دہشت گردی کے خاتمے پر پاک سعودی اتفاق رائے

ایڈیٹوریل  منگل 30 اگست 2016
سعودی عرب اور پاکستان دونوں ممالک نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ فوٹو؛ پی آئی ڈی

سعودی عرب اور پاکستان دونوں ممالک نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ فوٹو؛ پی آئی ڈی

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے اتوار کو اسلام آباد میں سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گرد گروپوں بالخصوص داعش سے نمٹنے کے لیے تعاون کو دگنا کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب میں گہرے دوستانہ تعلقات ہیں‘ دونوں ممالک کی دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے‘ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ سعودی ولی عہد نے یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور سعودی وزیر دفاع کے درمیان ملاقات کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

شام اور یمن کے حالات خراب ہونے کے بعد پورے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بالخصوص سعودی عرب کی سلامتی کو بہت سے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ مختلف نوعیت کے اختلافات پیدا ہونے کے بعد سعودی عرب اور یمن کے باہمی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں‘ جب امریکا نے ایران پر سے پابندیاں ہٹائیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی تو مشرق وسطیٰ کے خطے میں یہ احساس ابھرا کہ امریکا عربوں کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

دوسری جانب داعش سعودی عرب کی سلامتی کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آئی اور اس نے وہاں باقاعدہ بم دھماکے کیے لہٰذا ان تمام کشیدہ حالات کے تناظر میں سعودی حکمرانوں میں اپنی علاقائی سلامتی اور بقا کے لیے تشویش کا ابھرنا قدرتی امر ہے ،انھوں نے داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف نمٹنے کے لیے باقاعدہ فوجی اتحاد تشکیل دیا جس کا پاکستان بھی ایک حصہ ہے۔ سعودی حکمرانوں کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان ہی وہ واحد اسلامی ملک ہے جو طاقتور عسکری قوت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایٹمی طاقت بھی ہے اور اسلام کے ناطے پاکستانیوں کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے جذباتی تعلقات وابستہ ہیں۔

سعودی عرب اور پاکستان دونوں ممالک نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے‘ سیلاب آئے یا زلزلہ یا کوئی اور آفت‘ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ سعودی عرب کی سلامتی کو جب بھی کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان نے بھی آگے بڑھ کر اس کی مدد کی یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سعودی ولی عہد کو یقین دلایا کہ ان کے ملک کی سلامتی کو کوئی خطرہ درپیش ہوا تو پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان دورہ چین سے قبل ایک روزہ دورہ پر اسلام آباد پہنچے تھے‘ رواں برس ان کا یہ دوسرا دورہ پاکستان ہے۔ مبصرین کی رائے ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے حوالے سے پاکستان کی مدد کو انتہائی اہمیت دیتا ہے جب کہ دونوں ممالک دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی قریبی انٹیلی جنس تعاون کر رہے ہیں۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے‘ ایسے انکشافات سامنے آ چکے ہیں کہ بھارت اور افغانستان مشترکہ طور پر پاکستان میں اندرونی خلفشار پیدا کرنے اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں۔

داعش کی بڑھتی ہوئی قوت عراق‘ شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے لہٰذا عرب ریاستیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ علاقائی دفاع کے لیے مسلم ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ کی دفاعی قوت پر انحصار کیا جائے۔ عرب حکمرانوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ امریکا اور یورپی قوتیں ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہی ہیں اور جہاں ان کے مفادات سے کوئی ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو وہ عرب مفادات کو نقصان پہنچانے سے قطعی گریز نہیں کرتیں۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی قوتوں کی بے حسی سب کے سامنے ہے۔

امریکا اور یورپی قوتوں کی جانب سے جس طرح مسلم ممالک کی سلامتی کو خطرات پیدا ہو چکے ہیں جس کی واضح مثال عراق‘ شام اور افغانستان ہیں اس صورت حال کے تناظر میں بعض مبصرین کی جانب سے اس خواہش کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے کہ مسلم ممالک کی مشترکہ فوج تشکیل دی جائے جو مشکل وقت میں کسی بھی مسلم ملک کی بروقت مدد کر سکے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے آپس میں گہرے برادرانہ تعلقات ہیں لہٰذا مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ دونوں ممالک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘ صرف دفاعی شعبے ہی میں نہیں بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی‘ زراعت‘ تعلیم اور دیگر شعبوں میں بھی باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کا وقت آگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔