غیرملکی دورے چھوڑیں کرکٹ کو بچائیں

سلیم خالق  جمعرات 1 ستمبر 2016
انگلینڈ کے خلاف چوکے چھکے ہمارے بولرز کو لگتے اور چوٹ تمام پاکستانیوں کو محسوس ہوتی۔ فوٹو: فائل

انگلینڈ کے خلاف چوکے چھکے ہمارے بولرز کو لگتے اور چوٹ تمام پاکستانیوں کو محسوس ہوتی۔ فوٹو: فائل

آؤ کھانا کھانے چلیں

نہیں آپ جائیں میرا آج موڈ نہیں ہے

جب مجھے اپنے دفتر کے ساتھی کی جانب سے یہ جواب ملا تو سمجھ گیا کہ اس نے پاکستانی بولرز کی پٹائی کا گہرا اثر لیا ہے، وہی کیا دوران میچ پورے نیوز روم کا ماحول ہی عجیب سا تھا، چوکے چھکے ہمارے بولرز کو لگتے اور چوٹ تمام پاکستانیوں کو محسوس ہوتی، میں نے سوچا کہ بیچارے شائقین ٹیم کی خراب کارکردگی کا اتنا زیادہ اثر لیتے ہیں مگر وہ بے بس ہیں کچھ کر نہیں سکتے، مگر جو ارباب اختیار ہیں وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے، ان کی توجہ صرف مکمل پروٹوکول کے ساتھ غیرملکی دوروں پر ہوتی ہے،اب ٹیم انگلینڈ میں اتنی بُری طرح سے تیسرا ون ڈے اور سیریز ہاری مگر کسی اعلیٰ آفیشل کو کوئی فرق نہیں پڑا ہو گا، وہ صرف انتظار کر رہے ہوں گے کہ جلدی سے سیریز میں کلین سوئپ ہو ، ٹور ختم ہونے کے بعد ایک، دو رسمی بیانات داغ دیں گے ، لوگ چار،پانچ دن برا بھلا کہیں گے پھر سب بھول جائیں گے۔

جب تک حکومت کی سپورٹ حاصل ہے ہمیں تو کوئی ہلا بھی نہیں سکتا، بنگلہ دیش میں پہلی بار وائٹ واش، ورلڈکپ میں بدترین شکست بھی ہوئی تب بھی چند روز شور مچا تھا اب بھی ایسا ہی ہو گا، افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی سوچ نے ہماری کرکٹ کو تباہ کر دیا، کبھی کسی نے سوچا نہ ہو گا کہ ایک دن پاکستانی ٹیم ون ڈے رینکنگ میں نویں نمبر پر آ جائے گی مگر اب ایسا ہو چکا ہے، جیسے حالات جا رہے ہیں شائقین کو ٹیم کو ورلڈکپ کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلتے دیکھنے کیلیے ذہنی طور پر تیار ہو جانا چاہیے، یقین مانیے کوئی اورملک ہوتا تو اب تک بورڈ آفیشلز کب کے عہدے چھوڑ چکے ہوتے مگر اتنے بڑے بڑے واقعات ہونے کے باوجود پی سی بی میں کسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا موجود نہیں، بورڈ کے سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم نواز شریف نے بدقسمتی سے کرکٹ کو بالکل چھوڑا ہوا ہے۔

حالانکہ وہ خود کرکٹر رہے ہیں، میں حیران ہوں کہ کیسے وہ ٹیم کی ایسی رسوائیاں برداشت کر لیتے ہیں، وہ دوستیاں نبھاتے گئے کرکٹ تباہ ہوتی رہی، شہریارخان اور نجم سیٹھی دو چیئرمین بنا دیے، ان میں اختیارات کی جنگ نے کھیل کا بیڑا غرق کر دیا،اب چھوٹے آفیشلز بھی ان کی ہی راہ پر چل پڑے ہیں، شہریارخان دو بار انگلینڈ جا چکے اور اب بھی وہیں ہیں، نجم سیٹھی بھی ساتھ ہیں،تین میڈیا منیجرز، سوشل میڈیا منیجر، تمام شعبوںکے جی ایم و دیگر افراد برطانیہ کا ٹور کر چکے،ڈھائی،تین کروڑ روپے تک تو ان لوگوں پر ہی خرچ ہو گئے ہوں گے، لوگ ایسے لندن آتے جاتے رہے جیسے لاہور سے کراچی آ رہے ہوں،کسی نے ٹیم پرتوجہ نہ دی جس کی وجہ سے یہ حال ہوا کہ 3770 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں جتنا بڑا اسکور نہ بن سکا وہ انگلینڈ نے444 کی صورت میں پاکستان کیخلاف بنا دیا۔

اتنے ریکارڈ بنے کہ لگ رہا تھا کہ انگلینڈ کا مقابلہ برمودا یا ہالینڈ سے ہورہا ہے، چیف سلیکٹر انضمام الحق پورے ٹور میں وہیں اپنے رشتے داروں کے ساتھ وقت گذارنے کے بعد چند دن قبل ہی واپس آئے ہیں ان سے پوچھنا چاہیے کہ یہ آپ نے کیسی ٹیم بنائی جو کلب لیول کی لگ رہی ہے، اس وقت بورڈ کو سونے کی کان سمجھ کر سب نوٹ کمانے میں مصروف ہیں، ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر کس کام کیلیے انگلینڈ گئے تھے ذرا بتائیں تو سہی؟ اکیڈمی سے زیادہ پی ایس ایل فرنچائز میں ان کی دلچسپی نظر آتی ہے، وہ دونوں سے تنخواہیں بٹور رہے ہیں،اسی طرح بعض دیگر آفیشلز بھی اپنے کام سے زیادہ دیگر سرگرمیوں میں مگن ہیں،سپر لیگ سے بڑا ٹیلنٹ آنے کی باتیں کی گئیں کہاں گئے وہ کھلاڑی،کسی کو ملکی کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں، کوچز کی فوج کیا کر رہی ہے کوئی ان سے سوال نہیں پوچھتا، اظہر محمود کو بڑے دعوے کر کے لایا گیا یہ سکھایا انھوں نے بولرز کو کہ ساڑھے چارسو رنز بنوا دو، مشتاق احمداتنے عرصے کیا کرتے رہے؟ میں جانتا ہوں کہ ملبہ اظہر علی پر گرایا جائے گا۔

یقیناً ٹیم میں ان کی جگہ نہیں بنتی مگر شہریارخان سے پوچھا جائے کہ گھرسے بلا کر انھیں کپتان کیوں بنایا تھا، فیصلے اتنے عجیب و غریب ہیں کہ بولر عرفان کو بیٹسمین حفیظ کی جگہ پاکستان سے بلایا گیا مگر پھر جس میچ پر سیریز کا دارومدار تھا اسی میں نہیں کھلایا، اس وقت ٹیم کو برا بھلا کہنا سب سے آسان ہے ، مگر آپ دیکھیں انگلینڈکے مقابلے میں تو یہ بچہ ٹیم ہے، شعیب ملک جیسے جو سینئرز ہیں وہ توقعات پر پورا نہیں اتر پا رہے،110 انٹرنیشنل میچز کھیل کر وہاب ریاض کو یہ نہیں پتا کہ نو بال اور پٹائی سے کیسے بچنا ہے تو کوئی کپتان کیا کرے گا، محمد عامرکو سب کی مخالفتیں مول کر واپس لایا گیا انھوں نے کون سے کارنامے انجام دے دیے؟یاسر شاہ نے بھی ثابت کر دیا کہ وہ ون ڈے کے بولر نہیں ہیں، حسن علی میں بھی وہ بات نظر نہیں آئی، بیٹنگ میں اظہر علی کے ساتھ سمیع اسلم نے بھی ظاہر کر دیاکہ وہ ٹیسٹ کیلیے ہی موزوں ہیں، شرجیل خان میں شاہد آفریدی کے ابتدائی دور والے کھیل کی جھلک نظر آئی، چل پڑے تو ٹھیک ورنہ آؤٹ، سرفراز احمد نے بہترین بیٹنگ سے ٹیم کو کچھ سنبھالا دیا ہے۔

اب انھیں ون ڈے میں بھی کپتان بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر موجودہ اسکواڈ کے ساتھ وہ کیا کر سکتے ہیں، یہ سب شطرنج کی بساط پر مہروں کی طرح بچھائے جاتے ہیں پھر انھیں بدل کر کسی دوسرے کو لایا جاتا ہے، تباہی کی اصل وجہ سب جانتے ہیں مگر مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں،اس وقت ضرورت نئے ٹیلنٹ کی تلاش اور اسے تراشنے کی ہے مگر مدثر نذر اور انضمام کیا کر رہے ہیں؟ انگلینڈ جا کر کتنے گوہر نایاب لے آئے؟ قومی کرکٹ سیٹ اپ میں بڑے ناموں کی جگہ بڑے کام کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، یہاں تو چیف سلیکٹر ایک طرف30 سال کے کرکٹرز کو اے ٹیم میں نہیں لیتے مگر دوسری جانب 42 سال کے اس کپتان کو کھیلتے رہنے کی ہدایت دیتے ہیں جسے اپنے دور میں انھوں نے ٹیم کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا، قومی کرکٹ میں اب آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے مگر افسوس جو ایسا کر سکتے ہیں مصلحتوں نے ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، ان کو پتا ہے چار دن ٹیم کو کوس کر لوگ سب بھول جائیںگے لیکن ایک دن حالات ضرور بدلیںگے، قومی کرکٹ سے محبت کرنے والوں کو اسی وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔