بلدیہ کے ملازمین کی حالت زار

ظہیر اختر بیدری  اتوار 25 ستمبر 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک اخباری اطلاع کے مطابق حکومت سندھ نے رواں ماہ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی 60کروڑ کی گرانٹ میں سے 20 کروڑکی کٹوتی کر کے یہ رقم ادارہ ترقیات کراچی کو جاری کر دی ہے جس کی وجہ سے ادارے میں پہلے سے موجود زبوں حالی میں اور اضافہ ہو گا اور اسی خبر کے مطابق 20 کروڑ کی کٹوتی سے رواں ماہ ملازمین کو صرف نیٹ تنخواہیں دی جا سکیں گی دیگر واجبات ادا نہیں کیے جا سکیں گے۔

اس بحران کے باعث پنشن اور جوابات کی ادائیگی میں اور زیادہ مشکلات پیش آئیں گی۔ بلدیہ کراچی میں 16926 ملازمین کام کرتے ہیں جن کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے ماہانہ 60 کروڑ  روپوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 20 کروڑ کی کٹوتی کے بعد اب 40 کروڑ روپے کی گرانٹ رہ جائے گی۔ بلدیہ کے ملازمین کو پہلے ہی سے وقت پر تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں اور پنشنرز کو پنشن کے لیے مہینوں انتظارکرنا پڑتا ہے۔ 20 کروڑ گرانٹ کی کمی کی وجہ سے تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں اور مشکلات درپیش ہوں گی۔

پچھلے ہفتے بلدیہ کراچی کے ملازمین کی یونین سجن کے رہنماؤں نے بھی یہ شکایت کی تھی کہ بلدیہ کی مقررہ گرانٹ کی ادائیگی بروقت نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین اور پنشنرز کو سخت مشکلات کا سامنا رہتا ہے ان رہنماؤں نے الزام لگایا تھا کہ بلدیہ کراچی میں بڑے پیمانے پرکرپشن ہورہی ہے جس کا براہ راست اثر ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی پر پڑ رہا ہے۔

سجن یونین کے رہنماؤں نے کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور بلدیہ کا بجٹ وقت پر ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس حوالے سے ایک بد ترین اور افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ 30،40  سال بلدیہ میں خدمت ادا کرنے کے بعد عمر کے آخری حصے میں پہنچنے والے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی میں برسوں لگا دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ریٹائرڈ ملازمین کو سخت مشکلات اور فاقوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عمر کا آخری حصہ ریٹائرڈ ملازمین جن میں ایک بڑی تعداد اساتذہ کی ہے انتہائی دشوار بلکہ عذاب بن جاتا ہے۔

بینکوں میں ہر ماہ ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کے لیے گھنٹوں دھوپ میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اور عموماً ریٹائرڈ ملازمین کو اپنی پنشن کا مہینوں انتظارکرنا پڑتا ہے۔  ریٹائرڈ ملازمین کو ریٹائرمنٹ لیٹر چار چار پانچ پانچ ماہ بعد ملتا ہے اس کے بعد لیو انکیشمنٹ میں جسے ہفتہ دو ہفتے میں مکمل ہونا چاہیے سالہا سال لگا دیا جاتا ہے اور پنشن کی ادائیگی بھی سالوں بعد شروع ہوتی ہے۔

ریٹائرڈ ملازمین ریٹائرمنٹ واجبات کے حصول کے حوالے سے اپنے بچوں کی شادیوں کا پروگرام بنا کر بیٹھتے ہیں لیکن واجبات کی ادائیگی میں برسوں لگ جانے کی وجہ  سے ریٹائرڈ ملازمین کے سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ دوسرے صوبوں میں ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن و واجبات کی ادائیگی میں اس قدر نااہلی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جتنا صوبہ سندھ میں دیکھا جاتا ہے۔

سابق وزیراعلیٰ کے دور میں ان شکایتوں کا ازالہ اس لیے نہیں ہو پاتا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ اپنی کارکردگی میں بہت سست رفتار تھے لیکن نئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہر سرکاری محکمے میں بہتر کارکردگی لانے میں کوشاں بھی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعلیٰ سرکاری محکموں میں ہونے والی بدعنوانیوں خصوصاً ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ ہونے والے مظالم کا سدباب کریں کیونکہ ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ملازمین کا ذریعہ آمدنی ختم ہو جاتا ہے اور وہ مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں ان حقائق کی روشنی میں ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل ایک معینہ مدت میں حل کرنے کی پابندی لگائی جانی چاہیے اور بلدیہ کے ملازمین کی نمایندہ یونین ’’سجن‘‘ کی اس شکایت کا سختی سے اور جلد ازجلد ازالہ ہونا چاہیے کہ بلدیہ میں اوپر سے نیچے تک کرپشن کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس سے ملازمین سخت پریشان ہیں۔

اگرچہ اس قسم کی تمام نا اہلیاں اور بدعنوانیاں سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ ہیں لیکن ملازمین کو تنخواہوں، پنشن اور واجبات کی ادائیگی میں برسوں کی تاخیر ایک ایسا جرم، ایسا ظلم ہے جو کسی بھی پسماندہ ملک میں دیکھا نہیں جاتا، ہر محکمے میں میرٹ کے بجائے تعلقات، رشتے داریوں اور سفارشوں کی وجہ سے نا اہل لوگ اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں ۔

جس کی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے ہی سے مالی مشکلات میں مبتلا بلدیہ کراچی کی گرانٹ میں 20 کروڑ روپے ماہانہ کی کٹوتی ہے بلدیاتی امداد اور بلدیہ کے ملازمین اور پنشنرز کے لیے مشکلات میں جو تباہ کن اضافہ ہو گا اس کا کون ذمے دار ہو گا؟

اسٹیل ملز پاکستان کا اہم ترین ادارہ تھا لیکن حکمران طبقے نے ہمیشہ اپنے رشتے داروں، سفارشیوں کو اس ادارے کا سربراہ بنا کر اس ادارے کو تباہی کی اس منزل پر پہنچا دیا ہے کہ نہ اس کا چلانا آسان رہا نہ ایسی صورت میں اس کا بیچنا سودمند ہو سکتا ہے۔ سرکاری اداروں میں جس میں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے وغیرہ شامل ہیں محض سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ضرورت سے اس قدر زیادہ اضافی ملازمین رکھے جاتے ہیں جس کا نتیجہ ان اداروں کی تباہی کی شکل میں سامنے آتا ہے کہا جا رہا ہے کہ اسٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے اداروں میں ضرورت سے دگنے ملازمین رکھے گئے۔

اضافی ملازمین کو ملازمتوں سے نکالا جاتا ہے تو ملک میں پہلے ہی سے خطرناک حدوں کو چھونے والی بیروزگاری میں اور اضافہ ہو گا اور یہ بیروزگار لوگ زندہ رہنے کے لیے ہرجائزو ناجائز راستے پر چل پڑیںگے جس کا نتیجہ جرائم میں بے تحاشا اضافے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہمارے ملک میں گڈگورننس نہ ہونے کا شکوہ عام ہے لیکن کوئی ادارہ ایسا ذمے دار اور بااختیار نہیں جو بیڈگورننس کے ذمے داروں کا احتساب کرے حتیٰ کہ اعلیٰ عدلیہ بھی اس حوالے سے سخت ریمارکس تو دیتی ہے لیکن ان برائیوں کا خاتمہ اس کے بس میں بھی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔