فرقہ واریت

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 25 اگست 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایران کے نائب وزیر خارجہ ڈاکٹرسید محمدکاظم سجاد پور نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں پاک ایران تعلقات پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتا بلکہ مسلم امہ کے اتحادکا حامی ہے۔ پاکستان ہمیں بہت عزیز ہے، پاک ایران تعلقات کے استحکام کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ 99 فیصد ایرانی پاکستان کو اپنا دوست مانتے ہیں ڈاکٹر موصوف نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔ پاک ایران گیس لائن کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے گیس پائپ لائن منصوبے پرکام مکمل ہوئے عرصہ ہوا اب پاکستان کو اپنے حصے کی پائپ لائن کی تکمیل کرنا ہے،امید ہے یہ کام جلد مکمل ہوگا انھوں نے کہا کوئی ایک خطہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس وقت تنازعات کا شکار ہے۔

ایران میں خمینی انقلاب کے بعد ایران کی جو قومی پالیسی مرتب کی گئی، اس میں مخصوص پالیسی  کو اولیت دی گئی، ہوسکتا ہے اس دور میں اس قسم کی پالیسی کا کوئی جواز ہو لیکن اکیسویں صدی کی جدید سائنس، ٹیکنالوجی اورآئی ٹی کے انقلاب نے نہ صرف فقہوں، فرقوں کو بے جواز اور بے معنی بناکر رکھ دیا ہے بلکہ ساری دنیا کے عوام کوایک دوسرے کے اس قدر قریب کردیا ہے کہ عقائد ونظریات انسانی رشتوں کے استحکام میں اپنی قدرکھو چکے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ایرانی وزیرخارجہ کے فرقہ واریت کے خلاف بیان کو اس نئی صورت حال کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ فرقہ واریت نے مسلم امہ کے اتحاد میں انتہائی منفی کردار ادا کیا ہے آج مسلم دنیا جس مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کا شکار ہے۔

اس میں فرقہ واریت محوری کردار ادا کر رہی ہے۔ فرقہ اورفقہ کے نام پر اب تک جو قتل وغارت گری ہوتی رہی ہے اور ہورہی ہے اس نے نہ صرف مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ ان کی اجتماعی طاقت کو بھی پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس فرقہ واریت پر مبنی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ساری دنیا میں مذہب کو رسوا کرکے رکھ دیا ہے۔ اس پس منظر میں ایران کے نائب وزیر خارجہ کا فرقہ واریت کے خلاف بیان بڑا معنی خیزاور بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کے بڑے مثبت اثرات نکل سکتے ہیں۔

اس حوالے سے دو باتوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ایک یہ کہ نئی نسلوں کے ذہن فرقے و فقہے کے زہریلے اثرات سے مبرا ہوں اور اس مقصد کے حصول کے لیے عبادت گاہوں اور درسی کتب اور نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے جسے فرقہ واریت اورفقہوں کے زہر سے آزاد کرنا ہوگا دوسرا یہ کہ مسلم اسکالرزکو اس بات کی تحقیق کرنا ہوگی کہ یہ روایتیں کب اورکیوں پیدا ہوئیں اور پروان چڑھیں اوران کے مقاصد کیا تھے ان روایتوں کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق تھا اور تھا تو اس کی بنیاد کیا تھی۔ ان حقائق کے سامنے آنے سے فرقوں  کے عذاب سے چھٹکارا پانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ صرف اورصرف انسان کا بچہ ہوتا ہے لیکن خاندان قبیلہ ماحول اسے آہستہ آہستہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی بنا دیتے ہیں جس میں گھریلو ماحول اور ماں باپ کی تربیت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مختلف فرقوں  کے ماننے والے اپنے بچوں کی تربیت میں فرقوں کو کیا مقام دیتے ہیں۔ جب تک گھریلو ماحول اور ماں باپ کی تربیت فرقوں کے زہر سے پاک نہیں ہوگی ہماری فرقوں کے خلاف کی جانے والی بات بے معنی رہے گی۔ہماری عبادت گاہیں بدقسمتی سے فرقہ واریت کا زہر پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، ضرورت اس امرکی ہے کہ ہماری عبادت گاہوں میں نہ صرف مسلم امہ کے اتحاد کی تبلیغ کی جانی چاہیے بلکہ انسانی رشتوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا چاہیے۔

آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا اکیسویں صدی میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہم ماضی میں زندہ رہنے پر فخرکر رہے ہیں۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کا دوست نہیں ہے، اس نے 1982 سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کردی تھیں ہمیں اب محتاط رہنا چاہیے۔ بلاشبہ اسرائیل دنیا میں موجود چند مذہبی ریاستوں میں سے ایک ہے لیکن ہمیں اس حقیقت کا ادراک بھی کرنا چاہیے کہ اسرائیل ایک مذہبی ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ ماضی میں زندہ نہیں ہے وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی مضبوطی سے جڑا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں منی سپر پاور بنا ہوا ہے اگر مسلم ملک اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہوں تو محض اسے برا بھلا کہنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو شخصی اور خاندانی حکومتوں کے پھندوں سے آزاد ہوکر عوامی جمہوریت کے دور میں داخل ہونا پڑے گا اور جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دسترس حاصل کرنا ہوگی۔

ایران کے وزیر خارجہ نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے یاد دلایا ہے کہ ایران اپنے حصے کا کام بہت پہلے مکمل کرچکا ہے اب پاکستان کو اپنے حصے کی پائپ لائن کا کام مکمل کرنا چاہیے۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ امریکا ایران تنازعہ کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن کا کام رکا ہوا تھا اب جب کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی تنازعہ ختم ہوچکا ہے اور ایران اور امریکا کے تعلقات بہتر ہوگئے ہیں تو پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر میں کیا رکاوٹ ہے اگرکوئی رکاوٹ ہے تو پاکستان کو یہ رکاوٹ توڑ دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔