سیاسی آگہی اور ٹاک شوز کے مہمان

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 27 اگست 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے پسماندہ ممالک میں پاکستان ایک پسماندہ ترین ملک ہے۔ اس پسماندگی کے دو بڑے اسباب ہیں ایک ہمارا قبائلی اور جاگیردارانہ نظام دوسرا جہل یعنی علم کی کمی۔ ان دو کمزوریوں نے پاکستان کو سماجی سیاسی حوالے سے پسماندہ ترین ملک بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہر ملک کے حکمران طبقے کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کو پسماندگی سے نکالنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔

قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو دنیا کے دیگر ملکوں میں ختم کر دیا گیا۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں حصول آزادی کے بعد زرعی اصلاحات کر کے جاگیردارانہ نظام کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ حکمرانوں کے بعد یہ سیاسی جماعتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو ذہنی پسماندگی سے نکالنے کے لیے ایک موثر اور مربوط لائحہ عمل پر عمل پیرا ہوں۔

اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے زرعی اصلاحات پر زور دیں اور جہل کو دور کرنے کے لیے لازمی اور مفت تعلیم کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں لیکن المیہ یہ ہے کہ بڑی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی توجہ اس اہم ترین مسئلے پر اس لیے مرکوز نہیں ہوتی کہ یہ پارٹیاں فکری حوالوں سے جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کی حامی ہوتی ہیں اور ماڈرن سیاسی جماعتوں میں بھی بادشاہتوں کے کلچر یعنی ولی عہدی نظام کو دھڑلے سے اپنایا جا رہا ہے عوام بے چارے تو روایات کے اسیر ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ولی عہدی نظام قابل اعتراض نہیں لیکن وہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما جو مغربی ملکوں کے تعلیم یافتہ ہیں اور اپنی جماعتوں کے منشور میں اقتصادی نعروں اور نئے پاکستان کو سرفہرست رکھتے ہیں وہ بھی ان بنیادی مسائل پر زبان کھولنے میں تحفظات رکھتی ہیں بلکہ اپنی پارٹیوں میں بھی شخصیت پرستی کے کلچر کر پروان چڑھاتی ہیں جو جاگیردارانہ نظام کا ایک لازمی عنصر ہے۔

ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جمہوریت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے اور جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار رہتے ہیں خود اپنی جماعتوں میں جمہوریت کو قتل کرتے نظر آتے ہیں۔ دھاندلی کی بنیاد پر استوار انتخابات کے لیے تو ہماری سیاسی ایلیٹ بے قرار رہتی ہے لیکن اپنی جماعتوں کے اندر آزادانہ انتخابات کا نام لینا تک گوارا نہیں کرتے جس کا  قابل مذمت نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں آزادانہ انتخابات کے ذریعے قیادت کے چناؤ کے بجائے وراثتی قیادت کا کلچر مستحکم ہو رہا ہے اور اس بیماری کے خلاف سیاسی جماعتیں خصوصاً مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی جماعتیں زبان کھولنے سے گریزاں ہی نہیں رہتیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے موروثی قیادت سے قدم سے قدم ملا کر چلتی نظر آتی ہیں۔

سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اس مایوس کن کردار کے بعد اہل قلم کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ملک و معاشرے کی پسماندگی کے محرکات کے خلاف بنیادی کردار ادا کریں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طبقے نے بھی سیاست جاریہ کو اپنا اہم اور واحد موضوع بنا لیا ہے اور جمہوریت کے قاتلوں کی ہم زبانی کرتے ہوئے ’’لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ فرسودہ نظاموں کے علاوہ جہل اور ناخواندگی ہماری اجتماعی پسماندگی کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

ہمارے ملک کو وجود میں آئے ہوئے اب 69 سال ہو رہے ہیں لیکن کسی حکومت نے نہ تعلیم کو لازمی اور مفت بنانے کی کوشش کی نہ اس دہرے نظام تعلیم کے خلاف کوئی موثر آواز بلند کرنے یا تحریک چلانے کی کوشش کی۔ دہرے تعلیمی نظام کے علاوہ ایسے تعلیمی نظام کو مستحکم کیا جا رہا ہے جہاں قبائلی اور جاگیردارانہ اخلاقیات کو تو عقائد کا حصہ بنا دیا گیا ہے جدید علوم کا اس نظام میں داخلہ بند ہے۔ اگر کوئی اس ملک دشمنی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اس پر دین دشمنی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اس قدر طاقتور ہے اور اس کی رسائی ملک کے چپے چپے تک ہے کہ اگر وہ ان اہم قومی مسائل پر عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ذمے داریاں پوری کرے تو ملک و قوم کو سیاسی اور سماجی پسماندگی سے نکالا جاسکتا ہے۔ چینلوں میں سب سے زیادہ موثر پروگرام ٹاک شوز ہوتے ہیں لیکن ٹاک شوز جیسے موثر اور عوام میں بیداری پیدا کرنے والے پروگراموں کو سیاسی مرغوں کی لڑائی کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے جہاں سیاسی آقاؤں کے مڈل کلاسر غلام الزامات اور جوابی الزامات کی جنگ میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ قومی اور عوامی مسائل پر ان کی نظر ہی نہیں جاتی۔ بلاشبہ ان ٹاک شوز کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے فریق ایک دوسرے کے جرائم سے پردہ اٹھاتے ہیں  لیکن موجودہ دور کے تقاضے جدید علوم سے عوام کی آگہی ہیں۔

ہمارے ٹاک شوز کے مہمان سیاسی اشرافیہ کی نمایندگی کرنے والے مڈل کلاسر تو ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام اور جوابی الزام میں مہارت تو رکھتے ہیں لیکن عوام میں سیاسی آگہی اور ملک و قوم کی پسماندگی ختم کرنے کے لیے کوئی مہمان نظر نہیں آتا۔ ہمارے ٹاک شوز کے مہمانوں میں اہل علم ہونے چاہئیں اہل فکر اہل دانش ہونے چاہئیں ڈاکٹروں وکیلوں کے نمایندے ہونے چاہئیں۔ ٹریڈ یونینز، طلبا تنظیموں، کسانوں کے نمایندے ہونے چاہئیں۔ اکیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے آج کا انسان چاند کی یاترا کر چکا ہے مریخ اور دوسرے سیاروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا یعنی ہمارا کرہ ارض کائنات کی وسعتوں میں ایک ذرے سے کم تر حیثیت کا حامل ہے لیکن ان حقائق سے عوام کو آگاہ کرنے والے ماہرین کو ٹاک شوز کا مہمان بنانے کے بجائے سیاسی مرغوں کو یہ اعزاز بخشا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔