شام پر روس امریکا معاہدہ ٹوٹنے کا خدشہ

ایڈیٹوریل  ہفتہ 17 ستمبر 2016
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

ایک طرف شام کی خانہ جنگی لاکھوں انسانوں کو تباہ و برباد کرتے ہوئے چھٹے سال میں داخل ہو گئی جس کے بارے میں چار روز قبل ایک اطمینان بخش خبر ملی تھی کہ امریکا اور روس اس بدقسمت علاقے میں جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں جس کے لیے شرط یہ رکھی گئی تھی کہ شامی صدر بشار الاسد کی فوجیں بھی باغیوں پر بمباری بند کر دیں تاہم جنگ بندی نافذ ہونے کے صرف 4 دن بعد امریکا اور روس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ روس باغی گروپوں پر دوبارہ بمباری شروع کر سکتا ہے۔ جہاں تک جنگ بندی کے حوالے سے روس امریکا کشیدگی کی اطلاعات کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دونوں جانب سے ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے جب کہ روس نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا نے ’اعتدال پسند‘ باغی تنظیموں کو شدت پسند تنظیموں سے الگ نہ کیا تو وہ ان پر دوبارہ سے بمباری شروع کر سکتا ہے۔ اس کے جواب میں امریکا نے شامی شہر حلب اور دیگر محصور علاقوں تک امدادی سامان نہ پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

علاوہ ازیں باغی تنظیموں اور حکومتی دستوں کے مابین جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اطلاعات بھی مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اگر جنگ بندی سات دن تک جاری رہی تو امریکا اور روس متفقہ طور پر جبہ الفتح الشام اور داعش پر مشترکہ حملے کریں گے۔ واضح رہے جبہ الفتح تنظیم پہلے انصرہ فرنٹ کے نام سے جانی جاتی تھی۔

جمعے کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب سرگے لاروف کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی اور خبردار کیا کہ امریکا روس مشترکہ فوجی حکمت عملی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک امدادی سامان نہ پہنچنے دیا جائے۔ بہرحال اگر امریکا اور روس شام میں جنگ بندی توڑتے ہیں تو اس سے شام میں پہلے سے بھی زیادہ تباہی پھیلے گی جس کا سارا فائدہ دہشت گردوں کو ہو گا لہٰذا امریکا اور روس جنگ بندی برقرار رکھیں تاکہ شام میں امن کی کوئی راہ نکل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔