ہم دوست کو دشمن بنا کے آئے

سعد اللہ جان برق  جمعرات 25 اگست 2016
barq@email.com

[email protected]

ہم سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ یہ جو کبھی کبھی مملکت اللہ داد ناپرسان کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور وہاں کے واحد ٹی وی چینل ’’ہیاں سے ہواں تک‘‘ اور اس کے مشہور ٹاک شو ’’چونچ بہ چونچ‘‘ کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں یہ کہاں واقع ہے، اس کا جغرافیہ کیا ہے، حدود اربعہ کیا ہے اور خاص طور پر وجہ تسمیہ اور اس سے بھی زیادہ خاص طور پر وہاں کا مذہب کیا ہے۔

جغرافیہ تو اس کا سیدھا سادہ ہے اس کے مشرق مغرب شمال جنوب میں بھی ناپرسان ہی واقع ہے بلکہ اس کے اوپر بھی ناپرسان ہے اور نیچے بھی ناپرسان ہی ہے، البتہ ان شش جہات کے درمیان جو ناپرسان ہے اس کے کچھ اور نام بھی ہیں جن میں ایک نام ’’ناگہان‘‘ ہے دوسرا ’’ناگمان‘‘ تیسرا ’’اچانک‘‘ اور چوتھا ’’یکایک‘‘ ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہاں سب کچھ اچانک، یکایک، ناگہاں اور ناگماں ہوتا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ کوئی کام ہوا ہو اور اس کے بارے میں پہلے سے کسی کو اندازہ بھی ہو، اچھا بھلا دن چل رہا ہوتا ہے اور اچانک رات ہو جاتی ہے۔

چاروں طرف مکمل رات ہوتی ہے ایک دم دن نکل آتا ہے، ابھی سورج چمک رہا ہوتا ہے اور ابھی لوگوں کو ’’تارے‘‘ نظر آجاتے ہیں، یہاں کی واحد پیداوار مہنگائی ہے اور کاروبار بے ایمانی ہے، مہنگائی کو حکومت نے اپنی سرپرستی میں لیا ہوا ہے اور بے ایمانی کو تاجروں نے ایڈاپٹ کیا ہوا ہے، جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کا شمار نہ تو ابھی تین میں ہوا ہے نہ تیرہ میں، صرف پہچان کے لیے ان کو ’’کالانعام‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کے ’’انسان‘‘ بننے میں ابھی کئی صدیوں کی دوری ہے، فی الحال تو یہ صرف ’’ہندسے اور ووٹ‘‘ کے مقام تک پہنچے ہیں

ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز
ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں

جہاں تک یہاں کے عقائد و نظریات یعنی دین و آئین کے بارے میں کچھ کہنے کا تعلق ہے تو دنیا کے تمام دانش وروں، دیدہ وروں اور پیشہ وروں یعنی علماء فضلاء اور جہلاء سب نے اپنے دماغوں کو دہی کیا رائتہ کر دیا ہے لیکن آج تک نہیں جان پائے کہ یہاں کا مذہب اور دین و آئین کیا ہے اور تو اور خود ناپرسان والے بھی نہیں جانتے کہ ہمارا مذہب اور دین و آئین کیا ہے، یہاں تک کہ جو لوگ خود کو دینی ماہرین، ظاہرین اور مشتہرین کہتے ہیں اور دین کو کھاتے پیتے اوڑھتے بچھاتے ہیں اسے بیچتے ہیں خریدتے ہیں اس کی ٹھیکیداری، اجارہ داری اور چوکیداری کرتے ہیں ان کو بھی پتہ نہیں ہے کہ ہم کیا بیچتے ہیں کیا کھاتے ہیں کیا پیتے ہیں اور کیا اوڑھتے بچھاتے ہیں، اب تک صرف ایک عالم ’’چوم نو مسکی‘‘ نے جو اس زمانے کے سب سے بڑے دانائے راز اور دانائے نیاز بلکہ دانائے پیاز ہیں اپنی کتاب ’’سوم سوم ڈومسکی‘‘ میں لکھا ہے کہ مملکت اللہ داد ناپرسان میں جو مذہب یا دین و آئین رائج ہے اسے ’’چوں چوں کا مربہ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے ۔

اس مذہب میں دو چیزیں بنیادی حقیقت رکھتی ہیں ایک تو ’’لاٹھی اور بھینس‘‘ کا قدیم ترین قانون ہے کیونکہ لاٹھی اور بھینس دونوں کا تعلق جنگل سے تھا اور دوسرا قانون ’’کلہاڑی اور دستے‘‘ کا تھا، کہ اسی جنگل کے کسی درخت سے دستہ لے کر اس جنگل کا تیاپانچہ کیا جاتا تھا اور اس کی ابتداء اسی درخت سے ہوتی تھی جس نے کلہاڑی کو دستہ دیا ہوتا۔ ان دونوں قوانین نے بھی ارتقاء کی منازل طے کرتے ہوئے اب ناپرسان میں یہ نئی شکل اختیار کی ہے کہ کلہاڑا لیڈر کہلاتا اور ’’دستہ‘‘ عوام کے نام سے موسوم ہو گیا ہے۔ بلکہ ایک طرح سے ان دونوں قوانین کے درمیان ’’کولیشن‘‘ ہو گیا ہے کہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے اس کی جیب میں کلہاڑے کا پھل بھی ہوتا ہے اور جہاں کہیں ضرورت یا موقع بلکہ مواقع ہوتے ہیں بھینس کو دوھ کر اس کا دودھ پی لیتا ہے اور جیب سے کلہاڑے کا پھل نکلال کر لاٹھی میں فٹ کر دیتا ہے اور جنگل کا ’’چیاؤں چیاؤں‘‘ نکال دیتا ہے اور جنگل صرف روتا روتا یہ گانا گاتا ہے۔

دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے
مجھ کو میرے دستے نے ہی تمام کیا ہے

جہاں تک عام معاشرتی اور رسوم و رواجات کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ادھر ادھر کی ہانکنے کے بجائے یہی بہتر ہو گا کہ ہم آپ کو اپنا چشم دید وگوش شنید ایک واقعہ سنائیں، جسے آپ ہمارا ’’سفر نامہ ناپرسان‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اسے ہم اپنے سفر نامے کی صورت میں لکھنا چاہتے تھے لیکن مارکیٹ میں ’’سفر نامے‘‘ اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی خریدار تو کیا ’’سفر نامہ‘‘ سننے اور دیکھنے تک کو کوئی تیار نہیں، کیوں کہ اس مارکیٹ میں اگر کوئی چیونٹی بھی ملتی ہے تو وہ بھی اپنے کاندھے پر اپنے دو چار سفر نامے لادے ہوئے نظر آئے گی جیسے ’’بل سے دانہ گندم تک، دانہ گندم کی تلاش میں، گڑ کی ڈلی سے بل تک، بل سے حلوائی کی دکان تک، اور جب میرے پر نکل آئے‘‘ ہمارے اس سفر ناپرسان کی وجہ یہ بنی حالانکہ سفر نامے کے لیے کسی وجہ بلکہ سفر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ہمارے اس سفر کی واقعی وجہ تھی، ہوا یوں کہ مملکت اللہ داد ناپرسان میں ہمارا ایک دوست تھا … ’’تھا‘‘ اس لیے کہ اب اس نے ترقی کر کے دوستی کی جگہ ’’دشمنی‘‘ کا منصب نہایت قابلیت اور سلیقے سے سنبھالا ہوا ہے کیوں کہ یہ بھی ناپرسان کی یا اس کی آب و ہوا کی ایک تاثیر ہے کہ دوست و دشمن کی تمیز بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔

آپ ایک روزہ چوزوں میں نر و مادہ کو پہچان سکتے ہیں لیکن آدمیوں میں خاص طور پر ناپرسانیوں میں دوست یا دشمن کو نہیں پہچان سکتے کیوں کہ وہاں دوست اور دشمن ایک کے ساتھ اپنا لباس اتنی تیزی سے بدل لیتے ہیں کہ اتنی جلدی الزبتھ ٹیلر شوہر بھی نہیں بدلتی تھی اور پھر جیسا ہم نے کہا ترقی کرنا ہر انسان کا حق ہے تو دوست کو بھی ترقی کر کے دشمن بننے کا حق ہے۔ ہمیں خبر ملی کہ ہمارے اس دوست کے ہاں بڑی منتوں، زاریوں، دواؤں، دعاؤں اور گنڈوں تعویذوں کے بعد ایک چاند سا بیٹا ہوا ہے، تعجب تو ہمیں ہوا کہ وہ دونوں میاں بیوی تو ’’چندے کوا چندے توا‘‘ ہیں تو ان کے ہاں چندے آفتاب چندے مہتاب کیسے پیدا ہو گیا لیکن پھر خیال آیا کہ مملکت ناپرسان میں ایسی انہونیاں اور ہونیاں اکثر ہوتی ہیں۔

ویسے محاورتاً بھی چاہے نومولود کوئلے کا ٹکڑا کیوں نہ ہو اسے چاند سا بیٹا ہی لکھا پڑھا اور بولا جاتا ہے، لیکن موقع واردات یعنی اس کے گھر پہنچے اور ’’چاند سا‘‘ کو بچشم خود ملاحظہ کیا تو دونوں میاں بیوی کی طرف حیرت سے دیکھا جو دونوں اس چاند کی روشنی میں ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی ماہر پالشی نے ابھی ابھی اس بھینس بھینسے کو اعلیٰ ترین پالش سے چمکایا ہو، نہ ہم نے کچھ کہا نہ انھوں نے کچھ سنا اور آنکھوں آنکھوں ہی میں سارے سوال بھی ہو گئے اور ان کے جوابات بھی مل گئے، ہمیں معلوم تھا کہ ہمارا منہ بالکل بھی ’’انڈر کنٹرول‘‘ نہیں ہے کہیں اس سے نومولود کے لیے حسب حال لفظ نکلا تو … لیکن اچھا ہوا کہ آنکھوں نے ہمارے آؤٹ آف کنٹرول منہ کو کھلنے کا موقع ہی نہیں دیا، رسمی مبارک سلامت بھی ہو گئی ہماری خاطر تواضع بھی ہوئی،اب اس مشہور و معروف رسمی دعا کا موقع آیا جو لوگ عام طور پر نومولود کو دیتے ہیں ۔

ہم نے بھی دی کہ خدا نومولود کو ایک شریف، نیک اور صالح انسان بنائے، ہمیں کیا پتہ کہ ہمارا منہ آؤٹ آف کنٹرول ہونے کے ساتھ ساتھ کلاشن کوف بھی ہے یہ بات اسے گولی کی طرح لگی اور فوراً چلا کر بولا، خدا نہ کرے خدا نہ کرے اور کبھی نہ کرے اور ہم نے دیکھا کہ اس کی بیوی اس پر دھیرے سے آمین آمین کہہ رہی ہے۔ ہمیں ابھی حیران ہونے کا بھی موقع نہیں ملا تھا کہ وہ ابل پڑا ، تم تو میرے دوست تھے میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ تم مجھے اتنی سخت اور ناقابل برداشت بددعا دو گے ، شریف، نیک اور صالح بنا کر تم تو میرا اور میری آل اولاد کا بیڑا غرق کر رہے ہو بلکہ مستقبل تاریک کرنا چاہتے ہو بلکہ ہمارے خاندان کا نام و نشان مٹا دینا چاہتے ہو۔

ہم سوال منہ کھول کر ’’ٹک ٹک دیدم ودم نہ کشیدم‘‘ کے علاوہ اور کیا کر سکتے تھے۔ اب وہ اپنی آواز کا والیوم نارمل پر لاتے ہوئے بولا ، یہی تین تو مملکت اللہ داد ناپرسان کے وہ سنگین جرائم ہیں جس پر روزانہ سزائے موت اور زندگی بھر کی قید کی مشقت اور گھر کو مسمار کرنے کی سزائیں مقرر ہیں، یہاں جو جتنا زیادہ شریف ہو گا اتنا ہی زیادہ ضغیف نحیف اور ذلیل ہو گا جو نیک ہو گا اتنا ہی برا سمجھا جائے گا اور جتنا صالح ہو گا اتنا ہی برا اس کا طالع ہو گا۔ ابھی کل پرسوں کی بات ہے میرا ایک رشتہ دار ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے پکڑا گیا‘ باقاعدہ بیان حلفیہ لے کر کہ آیندہ وہ نہ خود ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرے گا اور نہ اگلی پچھلی سات پشتوں میں سے کسی کو کرنے دے گا لیکن جب باہر آیا تو اس کی دو سو چھ ہڈیوں میں سے صرف چار مصنوعی دانت ہی سلامت تھے۔

ہم واپس تو آگئے لیکن اپنے دوست کو کھو آئے کیوں کہ اس کا کہنا تھا کہ پرانی دوستی کی خاطر وہ مجھے سلامت جانے دے رہا ہے ورنہ اگر قانون نافذ کرنے والوں کو اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو اتنی خطرناک ملک و قوم دشمنانہ بددعا پر مجھے سنگسار بھی کیا جا سکتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔