عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون، مصباح الحق اینڈ کمپنی۔۔۔شاباش

عباس رضا  اتوار 28 اگست 2016
ون ڈے کرکٹ میں جدت لانے کی اشد ضرورت۔ فوٹو: فائل

ون ڈے کرکٹ میں جدت لانے کی اشد ضرورت۔ فوٹو: فائل

لارڈز کے تاریخی میدان پر اجلے سفید لباس میں سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کے سیاہ ’’کارنامے‘‘ نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی کرکٹ کے درودیوار ہلا کر رکھ دیئے۔

پوری ٹیم پر شکوک کے بادل منڈلا رہے تھے، گرین کیپس کو بلیک لسٹ کرنے کیلئے آوازیں اٹھ رہی تھیں، ملکی کرکٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا تھا، معاملہ تینوں کرکٹرز کو نشان عبرت بنانے تک محدود رہا، سپاٹ فکسنگ میںسزا یافتہ کی پہچان ہمیشہ کے لیے ان کے نام کے ساتھ جڑگئی۔

اس بحرانی صورتحال میں بدنامی کے داغ دھونے کی ذمہ داری مصباح الحق کو ملی، روایتی داخلی سیاست کی بھینٹ چڑھ کر تینوں فارمیٹ کے اسکواڈز میں اپنی جگہ پکی نہ کرپانے والے اس دھیمے مزاج کے کرکٹر نے ٹیم کی کمان سنبھالنے کے بعد دھیرے دھیرے لیکن مستقل مزاجی سے عروج کی جانب سفر شروع کیا، 4 سال قبل یو اے ای میں انگلینڈ کو 3-0 سے کلین سویپ نے پاکستان کرکٹ کو نیا حوصلہ، نئی پہچان دی اور کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں پر یقین کی دولت سے مالا مال کیا، بعدازاں بھی ٹیم کئی میچز میں سخت دباؤ سے نکل کر فتوحات سمیٹنے میں کامیاب رہی، گزشتہ 6 سیریز میں سے پاکستان کو 4 میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

گرین کیپس نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کو یو اے ای میں زیر کیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو ان کے ہوم گراؤنڈ میں شکار کیا،دبئی میں انگلش ٹیم کو 72 رنز پر ڈھیر کرنا اور صرف 144کے ہدف کا کامیابی سے دفاع، شارجہ میں صرف آخری 2سیشنز میں 300سے زائد کا ٹارگٹ حاصل کرتے ہوئے فتح کا حصول، پالے کیلی میں 377کے ریکارڈ ہدف کو ممکن بنانے جیسے کارنامے مصباح الحق اینڈ کمپنی کے حصے میں آئے، ایشیائی ٹیموں کے لیے ہمیشہ مشکلات پیش آنے والی انگلش کنڈیشنز میں حالیہ سیریز میں خسارے میں جانے کے بعد اوول ٹیسٹ میں کم بیک نے ٹیم کی فائٹنگ سپرٹ کی مزید ایک روشن مثال چھوڑی۔

اپنی تاریخ میں پہلی بار عالمی رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن پر براجمان ہونے والی ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی میں استحکام کی بڑی وجہ سلیکشن میں مستقل مزاجی بھی ہے، گزشتہ چند سال میں اوپننگ جوڑی کے ساتھ تجربات ضرور جاری رہے ہیں، تاہم مڈل آرڈر میں یونس خان اور مصباح الحق جیسے اہم ستون موجود ہیں، اظہر علی اور اسد شفیق بھی موقع کے مطابق طویل اننگز کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سرفراز احمد پر اعتماد اور جارحانہ انداز میں میچ کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔

ٹیل اینڈرز بھی کئی بار اپنی مزاحمت سے ٹیم کو بحرانی صورتحال سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں، یاسر شاہ اور وہاب ریاض کی کئی اننگز مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں، انگلینڈ کیخلاف سیریز میں محمد عامر نے بھی اس صلاحیت کی جھلک دکھلائی ہے، بیٹنگ میں سب سے بڑی خوبی فائٹنگ سپرٹ ہے جس کی بدولت ٹاپ آرڈر کے فلاپ ہونے پر مڈل یا لوئر آرڈر میں سے کوئی نہ کوئی چیلنج قبول کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، درحقیقت مصباح الحق نے کئی بار مشکل صورتحال میں خود مرد بحران کا کردار ادا کرتے ہوئے ساتھی کرکٹرز کے لیے مثالیں چھوڑی ہیں۔

قائد کا ذمہ دارانہ کردار دیگر کو بھی عزم و حوصلہ دیتا ہے، یہی چیز سینئر بیٹسمین کی شخصیت اور کھیل میں نظر آتی ہے، کبھی ’’ٹک ٹک‘‘ کرنے والے کھلاڑی اور کبھی دفاعی کپتان کے طعنے سننے کے باوجود انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو رائے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا،انہوں نے سست روی کے طعنوں کا جواب آسٹریلوی بولرز کے مقابل ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین سنچری جڑ کر دیا، چوتھی اننگز میں کئی انتہائی مشکل قرار دیئے جانے والے اہداف کا بہادرانہ بیٹنگ سے حصول دفاعی کپتان کا لیبل دھندلانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔

کیریئر کی ابتدا میں ہی بلندیوں کو چھو لینے والے محمد عامر اور پاکستانی میگرا قرار دیئے جانے والے محمد آصف پر پابندی کے بعد یوے اے ای کے میدانوں میں سعید اجمل اور عبدالرحمان کی جوڑی نے سپن کا جال اتنا مضبوط بنایا کہ اس میں پھنس کر مہمان ٹیمیں پھڑپھڑاتی نظر آئیں۔ راحت علی، عمران خان اور وہاب ریاض نے بھی کنڈیشنز پیسرز کے لیے زیادہ سازگار نہ ہونے کے باوجود اپنے کردار سے انصاف کرنے کی بھر پور کوشش کی، کسی ایک کو وکٹیں حاصل کرنے میں دشواری ہوئی تو دوسرے نے ٹیم کی توقعات کا بوجھ اٹھایا۔

سعید اجمل پر پابندی پاکستان کرکٹ کیلئے بڑا دھچکا تھی، سابق کرکٹرز، مبصرین اور شائقین سب فکر مند تھے کہ یہ خلا کس طرح پر ہوگا، اس صورتحال میں یاسر شاہ کی دھماکہ خیز انٹری ہوئی، لیگ سپنر نے حریفوں کو تگنی کا ناچ نچاتے ہوئے کئی ریکارڈ پاش پاش کردیئے، تیزی سے وکٹوں کی سنچری کی طرف گامزن یاسر شاہ نے ڈوپ ٹیسٹ کے باعث پابندی کے جھٹکے کو برداشت کرتے ہوئے چیمپئن بولر کے طور پر سفر جاری رکھا ہوا ہے۔

فٹنس کے معاملے میں سینئرز مصباح الحق اور یونس خان دوسروں کے لیے مثال بنے ہیں،42 ویں سالگرہ منانے والے کپتان میراتھن اننگز کھیل کر بھی تھکاوٹ کا شکار نظر نہیں آتے، یونس خان کا شمار ٹیم کے سپرفٹ کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، کاکول اکیڈمی میں آرمی ٹرینرز کی نگرانی میں لگائے جانے والے طویل کیمپ نے دیگر کھلاڑیوں کی فٹنس کا معیار بھی بہتر بنادیا ہے، تاہم اس ضمن میں مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

فیلڈنگ میں بہترین کے ساتھ بدترین مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں، کھلاڑیوں نے کبھی انتہائی مشکل کیچ پکڑے تو کبھی آسان ترین مواقع گنوانے کی روایت برقرار رکھی ہے، دورہ انگلینڈ میں سوئنگ ہوتی گیندوں کے رخ بدل جانے پر کئی کیچ ڈراپ ہوئے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انگلش ٹیم نے بھی ہوم کنڈیشنز کا عادی ہونے کے باوجود مواقع گنوانے کا سلسلہ جاری رکھا، ایک بات طے ہے کہ اگر پاکستانی فیلڈرز چند اہم کیچ نہ گراتے تو گرین کیپس حالیہ سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔

عالمی نمبر ون ہونے کا اعتماد لیے پاکستان کو آئندہ سیریز میں ویسٹ انڈیز کا آسان شکار کرنے کا موقع مل رہا ہے، تاہم مشکل ترین آسٹریلوی اور نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز میں کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا بڑا چیلنج ہوگا، کینگروز کیخلاف برسبین میں شیڈول نائٹ ٹیسٹ میں پنک بال سے کھیلتے ہوئے کمال کی پرفارمنس دکھانا پڑے گی، کیریبیئنز کے ساتھ ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ دبئی سٹیڈیم کی مصنوعی روشنیوں میں کھیلا جائے گا، یہاں حاصل ہونے والی پریکٹس دورہ آسٹریلیا کے نائٹ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان کی پیس بیٹری ماضی میں بھی آسٹریلوی سرزمین پر صلاحیتوں کی جھلک دکھاتے ہوئے میزبان ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہی ہے، اس بار ابھی بھی وہاب ریاض،محمد عامر، راحت علی، اگر فٹ رہے تو سہیل خان بھی پچز پر موجود باؤنس اور پیس کا بھر پور فائدہ اٹھاسکتے ہیں، تاہم بیٹنگ لائن کو مچل سٹارک، پیٹر سڈل جیسے فاسٹ بولرز کا بہتر انداز میں سامنا کرنے کے لیے اچھی پلاننگ کرنا ہوگی، محمد حفیظ کی غیر ایشیائی کنڈیشنز میں ناکامیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے، ان کو ڈراپ کرکے سمیع اسلم کو آزمانے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، نوجوان بیٹسمین کی تکنیک اور ٹمپرامنٹ نے وسیم اکرم اور رمیزراجہ سمیت سابق کرکٹرز کی بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے۔

دورہ آسٹریلیا سے قبل مسلسل مواقع دیتے ہوئے ان کے اعتماد میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے، شان مسعود کی تکنیک پر بھی ہیڈکوچ مکی آرتھر اور بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کو مزید کام کرنا ہوگا، دوسری صورت میں اظہر علی کی صورت میں اوپنر موجود ہے، ان سے اننگز کا آغاز کروانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ افتخار احمد یا کسی اور آل راؤنڈر کو شامل کرکے ایک اضافی بولر کا فائدہ اٹھانے کیساتھ لوئر آرڈر کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے، لوسکورنگ میچز میں ٹیل انڈرز کی چھوٹی چھوٹی اننگز بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، محمد عامر اس معاملے میں اپنی افادیت ثابت کرچکے، یاسر شاہ بھی بے جگری سے کھیلتے ہیں، دیگر کو بھی ذہنی اور جسمانی طور پر مزید تیار رہنا ہوگا۔

دوسری جانب ٹیسٹ کرکٹ کے برعکس ون ڈے سکواڈ بدستور مستقل مزاجی سے کوسوں دور نظر آرہا ہے،کیریئر کی ابتدا سے اب تک محتاط انداز میں بیٹنگ کے عادی نظر آنے والے اظہر علی کو کپتان بنانے کے فیصلے پر بھی بار بار سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے، کسی ٹیم کا قائد ہی طویل انتظار کے بعد ایک ایسی ففٹی بنائے جس میں 58 گیندوں پر سنگل بھی نہ بن سکے تو وہ دوسروں کے لیے کیا مثال چھوڑے گا۔

مصباح الحق بھی سست آغاز کے لیے مشہور تھے لیکن ان کے پاس بڑے سٹروکس کھیلنے کی اتنی صلاحیت تھی کہ بعد ازاں اننگز کو فتح کے راستے پر ڈال سکیں،کئی میچز میں انہوں نے بعد میں اپنا سٹرائیک ریٹ بہتر کیا لیکن ساتھیوں کی کمی کی وجہ سے مشن مکمل کرنے کا موقع نہ مل سکا، اظہر علی کے سٹروکس محدود ہونے کی وجہ سے اعتماد کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، دیگر بیٹسمینوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو بیشتر جدید ون ڈے کرکٹ کے تقاضوں سے بہتر دور نظر آتے ہیں، محمد حفیظ کو اچھی اننگز کھیلنے کے لیے صرف ایشیائی کنڈیشنز درکار ہوتی ہیں، اس کے علاوہ ہر سیریز ان کی ناکامیوں کی داستان رقم کرتی نظر آئی ہے۔

شرجیل خان کرکٹ سے زیادہ بیس بال کی تکنیک پر سٹروکس کھیلتے ہیں، فیورٹ پل شاٹ ہی ان کی کمزوری ثابت ہوتی ہے، پاکستان سپر لیگ میں سنچری اننگز کے بعد اے ٹیم کے درورہ انگلینڈ میں ان کے پاس سیکھنے کا اچھا موقع تھا، آئرلینڈ کیخلاف میچ میں کمزور بولنگ پر حاوی ہونے کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا لیکن بعد ازاں سیریز کے پہلے ون ڈے میں انگلش بولرز کے سامنے عجیب و غریب انداز میں وکٹ گنوا بیٹھے اور تو اور انہوں نے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی وکٹ بچانے کی کوشش میں ریویو بھی ضائع کردیا، اس کا بہت بھاری نقصان ہوا۔

بابر اعظم اچھے سٹرائیک ریٹ سے رنز بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کی پر اعتماد اننگز جاری تھی کہ بیٹ سے ٹکرانے والی گیند پر ایل بی ڈبلیو قرار دیدیئے گئے، غلط فیصلے کے باوجود ریویو باقی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان وکٹ نہ بچاسکا، دیگر بیٹسمین سپورٹنگ پچ پر تیزی سے رنز بنانے میں ناکام رہے، اس کا اندازہ اننگز میں کھیلی گئی 134 ڈاٹ بالز سے لگایا جاسکتا ہے جو ٹیم ون ڈے میچ میں 22 اوورز سے زائد گیندوں پر کوئی رن ہی نہ بنائے، اس سے جدید کرکٹ میں 300 سے زائد رنز کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے، سرفراز احمد مشکل وقت میں دباؤ کا شکار ہوئے بغیر رنز بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، دوسرے ون ڈے میں سنچری اس کا ایک ثبوت ہے، پاکستان کو اسی انداز کے جارح مزاج قائد کی ضرورت ہے جو دوسروں کے لیے مثال بنے۔

دوسری جانب بولنگ میں بھی رنز روکنے کی صلاحیت نظر نہیں آتی، جدید کرکٹ میں صرف رفتار کو ہتھیار بنانے کی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوتی، سوئنگ اور ورائٹی کی بدولت حریف بیٹنگ لائن کا ردھم توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، ہمارے پیسرز اس ہنر مندی میں بہت پیچھے نظر آتے ہیں، محمد عامر نے کم بیک کے بعد بھارت کیخلاف میچ میں جارحانہ بولنگ کے بعد کوئی تہلکہ خیز کارکردگی نہیں دکھائی، رہی سہی کسر فیلڈرز ان کی گیندوں پر کیچ چھوڑ کر کرتے رہے، انجری کے بعد غیر مؤثر نظر آنے والے عمر گل کو بھی ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا گیا، تاہم ان سے جواں عمری کی کارکردگی کی توقع نہیں کی جاسکتی، سعید اجمل رنز روکنے اور وکٹیں لینے والے بولر تھے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں یاسر شاہ نے ان کا خلا پر کردیا لیکن لیگ سپنر کو تسلسل کے ساتھ ون ڈے کرکٹ میں مواقع نہیں دیئے گئے، ڈوپنگ کیس کی وجہ سے بھی ان کی خدمات کا سلسلہ معطل رہا، لیگ سپنر کی کامیابی کے لیے بہادر کپتان کی سپورٹ درکار ہوتی ہے، اظہر علی قطعی طور پر وہ کردار ادا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے جو عمران خان نے عبدالقادر کی حوصلہ افزائی کے لیے کیا تھا، مکی آرتھر کو بھی پاکستان کا ون ڈے کرکٹ میں انداز پسند نہیں، ہیڈ کوچ فیلڈنگ پر بھی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں، انہوں نے حکمت عملی ازسرنو تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے پاور ہٹرز تلاش اور گروم کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے، آئندہ سال چیمپئنز ٹرافی سے قبل تیاری لے لیے وقت موجود ہے، درست سمت میں مسلسل کام کرنے سے عالمی نمبر 9 گرین شرٹس کو بتدریج بہتری کی طرف گامزن کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔