اب کس کا سکہ چلے گا؟

میرشاہد حسین  اتوار 25 ستمبر 2016
’’دس کا سکہ آنے سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن فقیروں کے ریٹ بڑھ جائیں گے۔ جو پہلے کہتے تھے ایک روپیہ کا سوال ہے بابا، وہ اب 10 روپے کا سوال کریں گے!!‘‘

’’دس کا سکہ آنے سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن فقیروں کے ریٹ بڑھ جائیں گے۔ جو پہلے کہتے تھے ایک روپیہ کا سوال ہے بابا، وہ اب 10 روپے کا سوال کریں گے!!‘‘

’’حکومت نے اب اپنا سکہ بٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘

’’کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔ کیا حکومت کا سکہ نہیں چلتا، کسی اور کا چلتا ہے؟‘‘

’’حکومت نے ایک، دو اور پانچ روپیہ کے سکے جاری کیے تھے جو بے چارے حکومت کی طرح غائب ہورہے تھے۔ اسی لیے حکومت نے سکوں کی قدر و قیمت میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

’’وہ کس طرح؟‘‘

’’اب آرہا ہے دس کا سکہ ۔۔۔‘‘

’’دس کا سکہ آنے سے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن فقیروں کے ریٹ بڑھ جائیں گے۔ جو پہلے کہتے تھے ایک روپیہ کا سوال ہے بابا، وہ اب 10 روپے کا سوال کریں گے!!‘‘

’’اور اس سے پہلے تو ہم چار آنے ہی دیتے تھے۔ اب تو روپیہ کا سکہ بھی دیکھ کر وہ ہمارا منہ ایسے تکتے ہیں جیسے ہم نے انہیں سکہ نہیں دیا بلکہ ان کی توہین کی ہو۔‘‘

’’جب بھی کوئی نیا سکہ جاری ہوتا ہے تو اس کی سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے لیکن جانے والوں کا جنازہ بڑی خاموشی سے ادا کردیا جاتا ہے۔‘‘

’’ٹھیک کہہ رہے ہو، ہمارے سکوں کی قیمت میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن نوٹوں کی قیمت میں روز بروز کمی ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

’’لیکن اس کے باوجود ترقی کا سفر جاری ہے اور کہتے ہیں کہ پیسہ باہر نہیں جارہا ہے اندر آرہا ہے۔‘‘

’’جی ہاں اندر جارہا ہے لیکن کس کے پیٹ میں جارہا ہے وہ تو آپ بتاتے ہی نہیں۔‘‘

’’عوام کو وہ فارمولا کیوں نہیں بتایا جاتا جس کے ذریعے ان کی دولت میں چار گنا اضافہ بھی ہوجائے اور ٹیکس بھی نہ ادا کرنا پڑے۔‘‘

’’آپ کیوں جلتے ہیں کسی کی ترقی سے؟ خود ہی دیکھ لیں کس طرح نوٹوں کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

’’جی ہاں پانچ ہزار روپے کے نوٹ کو ہی دیکھ لو جو دیکھنے میں اتنا بڑا ہے کہ کوئی لینے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔‘‘

’’سکوں کی قیمت میں اسی طرح روز بروز اضافہ ہوتا گیا تو وہ دن دور نہیں جب لوگ جیب میں پرس کے بجائے تھیلیاں لے کر نکلا کریں گے اور پھر دکاندار ایک باٹ میں سکہ اور دوسرے باٹ میں اشیائے ضرورت برابر برابر وزن کرکے دیا کرے گا۔‘‘

’’بادشاہت کا دور ختم نہیں ہوا، اب جمہوری بادشاہت کا دور آگیا ہے۔‘‘

’’پہلے زنجیر کھنچی جاتی تھی انصاف کے لیے، اب میڈیا میں بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہے۔‘‘

’’پہلے شریف بادشاہ بھیس بدل کر لوگوں کا حال جانا کرتے تھے‘‘

’’کیونکہ اس وقت میڈیا نہیں تھا ان کو حال سے باخبر رکھنے کے لیے۔‘‘

’’آج کے بادشاہ اچانک دورے کرتے ہیں اور ایک لمبا لاؤ لشکر لے کر کسی بھی چوک پر کھڑے ہو کر تصویریں بناتے ہیں اور پھر ’نوٹس‘ لے کر گھر چلے جاتے ہیں۔‘‘

’’بہرحال حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے اپنے سکے کو چلانے کا ۔۔۔ اس کے لیے اگر انہیں سو روپیہ کا بھی سکہ لانا پڑا تو وہ لائیں گے۔‘‘

’’اس کا مطلب ہے اب ایک روپیہ اور دو روپیہ کا سکہ قائد اعظم کی طرح یاد ماضی بننے کو ہے۔‘‘

’’ہاں، کاش کوئی ایسا سکہ ہوتا جو بھٹو کی طرح زندہ رہتا اور ختم ہونے کے باوجود بھی چلتا رہتا۔‘‘

’’کاش ایسا ہوتا ۔۔۔ !!‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔
میرشاہد حسین

میرشاہد حسین

میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے معروف رسالہ سے 1995ء میں کیا۔ بعد ازاں آپ اسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ آپ کو بچوں کے ادب میں بہترین ادیب کا ایوارڈ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے دیا گیا۔ آج کل بچوں کے بڑوں پر بھی اپنے قلم کے جوہر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔