمیائی تعامل میں فعالیت سے حصہ لیتی ہیں۔

Molybdenum disulfide کی باریک ترین فلمیں بنانے کے بعد سائنس دانوں نے نظر آنے والی پوری کی پوری روشنی کو جذب کرنے پر ’مجبور‘ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر فلم یا تہ کے اوپر تانبے کی پرت بہ طور ثانوی عمل انگیز بچھا دی گئی تھی، جس کی وجہ سے ہائیڈروجن پرآکسائیڈ اور دوسرے جراثیم کُش مرکبات بنتے ہیں اور یہ مخصوص کیمیائی عمل کے ذریعے پانی کو صاف کر دیتے ہیں۔

چونگ لوئی کے مطابق ان کی تیارکردہ چھوٹی سی ڈیوائس پانی کو ہر قسم کے خطرناک جراثیم سے پاک کردیتی ہے۔ اس طرح یہ ڈیوائس آلودہ پانی کے استعمال سے پھیلنے والے امراض پر قابو پانے میں بے حد مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ کروڑوں لوگ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے پیٹ کے امراض اور دوسری موذی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

یہ پانی اموات اور جسمانی معذوریوں کی وجہ بنتا ہے۔ پاکستان جیسے کئی ملکوں میں حکومتوں کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے کروڑوں لوگ ناقص اور مضرِ صحت پانی استعمال کررہے ہیں اور اسے پینے سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں چار فی صد ہلاکتیں اسہال کی وجہ سے ہوتی ہیں جس کا سبب آلودہ پانی کا استعمال ہے۔  اسہال کے علاوہ ایسا پانی کئی خطرناک اور مہلک امراض کی وجہ بن رہا ہے جس میں جگر کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔