پاکستان کے خلاف اتحادِ ثلاثہ؟

تنویر قیصر شاہد  پير 29 اگست 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دو دن قبل پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں آٹھ ممالک پر مشتمل تنظیم ’’سارک‘‘ کے وزرائے خزانہ کی دو روزہ کانفرنس ختم ہوگئی۔ اس کانفرنس کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان کے وزرائے خزانہ شریک نہ ہوئے۔ اسے بہت بری طرح محسوس کیا گیا۔ اپنی اپنی حکومتوں کی ایما پر بھارتی وزیرِخزانہ ارون جیٹلی، بنگلہ دیشی وزیرِخزانہ عبدالمحیط اور افغان وزیرِخزانہ اکلیل احمد حکیمی نے اسلام آباد تشریف نہ لاکر ایک بار پھر پاکستانی عوام پر واضح کر دیا کہ یہ تینوں ممالک پاکستان کے بارے میں کیسا محاذ بنا چکے ہیں۔ 3/4 اگست 2016ء کو اسلام آباد ہی میں ’’سارک‘‘ ممالک کے وزرائے داخلہ کی دو روزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔

اس میں بھی بنگلہ دیش اور افغانستان کے وزرائے داخلہ شریک نہ ہوئے۔ بھارتی وزیرداخلہ، راجناتھ سنگھ، دانستہ بدمزگی پھیلا کر دہلی روانہ ہوگئے۔ افغان وزیرِ داخلہ (تاج محمد جاہد) اور بنگلہ دیشی وزیرداخلہ (اسد الزمان خان) کا اسلام آباد نہ آنا اور بھارتی وزیرداخلہ کی تلخ آمد نے بھی ہم سب پر یہ منکشف کر دیا کہ یہ ’’اتحادِ ثلاثہ‘‘ دراصل کس کے خلاف ہے! بالیقین کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے خلاف اس معاندانہ تثلیث میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔

افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ اسلام آباد میں متعین بنگلہ دیشی سفارتی عملے کا کردار بھی متحرک نہیں رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بنگلہ دیشی اور افغان میڈیا بھارت کی گرفت میں جا چکا ہے: چنانچہ بھارت بڑی چالاکی اور چابکدستی سے ان دونوں مسلمان ممالک کے میڈیا کو پاکستان کے خلاف بروئے کار لا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے کسی بھی حکمران اور ہماری وزارتِ خارجہ میں بیٹھے بابوؤں نے عناد کی اس میڈیائی لہر کا رُخ موڑنے یا کم از کم اسے نیوٹرل کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔

تو کیا یہ ’’اتحادِ ثلاثہ‘‘ چند ماہ بعد اسلام آباد میں ہونے والے ’’سارک‘‘ ممالک کے انیسویں سربراہی اجلاس کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گا؟ یہ دو روزہ اجلاس نو اور دس نومبر 2016ء کو اسلام آباد اور مری میں منعقد ہونے والا ہے۔ امکانات بتا رہے ہیں کہ نریندر مودی شاید شریک نہ ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو بحیثیتِ مجموعی یہ ’’سارک‘‘ تنظیم کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس سربراہی کانفرنس سے دو ماہ قبل ہی بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش اکٹھے ہو کر کوششیں کر رہے ہیں کہ پاکستان کو نیچا دکھایا جا سکے۔ مثال کے طور پر معروف بھارتی اداکارہ دیویا سپندانہ عرف ’’رمیا‘‘ کا واقعہ۔ رمیا تلیگو، تامل اور کناڈا زبانوں کی مشہور بھارتی اداکارہ ہی نہیں بلکہ سابق رکنِ پارلیمنٹ اور کرناٹک کی نمایاں کانگریسی سیاستدان بھی ہیں۔

وہ گزشتہ دنوں ’’سارک‘‘ ممالک کے نوجوان سیاستدانوں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اسلام آباد تشریف لائیں۔ پاکستان میں ان سے بہت اچھا سلوک کیا گیا جس کی وہ یقینا حقدار بھی تھیں۔ بھارت واپسی پر انھوں نے، بھارتی وزیرِدفاع منوہر پاریکر کے ایک نامناسب بیان کے جواب میں، کہا کہ پاکستان کے عوام بھی محبت کرنے والے اور عام بھارتیوں کی طرح ہیں اور یہ کہ پاکستان جانا جہنم جانے کے ہر گز مترادف نہیں ہے۔ رمیا، جو تقریباً پانچ درجن فلموں کی ہیروئن رہ چکی ہیں، کے اس بیان سے مودی کے چیلے چانٹے اور بی جے پی و آر ایس ایس کے کارندے سخت طیش میں آ گئے۔ وہ کسی معروف بھارتی کی زبان سے پاکستان کے بارے میں توصیفی و تحسینی الفاظ برداشت ہی نہ کر سکے۔

چنانچہ سرکاری سطح پر رمیا کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے لیکن یہ 33 سالہ بہادر اداکارہ متعصب ہندوؤں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ وہ نہ تو پاکستان کے بارے میں کہے گئے اپنے الفاظ واپس لیں گی اور نہ ہی کسی سے معافی مانگیں گی۔ اسی دوران بنگلہ دیشی وزیرِخزانہ نے افواجِ پاکستان کے خلاف نہایت دل شکن بیان دیا ہے۔ ابھی اس کی بازگشت مدہم نہ ہوئی تھی کہ چمن بارڈر پر افغانیوں نے پاکستان کا پرچم نذرِ آتش کر دیا۔ یہ اقدام بلا وجہ کیا گیا۔ بظاہر نہیں بلکہ یقینا اس کے عقب میں بھی بھارتی ہاتھ کارفرما تھا۔ پندرہ اگست 2016ء کو بھارتی یومِ آزادی کے موقع پر کی گئی نریندر مودی کی پاکستان مخالف تقریر کے ردِ عمل میں بلوچستان میں بھارت مخالف کئی مظاہرے ہوئے۔

اس کے فوراً بعد چمن بارڈر (دوستی گیٹ) پر افغانوں کے ہاتھوں پاکستانی پرچم جلانے کا سانحہ سامنے آ گیا۔ صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ بدلے کی آگ میں اس کے پیچھے کس کی انگیخت کارفرما تھی۔ اس سانحہ کی وجہ سے بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیددگی کو ہوا ملی اور پاکستان کی طرف سے چمن بارڈر بند کر دیا گیا۔ پاکستان میں متعین افغان سفیر، عمر ذخیلوال، نے چھ روز گزرنے کے بعد اس سانحہ کی مذمت تو کی لیکن افغان حکومت کی طرف سے معذرت نہ کی گئی؛ چنانچہ 27 اگست 2016ء تک چمن بارڈر پر دوستی گیٹ 10دن گزرنے کے باوجود بند ہی تھا۔ اس تلخی اور باہمی کشیدگی کے دوران 25 اگست 2016ء کو کابل میں بروئے کار ایک نجی یونیورسٹی (اے یو اے ایف) پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ اس سانحہ میں سات طلباء سمیت ایک درجن افراد مارے گئے اور پچاس کے قریب زخمی ہوئے۔

افغانستان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، براہِ راست اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا۔ بھارتی و بنگلہ دیشی میڈیا بھی اسی افغانی تہمت کو دہراتا اور ہوا دیتا رہا حالانکہ پاکستان نے اس کی تردید اور مذمت بھی کی۔ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے افغانستان کی طرف سے فراہم کردہ تینوں موبائل فون نمبرز کی تحقیق کرتے ہوئے پورے ثبوتوں کے ساتھ بتایا کہ کابل یونیورسٹی پر حملہ آور دہشتگردوں کے زیرِ استعمال یہ نمبرز دراصل افغانستان ہی کی ایک موبائل کمپنی آپریٹ کر رہی تھی۔ یہ مسکت جواب سن کر افغان صدر جناب اشرف غنی تو خاموش ہوگئے لیکن افغان میڈیا پاکستان کے خلاف مسلسل زہر افشانی کرتا رہا۔

علم کے حصول میں سرگرداں معصوم طلباء و طالبات، خواہ ان کا تعلق دشمن ممالک ہی سے کیوں نہ ہو، کا قتل بہیمانہ اور سفاک عمل ہے۔ اس کی ہر کسی کی طرف سے اور ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔ ستم ظریفی مگر ملاحظہ کیجیے کہ کابل یونیورسٹی کے تازہ سانحہ پر امریکا اور بھارت تو بہت آتش پا ہیں لیکن جب دسمبر 2014ء کو پشاور میں اے پی ایس کے تقریباً ڈیڑھ سو کمسن طلباء طالبات اور جنوری 2016ء کو چارسدہ یونیورسٹی کے دو درجن معصوم طلباء کو دہشت گردوں نے بے دردی سے شہید کیا تو افغانستان نے بے حسی کے ساتھ چُپ سادھ لی۔ ہمارے ان شہید بچوں کے سبھی قاتلوں کا کُھرا افغانستان جاتا تھا لیکن ان کی گرفتاری اور سرکوبی کے لیے افغانستان نے پاکستان سے کوئی بھی تعاون کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ افغانستان اب بھارت سے مل کر پاکستان آنے والے پانیوں کو روک کر اور بھارت کی شہ پر ان پر بند باندھ کر ہمارے بعض دریاؤں کو خشک کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

بھارت پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ہمارے حصے کے دو دریاؤں کا بیشتر پانی غصب کرچکا ہے۔ افغانستان اور بھارت کی پاکستان میں مداخلتیں حد سے تجاوز کر رہی ہیں۔ تازہ ترین مداخلت معروف بھارتی جریدے ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ (اشاعت 5ستمبر 2016ء) کے دو خطرناک مضامین اور اس کا ٹائیٹل ہے جس میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کی تائید کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکی بھی دی گئی ہے اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف کے خلاف ہرزہ سرائی بھی۔ وقت آگیا ہے کہ ’’اتحادِ ثلاثہ‘‘ کی ان متحدہ مداخلتوں کا مستقل انسداد کرنے کے لیے پاکستان ہر سطح پر بے نیام ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔