پاکستان بزنس کونسل نے سی پیک کے تنقیدی جائزے کا مطالبہ کر دیا

کاشف حسین  جمعرات 1 ستمبر 2016
درآمدات سے صنعتوں کوخطرہ ہے،رپورٹ،یکساں مواقع فراہم اورنئے ایف ٹی ایزسے پہلے پرانے معاہدوں کونتیجہ خیربنانے پرزور فوٹو: فائل

درآمدات سے صنعتوں کوخطرہ ہے،رپورٹ،یکساں مواقع فراہم اورنئے ایف ٹی ایزسے پہلے پرانے معاہدوں کونتیجہ خیربنانے پرزور فوٹو: فائل

 کراچی:  پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے تجارتی خسارے کی وجہ سے درپیش ادائیگیوں کے بحران سے نمٹنے کیلیے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی بحالی کو ناگزیر قرار دے دیا ہے۔

پی بی سی نے ٹریڈ اور مینوفیکچرنگ کے بارے میںجاری کردہ 7ویں سالانہ تجزیاتی رپورٹ میں گزشتہ 2سال کے دوران پاکستانی ایکسپورٹ میں مسلسل کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پالیسی سازوں پر زور دیاکہ ادائیگیوں کے تیزی سے بگڑتے ہوئے توازن کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ قابل برآمد اشیااور ویلیو ایڈڈ زرعی مصنوعات تیار کی جائیں تاکہ اس سنگین مسئلے سے دوچار معیشت کو سنبھالا جاسکے۔

رپورٹ میں پاکستان بزنس کونسل نے درآمدات کے بارے میں بڑے پیمانے پر مس ڈکلیریشن اور انڈر رپورٹنگ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے تجارت کو پہنچنے والے نقصانات، مختلف ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں سے فائدہ نہ اٹھانے اور علاقائی تجارت کے ذریعے برآمدات بڑھانے کے امکانات کو نظر انداز کیے جانے سمیت درآمدات کی یلغار کی وجہ سے مقامی سرامک انڈسٹری، پیپر اینڈ پیپر بورڈ، الیکٹرک موٹرز، فٹ ویئر، ریڈی میڈ گارمنٹس کے شعبوں کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیاکہ اسٹیشنری، کھلونے، بائی سائیکل، الیکٹرک ہیٹرز کی طرح اول الذکر صنعتوںکو بھی معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے۔

کونسل نے حکومت پر زور دیاکہ مقامی صنعتوں کو درآمدی مصنوعات سے مقابلہ کرنے کے لیے یکساں کاروباری مواقع مہیا نہ کیے جانے کی صورت میں توانائی کی دستیابی کے باوجود مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوسکیں گے۔ رپورٹ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان منصوبوں میں چین یا کسی دوسرے ملک کی جانب سے براہ راست سرمایہ کاری کے روشن امکانات کو پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں مثبت پیشرفت قرار دیا گیا تاہم پی بی سی نے سی پیک منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری سے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے گہرے جائزے کی ضرورت پر زور بھی دیا۔

کونسل نے اقتصادی راہداری کے بارے میں تنقیدی جائزے پر بھی زور دیا اور کہاکہ منصوبے کے نتیجے میں معیشت کی اضافی نمو، پیداوار میں اضافے، روزگار کے مواقع، برآمدات پر اثرات اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی مقامی انڈسٹری پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی اس امر پر بھی غور ضروری ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے حاصل کردہ قرضوں کی ادائیگی سے ادائیگیوں کے توازن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق 2015 تک چین کے ساتھ تجارت میں مس ڈکلریشن کی مالیت 5.4ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ متعدد آزاد تجارتی معاہدوں کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہ ہوسکا۔

پی بی سی ان ایف ٹی ایز کو نتیجہ خیز بنانے کا مطالبہ دہراتی رہی ہے تاہم وفاقی وزارت تجارت کی سطح پر زیادہ سے زیادہ آزاد تجارتی معاہدے کرنے کا شوق بڑھتا جارہا ہے اوراب چین سے ایف ٹی اے کے دوسرے فیز کو حتمی شکل دے رہی ہے جبکہ تھائی لینڈ، ترکی اور جنوبی کوریا کے ساتھ نئے آزاد تجارتی معاہدے کیے جارہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اب تک سری لنکا، چین، ملائیشیا، انڈونیشیا، ماریشس اور ایران کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کیے تاہم 2015 تک سری لنکا کے علاوہ دیگر 5ملکوں کے ساتھ پاکستان کو تجارت میں خسارے کا سامنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔