چین میں کنواروں کا انوکھا گاؤں

ویب ڈیسک  منگل 30 اگست 2016
گاؤں میں لڑکیوں کی شدید قلت ہے اور وہاں 30 سے 55 سال کے کنوارے مرد ہیں۔

گاؤں میں لڑکیوں کی شدید قلت ہے اور وہاں 30 سے 55 سال کے کنوارے مرد ہیں۔

بیجنگ: مشرقی چین کے صوبہ انہوئی میں ’لاؤیا‘ نامی گاؤں میں کنوارے مردوں کی بڑی تعداد ہے جس کی وجہ سے یہ کنواروں کا گاؤں بھی کہلاتا ہے۔

2014 میں کیے گئے سروے کے مطابق اس گاؤں کی 1600 نفوس پر مشتمل آبادی میں 112 کنوارے مرد تھے جن کی تعداد اب خاصی بڑھ چکی ہے۔ چین میں شادی کی درست عمر 20 سال سمجھی جاتی ہے اور بیشتر چینی خواتین و حضرات لگ بھگ اسی عمر کے دوران رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔ لیکن لاؤیا نامی اس گاؤں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔

یہ چین کا بہت ہی دور افتادہ گاؤں ہے جہاں آمد ورفت کے کچے پکے راستے اتنے دشوار گزار ہیں کہ بیرونی دنیا سے بہت کم لوگوں کا یہاں سے گزر ہوپاتا ہے۔ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہاں روزمرہ زندگی بھی بہت مشکل ہے جس کے باعث یہاں رہنے والی بیشتر خواتین گاؤں چھوڑ کر جاچکی ہیں جب کہ آس پاس کے دیہاتوں سے بھی خواتین یہاں آکر رہنا بھی پسند نہیں کرتیں۔

اسی ’’گرلز کرائیسس‘‘ (لڑکیوں کے بحران) کی وجہ سے لویا میں مردوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن میں اس وقت 30 سے 55 سال کے کنوارے مردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جب کہ ان کے مقابلے میں خواتین بہت ہی کم رہ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چین میں عورتوں کی شرحِ پیدائش خاصی کم ہے اور وہاں 115 لڑکوں کے مقابلے میں 100 لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔

1980 کے عشرے میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے ’’فی جوڑا ایک بچہ‘‘ کی پالیسی پر عمل شروع کروایا جس کے تحت ہر شادی شدہ جوڑے کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت تھی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں گزشتہ 30 سال کے دوران چین میں عمومی طور پر مردوں کی تعداد خواتین سے بڑھ چکی ہے اور لاؤیا گاؤں اس کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔

چین کے اس گاؤں میں رہنے والے کنوارے مرد انتہائی فرمانبردار بھی ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر مرد یہ گاؤں چھوڑ کر جانے کے لیے آزاد ہیں لیکن وہ اپنے بزرگوں کی خدمت کرنے کی خاطر یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔