ایلس فیض : دلدار داستان گو(آخری حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 25 ستمبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ایلس کسی مشاق داستان گو کی طرح ہمیں اپنی زندگی کی کہانی سنانی شروع کرتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کا اور فیض کا زندگی نامہ یہاں ختم ہوجاتا اور جیسے پرانی کہانیوں میں ہوتا تھا، بات اس جملے پر تمام ہوتی کہ اور پھر وہ ہمیشہ خوش و خرم زندگی گزارتے رہے، لیکن ایلس کے ساتھ یہ نہیں ہوا۔ سات سمندر پار سے آنے والی انگریزی بولنے والی، اردو کے ایک گندم گوں اور خاموش طبع شاعر کے عشق میں گرفتار ہونے والی کے سامنے حجرۂ ہفت بلا تھا اور اسے سر بلند اور سر خرو گزرنا تھا۔

شادی کے بعد جب وہ لاہور آتی ہیں تو زمین و آسمان نئے ہیں۔ زبان کا نہ آنا ایک مسئلہ ہے۔ فیض کہتے ہیں کہ تمہیں جلد سے جلد ہماری زبان سیکھ لینی چاہیے تاکہ تم سمجھ سکو کہ لوگ تمہارے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ لکھتی ہیں کہ ہم کنال پارک کے علاقے میں رہتے تھے۔ یہ مئی 1942ء کی گرمیاں تھیں۔ جب میں نے جانا کہ جہنم میں رہنا کسے کہتے ہیں اور پھر شملہ پہاڑی کے گھر کا ذکر کرتی ہیں جب چھت پر پلنگ بچھتے اور ان پر مچھر دانیاں لگتیں، مچھردانیوں کے ڈنڈوں پر خوشبودار پھولوں کے ہار لپیٹے جاتے، پختہ صحن میں پانی کا چھڑکاؤ ہوتا اور پھر رات ڈھلتی اور ہم تاروں کی چھاؤں میں سوجاتے۔

وہ 1947ء کے اس زمانے کا ذکر کرتی ہیں جب لاہور پناہ گزینوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان کا، طاہرہ مظہر علی اور ان کی سہیلیوں کا کام پناہ گزینوں کے لیے کھانے کا اور تو شک اور لحاف کا، عورتوں ، مردوں اور بچوں کے لیے لباس کا اکٹھا کرنا تھا۔ ان ہی دنوں لاہور سے پناہ کی تلاش میں مشرقی پنجاب جانے والے ان سکھوں کا تذکرہ ہے جنھیں ان سب نے اس یقین کے ساتھ رخصت کیا تھا کہ وہ خیریت سے سرحد پار کرلیں گے لیکن شام ڈھلتے ہی خبر آگئی کہ اللہ کے بابرکت نام کے سائے میں وہ کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ دیے گئے۔ پناہ کہیں نہیں تھی۔ وہ اداس اور دل زدہ کردینے والے دن جب دوسروں کی تکلیفوں اور اذیتوں کے سامنے اپنی زندگی جنت لگتی تھی۔

1951ء میں فیض پنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے تو ان کے اور بچیوں کے سر پر آسمان گر پڑا۔ کون سا الزام تھا جو فیض اور ان کے دوسرے ساتھیوں پر نہیں لگایا گیا تھا۔ ان الزامات کے ثابت ہوجانے پر کم سے کم سزا عمر قید اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت تھی۔ فیض پر پنڈی سازش کیس کا مقدمہ بنا اور وہ گرفتار ہوئے تو چند دنوں بعد سی آئی ڈی نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور ’خفیہ کاغذات‘ کی تلاش میں سارا گھر تلپٹ کردیا گیا۔ کتابیں، رسالے، تصویریں، خطوط۔ گھرکی ٹائلیں۔ سی آئی ڈی کو شبہہ تھا کہ ان کے نیچے شاید کوئی تہ خانہ ہو۔ شاید خفیہ خط وکتابت چھپائی گئی ہو۔

ایسے میں فیض کے خاندان کے کچھ لوگ اور چند دوست تھے جنہوں نے فیض گھرانے کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ آمدنی کے سوتے خشک ہوچکے تھے۔ ایسے میں میاں افتخارالدین نے ایلس کو ’پاکستان ٹائمز‘ میں ملازمت کی پیشکش کی جو ایلس نے فوراً قبول کرلی۔ اس لیے کہ اب یہ ایلس تھیں جنھیں گھر کا خرچ چلانا تھا، دونوں بیٹیوں کی اسکول کی فیس دینی تھی اور سب سے بڑھ کر فیض پر چلنے والے مقدمے کے لیے رقم اکٹھا کرنی تھی۔ فیض کی گاڑی فروخت ہوئی اور دام حسبِ روایت بہت کم ملے۔ایلس نے اس رقم میں سے ایک فلپس سائیکل خرید لی جس کے لیے انھوں نے ڈیڑھ سو روپے ادا کیے اور پھر یہ سائیکل پانچ برس تک ان کی سنگی ساتھی رہی۔ وہ اس پر سوار ہوکر پاکستان ٹائمز کے دفتر جاتیں اور وہاں سے واپس آتیں۔ یہ انگریزی کا وہ اخبار تھا جہاں ’آپا جان‘ کے نام سے وہ بچیوں، بچوں اور عورتوں کو مشورے دیتیں۔

انھوں نے ’پاکستان ٹائمز‘ کے دنوں کو بہت محبت سے یاد کیا ہے۔ وہ دن جب ان کی اور طاہرہ مظہر علی کی کوششوں سے ایک باتھ روم خواتین کے لیے بنا جس کا فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا گیا اور اس واقعے کا بھی جب ایک نیپالی خاتون کی نبضیں ڈوب رہی تھیں اور ہنگامی بنیادوں پر خون کی ضرورت تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ کیسے ایک ہٹے کٹے نوجوان نے خون دینے سے انکار کردیا تھا چنانچہ ایلس نے خون دیا تھا اور اس کے فوراً بعد سائیکل چلاکرگھر گئی تھیں۔

وہ چند گھنٹوں کے نوٹس پر گھر خالی کرنے کا حکم اور اس کے نتائج کا ذکر کرتی ہیں اور اس کا بھی کہ پھر کس طرح یہ حکم نامہ واپس ہوا۔ وہ شکر گزاری کے ساتھ محمد شفیع اور ’نوائے وقت‘ کے حمید نظامی کا ذکر کرتی ہیں جنہوں نے اس ’سلوک‘ پر احتجاجی ایڈیٹوریل نوٹ لکھا تھا۔

فیض کے چہیتے بھائی کے انتقال کے بارے میں ان کی تحریر آنسوؤں سے بھیگی ہوئی ہے، اسی طرح جب لاہور سے حیدرآباد کے سفر کے دوران ایک نوجوان عورت اور اس کی بوڑھی ماں ہے۔ نوجوان عورت کی گود میں ایک بچہ ہے جو نہ روتا ہے اور نہ ہلتا جلتا ہے۔ اس کی ماں رورہی ہے اور روتی چلی جاتی ہے اور پھر چلتی ٹرین کی کھڑکی سے اس بچے کو باہر اچھال دیتی ہے۔ تمام عورتوں کے ساتھ ہی ایلس بھی ششدر ہیں۔ کئی ہاتھ زنجیر کھینچنے کے لیے بڑھتے ہیں، تب ہی ماں چیخ کر کہتی ہے کہ اس کی بیٹی نے بچہ نہیں، چادر میں لپٹے ہوئے اس کے کپڑے پھینکے تھے۔ تین دن پہلے اس نوجوان عورت کے شوہر نے بیوی اور بچے کو بہت مارا تھا جس سے بچہ مرگیا تھا اور دفن کردیا گیا تھا۔

فیض اور ان کے ساتھیوں کو 4 برس کی جیل ہوتی ہے۔ وہ اور بچیاں ان دنوں کو گن گن کر گزارتی ہیں۔ فیض واپس آجاتے ہیں اور پھر یہ لوگ لندن جاتے ہیں، ایلس اور بچے وہاں کچھ وقت اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں، واپس آتے ہیں تو 1958ء کا مارشل لا سر پر آپہنچا ہے اور اس کے ساتھ ہی گرفتاریاں۔ الزام و دشنام کی پرانی کہانی۔ فیض، سبط حسن اور دوسرے ترقی پسند لاہور کے قلعے پہنچا دیے جاتے ہیں۔ ایلس شاہی قلعے میں دی جانے والی عقوبتوں اور اذیتوں سے واقف ہیں۔ فیض کا گھرانہ وہ دن کن عذابوں میں گزارتا ہے، یہ وہی جانتے ہیں اور پھر اچانک فیض اور دوسرے چھوڑدیے جاتے ہیںـ۔

ماسکو سے فیض کو لینن امن انعام دینے کا اعلان ہوتا ہے لیکن فیض پر پاکستان سے باہر قدم رکھنے پر پابندی ہے، یہ پابندی صرف صدر پاکستان جنرل ایوب خان ہٹا سکتے ہیں۔ کسی کو بھی امید نہیں کہ فیض کو سوویت یونین کے سفر کی اجازت ملے گی لیکن آخری دنوں میں اجازت مل جاتی ہے۔ فیض کے ڈاکٹر انھیں بحری سفر کی اجازت دیتے ہیں اور وہ سلیمیٰ کے ساتھ بحری سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ ایک طویل اور تھکا دینے والا سفر۔ ایلس منیزہ کے ساتھ طیارے سے ماسکو جاتی ہیں۔ ماسکو جو پاکستانیوں کے لیے علاقہ غیر ہے۔

وہ ان دو برسوں کا ذکر کرتی ہیں جو انھوں نے فیض کی خود ساختہ جلا وطنی کے دنوں میں گزارے۔ یہ لندن تھا جہاں فیض اپنی شاعری سے اپنے چاہنے والوں کو نہال کرتے رہے اور ایلس کبھی کسی میوزیم اور کبھی کسی ایسے اسکول میں پڑھاتی رہیں جہاں ٹوٹے ہوئے گھر اور خاندانوں کے ذہنی طور پر برباد شدہ بچے تھے۔

ایلس ایک خانہ بدوش کی طرح فیض کے ساتھ کبھی لندن، کبھی بیروت اور کبھی ماسکو میں نظر آتی ہیں۔ بیروت کی سڑکوں اور گلیوں میں پھرتی ہوئی۔ گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بموں کے دھماکوں کی آواز میں زندہ رہنے کی کوشش کرتی ہوئی۔ شہر اسرائیلوں کے محاصرے میں ہے۔ وہ بیروت کی سڑکوں، بازاروں اور گھروں کا احوال لکھتی ہیں۔ یہ دونوں جس فلیٹ میں رہتے ہیں وہ بمباری کی زد میں آتا ہے وہی بیروت جس کے لیے فیض نے لکھا تھا ’بیرو ت بدیلِ باغ جناں‘۔ ہم اس رسالے کے لیے فیض، ایلس اور دوسرے دوستوں کی بحثیں سنتے ہیں۔ ’لوٹس‘ جو عربی، انگریزی اور فرانسیسی میں شایع ہوگا۔ فیض صاحب نے ’لوٹس‘ کے لیے میری کہانی ’بودو نبود کا آشوب‘ ترجمہ کی۔ افسوس کہ وہ لوٹس میں نہ شایع ہوسکی کیونکہ فیض صاحب بودسے نہ بود کے سفر پر روانہ ہوچکے تھے۔

ہمیں ان کی یاد داشتوں میں مشہور عرب شاعر محمود درویش اور دوسرے اہم فلسطینی ادیب، شاعر اور صحافی نظر آتے ہیں۔ ایلس نے بیروت سے کراچی اور لاہور کے سفر کو تفصیل سے لکھا ہے۔ فیض کی بیماری ، پرانے دوستوں کا ہمیشہ کے لیے بچھڑنا اور اس بچھڑنے کا رنج و الم۔ 1980ء میں ہونے والی افرو ایشیائی رائٹرزکانفرنس میں شرکت، ماسکو، الماآتا، لبنان کے دوسرے شہر، ہنوئی، ویت نام اور کمپوچیا، اجتماعی قبرستان کا ذکر جس میں 8000 سے زیادہ انسان دفن کیے گئے۔

ان یادوں میں سلیمیٰ، منیزہ، ان کے بچے، کٹھ پتلیاں، ہاتھ سے بنائی جانے والی گڑیاں، پالتو بلیاں، دوست احباب، شعرا اور ان کی شاعری، فیض کے دوست اور ایلس کی اپنی سہیلیاں سب ہی اپنی جھلک دکھاتی ہیں۔ سوچتی ہوں فرنگن بہو نے اپنے آپ کو ایک شخص کے عشق میں جس طرح رنگ دیا۔ فیض نے اگر لاہور یا پنجاب کے کسی دوسرے شہر سے اپنی دلہن کا انتخاب کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ فیض یقینا وہ نہیں ہوتے جو وہ ہمارے سامنے آئے اور یہی اس فرنگن کا کمال ہے۔ ’سنگ میل‘ لاہور نے یہ کتاب اہتمام سے شایع کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔