ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو امریکا کا اہم اتحادی قرار دے دیا

ویب ڈیسک  پير 26 ستمبر 2016
ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کہا ہے کہ اگر وہ امریکی صدر بن گئے تو اسرائیل کے ساتھ ہر سطح پر غیرمعمولی تعاون کریں گے۔ (فوٹو: فائل)

ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کہا ہے کہ اگر وہ امریکی صدر بن گئے تو اسرائیل کے ساتھ ہر سطح پر غیرمعمولی تعاون کریں گے۔ (فوٹو: فائل)

نیویارک: مسلم دشمن امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز نیویارک میں اپنی رہائش گاہ پر اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران کہا کہ اگر وہ امریکی صدر بن گئے تو یروشلم کو ’’غیرمنقسم اسرائیل‘‘ کا دارالحکومت تسلیم کرلیں گے۔

ٹرمپ نے اپنے اس بیان میں مسلمانانِ عالم کو بین السطور واضح پیغام دیا ہے کہ ان کے نزدیک فلسطینی ریاست کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی ملاقات میں انہوں نے عالمی سطح پر جاری ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو امریکہ کا ’’اہم اتحادی‘‘ بھی قرار دیا۔

نیتن یاہو سے اس ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا یروشلم پچھلے تین ہزار سال سے یہودیوں کا دارالحکومت رہا ہے اور ٹرمپ کے صدر بن جانے کی صورت میں امریکی کانگریس یروشلم کو اسرائیلی ریاست کا ’’ابدی دارالحکومت‘‘ تسلیم کرتے ہوئے اس کا طویل مدتی مینڈیٹ بھی قبول کرلے گی۔

اسی پر بس نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذکورہ ملاقات میں نیتن یاہو سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر وہ امریکی صدر بن گئے تو اسرائیل کو طویل مدتی بنیاد پر ’’غیرمعمولی‘‘ ہمہ جہتی، فنیاتی اور فوجی تعاون بھی فراہم کریں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت بھی امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی مالی امداد اور جدید ترین اسلحے کی فراہمی جاری ہے؛ اور امریکی وسائل سے سب سے زیادہ فیضیاب ہونے والا ملک بھی اسرائیل ہی ہے۔

مثلاً جدید ترین اور سب سے مہنگا لڑاکا امریکی طیارہ ’’ایف 22 ریپٹر‘‘ اگرچہ صرف امریکی فضائیہ کےلئے بنایا گیا ہے لیکن مختلف بین الاقوامی ذرائع کے مطابق یہ اسرائیل کو بھی ’’تحفے میں‘‘ یعنی بلاقیمت دیا جائے گا جبکہ مشہورِ زمانہ ایف 16 لڑاکا طیارے کا جدید ترین ورژن ’’ایف 16 آئی‘‘ (F-16I) بطورِ خاص اسرائیل ہی کےلئے تیار کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد یروشلم کے مغربی حصے پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا تھا اور 1980 میں اسے ’’متحدہ اسرائیل‘‘ کا دارالحکومت بھی قرار دے ڈالا تھا۔ لیکن امریکہ سمیت اقوامِ متحدہ کے بیشتر رکن ممالک نے اسرائیل کا یہ فیصلہ آج تک قبول نہیں کیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ جب تک فلسطین کے ساتھ اسرائیل کے امن مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے تب تک یروشلم کی حیثیت کا کوئی یک طرفہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

اکتوبر 1995 میں امریکی کانگریس میں پیش کردہ ایک قانون کے تحت ’’متحدہ یروشلم‘‘ کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کا فیصلہ کرتے ہوئے مطلوبہ رقم کا تقاضا بھی کیا گیا تھا لیکن اب تک کسی بھی ری پبلکن یا ڈیموکریٹ صدر نے اس قانون کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔