پاکستان دیگر ممالک سے بہت بہتر ہے!

شاہ نواز سرمد  جمعـء 26 اگست 2016
حقائق یہ کہتے ہیں کہ اغوا کے واقعات تعداد پہلے سے کم ہوئی ہے مگر تاثر یہی دیا جا رہا ہے جیسے ان واقعات میں ایک دم سے شدت آ گئی ہو۔ فوٹو: فائل

حقائق یہ کہتے ہیں کہ اغوا کے واقعات تعداد پہلے سے کم ہوئی ہے مگر تاثر یہی دیا جا رہا ہے جیسے ان واقعات میں ایک دم سے شدت آ گئی ہو۔ فوٹو: فائل

ہم بطور قوم عمومی طور پر حد سے سوا ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں اور جب بات ہو معاشرے کے سب سے بے ضرر کردارں یعنی ہم سب کی کمزوری، ہمارے بچوں کی تو اس پر شدید ردِعمل سامنے آنا ایک فطری بات ہے۔ اس بلا تصدیق ردعمل کی بنیادی وجہ میڈیا کے اور ہمارے اپنےغیر ذمہ دارانہ رویہ کو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن ان حالات میں تاثر یہ دیا جارہا ہے جیسے ہر طرف بچوں کو اغواء کرنے والے گینگ دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ حکومتی اداروں اور پولیس کی تمام تر تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسا کوئی ایک بھی منظم گروہ وجود نہیں رکھتا۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس کے باوجود صرف ریٹنگ کے حصول کے لئے عوام کو خوفزدہ کرنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے اور گزشتہ تین ہفتوں میں میڈیا بچوں کے اغواء سے متعلق 70 ایسے واقعات نشر کرچکا ہے جو تحقیق کرنے پر جھوٹے ثابت ہوئے۔ بلا تحقیق کوئی بھی خبر صرف ’’Breaking News‘‘ کے چکر میں چلا دینا صحافتی اقدار کے سراسر منافی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں عوام میں بھی افواہیں پھیلانے کا رحجان بہت زور پکڑ چکا ہے اور تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور سنگاپور کے اغواء شدہ بچوں کی تصاویر پاکستانی بچے ظاہر کرکے جذباتی تبصروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ اس انداز کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے عوام میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ کے احساسات کو فروغ دیا ہے جو یقینی طور پر تشویشناک صورتحال ہے۔

اس غم و غصے کی کیفیت میں پنجاب  کے شہری 20 کے قریب معصوم شہریوں کو صرف شک کی بنیاد پر زدو کوب کرچکے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ عوام کی جانب سے از خود سڑکوں پر عدالتیں لگانے کے نتیجے میں تشدد کا نشانے بننے والے ان متاثرین میں خواتین، بچے اور معمر افراد بھی شامل ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسے واقعات میں ان بچوں کے ہی والد، والدہ اور رشتے دار بھی تشدد کا نشانہ بنے، جن پر اغواء کے شبہ میں تشدد کیا گیا۔ گزشتہ ہفتے ملتان میں اسی ظلم و ستم کا شکار ایک خاتون عوامی عدالت سے کھائے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ پنجاب سے نکل کر اب یہ ’’ٹرینڈ‘‘ سندھ میں بھی جاپہنچا ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ اب سندھ سمیت پورے پاکستان کے حال پر رحم کرے۔

دوسری طرف بچوں کے اغواء کے ساتھ منسلک کی جانے والی اعضاء کی تجارت کی باتیں طبی ماہرین کے مطابق درست نہیں ہیں کیونکہ عملی طور پر ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بات یہ ہے کہ ایک تو بچوں کے اعضاء ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے لئے پختہ نہیں ہوتے، پھر ٹشو میچنگ بھی ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے بغیر اعضاء کی پیوند کاری ممکن نہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ عمل انتہائی ماہر سرجنز کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اس عمل کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے مزین اسپتال بھی درکار ہیں جب کہ پاکستان میں ایسے صرف دو سے تین جدید ادارے قائم کئے جا سکے ہیں۔

یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ اعضاء نکال کر محفوظ کر لئے جاتے ہیں اور بیرون ملک بھیج دئیے جاتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی سچائی نظر نہٖیں آتی کیونکہ انسانی اعضاء کو جسم سے الگ کر کے زیادہ وقت کے لئے قابل استعمال رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہ مجرمانہ سے زیادہ ایک پیچیدہ سماجی و معاشی مسئلہ ہے جس کے تدارک کے لئے بچوں کے تحفظ کی ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔  ایسے واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے جن میں گمشدہ رپورٹ کئے گئے بچوں نے خود گھر چھوڑا۔

بلاشبہ معصوم پھولوں کا کسی بھی مقصد کے لئے اغواء کیا جانا ایک قبیح عمل ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک ایسی جھوٹی مہم چلائی گئی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے اور اس میں بلا سوچے سمجھے ہمارے میڈیا، سوشل میڈیا صارفین اور عوام کا کود جانا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ حقائق یہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی تعداد پہلے سے کم ہوئی ہے مگر تاثر یہ دیا جا رہا ہے جیسے ان واقعات میں ایک دم سے شدت آ گئی ہو۔

ساری دنیا میں بچوں کی گمشدگی ایک سنگین مسئلہ ہے، ہمارے روایتی حریف بھارت خیر سے یہاں بھی ہم سے’’آگے‘‘ ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق بھارت میں ایک لاکھ سے زائد بچے ہر سال گمشدہ ہوتے ہیں۔ اگر گزشتہ تین سال کا جائزہ لیا جائے تو بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں 84 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی آبادی کے تناسب کو جواز بنائیں تو ہمیں چین کی مثال بھی مد نظر رکھنی چاہیئے جو کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن وہاں سرکاری ذرائع کے مطابق گمشدہ بچوں کی تعداد 10,000 سالانہ کے قریب ہے۔

گمشدہ بچوں سے متعلق جرمنی کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق وہاں ہر سال ایک لاکھ سے زائد بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی جاتی ہے۔ اسی طرح اٹلی میں ہر سال پولیس کو گمشدہ بچوں سے متعلق 3000 سے زائد درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ اس وقت ذرائع کے مطابق برطانیہ میں 226، جنوبی کوریا میں 196 جبکہ کینیڈا میں 153 بچے لاپتہ ہیں، اور تو اور دنیا کی سپر پاور امریکہ، جس کی ہم مثال دیتے نہیں تھکتے، وہاں بھی حکومت اور عوام اس گھمبیر مسئلے کا شکار ہیں اور یہاں لاپتہ بچوں سے متعلق کی جانے والی رپورٹس کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ امریکی وفاقی ادارہ برائے تحقیقات (FIA) کے مطابق نیشنل کرائم انفارمیشن سینٹر میں 2015 میں گمشدہ بچوں سے متعلق 4,60,699 کیس اندراج ہوئے، اسی طرح 2014 میں یہ تعداد 4,66,949 تھی۔

یہ معلومات ہمارے ان ساتھیوں کے لئے شاید ایک دھچکا ثابت ہو جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اندھی مچی ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں 2016-2011 کے دوران کل 6,793 بچوں کی گمشدگی رپورٹ کی گئی جس میں سے 6,692 بچے تلاش کر لئے گئے یا وہ خود واپس گھر آگئے۔ ان اعداد و شمار کی مدد سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ 98 فیصد بچے واپس مل گئے ہیں اور 101 بچے ابھی تک ایسے ہیں، جن کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ 2015 میں اغواء برائے تاوان کے 23 کیسز سامنے آئے جن میں 24 بچوں کو اغواء کیا گیا۔ ان میں سے 21 بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا۔ اس سال جولائی کے مہینے تک ایسے 4 کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور تمام 4 اغواء شدگان کو بازیاب کرالیا گیا۔

اگر تنقیدی عینک ذرا دیر کے لئے اتار کر ان اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس کارکردگی کو بہترین قرار دیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے معاملات سے نمٹنے کے لئے ایک جامع پالیسی مرتب کرے۔ اداروں کے مابین معلومات کے تبادلے کا نظام بہترکیا جائے اور عوامی آگاہی کی مہم چلائی جائیں تاکہ عوام کو خوف، ہیجان اور پریشانی کی کیفیت سے نکالا جاسکے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معصوم شہریوں کو بلا تحقیق و تصدیق اغواء کار قرار دے کر تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی جاری رہنی چاہیئے تاکہ لوگ اس کی آڑ میں ایک دوسرے سے اپنی ذاتی دشمنیوں اور عداوتوں کا بدلہ لیکر امن عامہ کی صورتحال میں بگاڑ کا باعث نہ بنیں۔ قانون کو قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں میں ہی ہونا چاہیئے نہ کہ عوام کے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

شاہنواز سرمد

شاہ نواز سرمد

شاہنواز سرمد سماجی کارکن اور نوجوان لکھاری ہیں۔ متعدد تحریروں پر وزارتِ تعلیم اور دوسرے اداروں سے ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ نوجوانوں اور بچوں کے لئے کتاب بھی لکھ چکے ہیں جسے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے 14-2013 کے لئے اس نوعیت کی پاکستان میں پانچ بہترین کتب میں شامل کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔