موڈ اور منظر

حمید احمد سیٹھی  جمعرات 25 اگست 2016
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

ہمارے ایک دوست کو شعر و سخن سے کبھی دلچسپی نہ رہی تھی البتہ اسے اپنے گرد و پیش کے حالات کی وجہ سے کسی کسی دن چپ کا دورہ پڑتا تھا لیکن ایک روز اس نے جو یہ شعر پانچ چھ بار دہرایا تو ہم لوگوں کو اس کی ذہنی کیفیت پر بھی تشویش ہوئی اور شعر کو بھی سنجیدگی سے لینا پڑا؎

شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
صبح ہوتی نظر نہیں آتی

ہم دوستوں نے اسے مایوسی سے نکالنے کا پروگرام بنایا ایک شام اسے سینما میں فلم دکھائی دوسری رات ایک اچھے ہوٹل میں کھانے پر لے گئے۔ پھر ایک فیشن شو دکھایا لیکن اس کے اگلے دن اسے یہ شعر پڑھتے سنا؎

جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انساں کے اندر ہوتا ہے

آیندہ اتوار کا دن تھا ہم سب مل کر اسے ایک ایسے دوست کی طرف لے گئے جس کے مکان کی لاؤنج میں کمرے کی دیوار جتنی بڑی اسکرین والی LCD تھی۔ دو دن پہلے شہر میں ایک سیاسی اور ایک غیر سیاسی ریلی دیکھ چکے تھے ہم نے سوچا اپنے اس دوست کو کرکٹر و سوشل ورکر عمران خان کا سیاسی جلسہ بڑی اسکرین پر دکھایا اور خود دیکھ کر آنے والے دنوں کی بابت قیاس آرائیوں میں اپنا حصہ ڈالا جائے۔ مینار پاکستان پر جسے جُہلا تو الگ بہت سے پڑھے لکھے باشعور لوگ بھی یادگار پاکستان کہہ جاتے ہیں اس شام عمران خان کی زبانی ایک سیاسی بھونچال کی پیشین گوئی سنی گئی اور ہمارا افسردہ و مایوس دوست فیض احمد فیضؔ کی نظم ’’اے دل بے تاب ٹھہر‘‘ کے یہ مصرعے گنگناتا سنا گیا؎

رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسار سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دل بیتاب ٹھہر

مجھے اپنا 20 نومبر 2007ء کے اخبار میں چھپا ہوا کالم جس کا عنوان تھا ’’عمران صبح ہو جائے گی‘‘ یاد آ گیا۔ اس کالم کا آخری پیرا یوں تھا۔ ’’ایک رات بہت تاریک تھی چاروں طرف اندھیرا تھا۔ ایک مکان تھا اس کے ایک کمرے میں موم بتی جل رہی تھی۔ بچے نے کہا ابو موم بتی تو صرف ایک ہے جلتے جلتے ختم ہو گئی تو کیا ہو گا۔ باپ نے جواب دیا بیٹے پھر سورج نکل آئے گا صبح ہو جائے گی۔‘‘

لوگوں کے بڑے آدمیوں کے ساتھ تصویر کھچوانے اور اسے فریم کروانے کے اپنے ڈرائنگ روم میں نمائش کے طور پر سجانے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ ایسا خود ستائی کا شوق عموماً چھوٹے لوگوں میں ہوتا ہے۔ بہت سی تصاویر میں سے الگ کی ہوئی صرف تین تصاویر جو میرے ڈرائنگ روم میں لگی ہیں اور طویل عرصہ سے ہیں جناب ذوالفقار علی بھٹو، پروفیسر عبدالسلام اور عمران خان کی ہیں۔ یہ تینوں شخصیات دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ہیں۔

انسان خطا کا پُتلا ہے۔ غلطی ہر انسان سے ہو جاتی ہے لیکن بڑے آدمی کی غلطی بڑے تباہ کن نتائج پیدا کرتی ہے۔ بھٹو صاحب کی آخری غلطی 1977ء کے انتخابات میں اپنے سمیت چار وزراء اعلیٰ اور ڈیڑھ درجن ساتھیوں کو بلا مقابلہ قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کروا کے ملک بھر میں اپنی پارٹی کے امیدواروں کو دھاندلی کی راہ دکھا کر صلائے عام دینا تھا جس کے نتیجہ میں PNA کی تحریک نے تاک میں بیٹھے جنرل ضیاء الحق کے لیے مارشل لاء کا جواز پیدا کر دیا۔ اسی الیکشن میں ایک پولنگ اسٹیشن پر میں نے ایک پریذائیڈنگ افسر کو نہایت دیدہ دلیری سے جعلی ووٹ بھگتواتے پا کر مجبوراً گرفتار بھی کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس الیکشن میں اگر پیپلزپارٹی دھاندلی نہ بھی کرواتی تو ساٹھ فیصد اکثریت سے جیت اسی کی ہوتی مگر صد افسوس کہ بھٹو صاحب کے لیے تو تازیانۂ قدرت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

1970ء میں بھٹو صاحب کے پہلے الیکشن کے وقت میں راولپنڈی میں الیکشن ڈیوٹی پر تھا تب خدا ان پر مہربان تھا اور عوام ان کے ساتھ تھے۔ الیکشن کی تاریخ سے چند ہفتے قبل ہم چند دوست علاقہ صدر کے ایک فٹ پاتھ پر چل رہے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ ایک ساتھی نے پوچھا کون سی سیاسی پارٹی جیتے گی میں نے جواب دیا ابھی الیکشن کروا لیتے ہیں سامنے سے آنیوالے شخص کو روک کر پوچھا بھائی صاحب الیکشن میں کون جیتے گا اس کا بلا تعامل جواب تھا بھٹو۔ ایک سائیکل سوار قریب سے گزرا میں نے معذرت کے ساتھ اس کو روک کر سوال کیا۔ ہماری شرط لگی ہے آپ کے خیال میں الیکشن میں کون سی پارٹی کی جیت ہو گی۔

اس نے جواب دیا میں تو بھٹو کو ووٹ دوں گا۔ دو خوش پوش نوجوان سامنے سے آئے انھیں سلام کر کے روکا اور رائے لی دونوں بھٹو کے شیدائی نکلے۔ ایک بھکاری پر نظر پڑی میں نے اسے چند سکے دیے اور پوچھا بابا ووٹ ڈالو گے وہ بولا میرا ووٹ بھٹو کا۔ ایک اور شخص قریب سے گزر رہا تھا اس کی رائے چاہی جواب ملا یہ میرا ذاتی معاملہ ہے یوں الیکشن سے پہلے الیکشن کا نتیجہ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے معلوم ہو گیا لیکن بھٹو روز روز پیدا نہیں ہوتے اور اب بھٹو کے نام پر بے چہرہ لوگ الیکشن میں مخالفوں کی ضمانتیں ضبط نہیں کرا سکتے۔ جب تک کہ 1970ء جیسے حالات نہ ہوں یا ایک صاف ستھرا پاپولر نیک نام قابل شخص منظر عام پر نہ آئے اور عوام بھی تبدیلی اور بہتری کے خواہاں نہ ہوں۔ ایک اور شرط کہ جسٹس عبدالستار جیسا چیف الیکشن کمشنر ہونا ضروری ہے جس پر مخالف بھی انگلی نہ اٹھا سکیں اور پولنگ اسٹاف ایسا جنھیں ریٹرننگ افسر کو مہیا کی گئی فہرستوں کے مطابق ڈیوٹی پر نہ لگایا گیا ہو۔ ایک اور اہم بات کہ انتظامیہ غیر جانبدار ہو سیاسی دباؤ سے آزاد۔

آج حالات 1970ء جیسے نہیں، اس سے بدتر ہیں۔ مزید برے ہوئے تو مکمل تباہی ہوتی ہے۔ کرپٹ لوگوں کے اثاثے ان کے ڈکلیئرڈ اثاثوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر چھپائے ہوئے اثاثے ڈھونڈے جائیں اور ان کا حساب طلب کیا جائے تو ایسے کرپٹ افراد حکمرانی کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں۔ Undeclared دولت ڈھونڈ نکالنا ناممکن بھی نہیں۔ کرپٹ حکمران اور ان کے کرپٹ مخالفین کا مفاد COMMON ہوتا ہے۔ اس کے لیے تھرڈ آپشن کو آزمائے بغیر کرپٹ اور نااہل حکمرانوں یا Status Quo کے حامیوں کے چنگل سے بچ نکلنا ناممکن ہے۔ آپ آج بھی فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر راہگیروں سے پوچھ کر آیندہ کے الیکشن کا نتیحہ حاصل کر سکتے ہیں۔ تبدیلی کی ہوا چل پڑ ہے اور حالات 1970ء جیسے نہیں اس سے بدتر ہیں لیکن بدتر کو بہتر میں بدلنا کسی اور کے نہیں میرے اور آپ کے اختیار میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔