بھارتی چینلز پر پاکستانیوں کی شرکت پر پابندی لگائی جائے

عاطف اشرف  منگل 27 ستمبر 2016
کیا میڈیا پر ملک کا کامیابی سے دفاع نہ کرکے پاکستان کی بدنامی کروانے والے تجزیہ کاروں  پر مکمل پابندی عائد نہیں کر دینی چاہیے؟ فوٹو: فائل

کیا میڈیا پر ملک کا کامیابی سے دفاع نہ کرکے پاکستان کی بدنامی کروانے والے تجزیہ کاروں پر مکمل پابندی عائد نہیں کر دینی چاہیے؟ فوٹو: فائل

آج کل بھارت کے نیوز چینل پاکستان کے خلاف غلیظ پراپیگنڈا کررہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ٹائمز ناؤ پر پاکستان مخالف پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بھارتی میڈیا کی خصلت دیکھ کر احساس ہوا کہ پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا جا رہا ہے وہ دنیا کے شاید ہی کسی سانپ کے پاس ہو۔ مقبوضہ کشمیر کے اڑی سیکٹر میں حملے پر تبصرے کی آڑ میں  پاکستان توڑنے کے ایسے ایسے خیالی پلاؤ پکائے جا رہے تھے جو شاید کسی نے خواب میں بھی نہ کھائے ہوں۔ شروع شروع میں تو مجھے یہ ٹاک شو دیکھ کر غصہ آیا لیکن جب بھارت کے بڑے ناموں کی بچگانہ ذہنیت کو ناچتے دیکھا تو مجھے وہ نیوز چینل انٹرٹینمنٹ چینل لگنے لگا۔ پاکستان سے متعلق ایسے تبصرے سن کر مجھے جتنی ہنسی آئی اتنا ہی بھارتی صحافت کے لیول پر ترس بھی آیا۔ وہاں پاکستان سے متعلق جو کچھ کہا جارہا تھا وہ یہاں بتانا مناسب نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ایسا کرنے سے کہیں بھارتی پراپیگنڈے کا مقصد پورا ہوجائے بلکہ نہ بتانے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے تبصروں کو بیان کرنا نہ صرف الفاظ ضائع کرنے کے مترادف ہوگا بلکہ بھارتی میڈیا کی چھوٹی سوچ کا قد بھی بڑا ہوجائے گا جس کا وہ مستحق ہے ہی نہیں۔

یہاں کسی ایک چینل کی بات نہیں ہورہی، بلکہ ہر ہر چینل کی صورتحال ایک جیسی ہی تھی۔

پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیکس کی باتیں ہوئیں تو پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کرارا جواب آیا۔جس کے بعد ایک سیانے نے اس بھارتی  تھنک ٹینک کے کان میں سرگوشی کی کہ پگلے سٹیا گیا ہے کیا؟ پھر کیا سرجیکل سٹرائیک کا سوچنے والی بھارتی تھنک ٹینک کی ایسی نیورو سرجری ہوئی کہ اگلے ہی دن سرجیکل اسٹرائیک کی ساری سوچ ٹی وی چینل کے ایمرجنسی نیوز روم سے اسٹریچر پر ڈال کر باہر نکال دی گئی۔

اس بلاگ کا مقصد نہ تو بھارتی میڈیا کی زہر افشانی کو بیان کرکے کیچڑ میں پتھر پھینکنا ہے اور نہ ہی   بھارتی حکومت کی نفسیاتی سوچ کا جواب دینا ہے، مجھے یہ بلاگ لکھنے پر مجبور کرنے والے وہ پاکستانی تجزیہ کار ہیں جو ایسے بھارتی پروگراموں میں جا کر اپنی اور پاکستان دونوں کی عزت داؤ پر لگ ادیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے پاکستانی تجزیہ کار اگر ایک انتہا پسند بھارتی چینل کے پروگرام میں بیٹھ کر پاکستان کا دفاع نہیں کرسکتے تو پھر پروگرم میں شرکت ہی کیوں کرتے ہیں؟

ذرا مندرجہ ذیل موجود ویڈیو کو غور سے دیکھیے کہ کس طرح پاکستانی مہمان کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔

ارناب گوسوامی نامی اس مسخرے کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ پاکستانی مہمانوں کو دعوت تو دیتا ہے لیکن اِس کا مقصد پاکستان کا موقف سننا نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی پاکستانی تجزیہ کار کو پروگرام صرف اِس لیے شامل کیا جاتا ہے تاکہ ایک اکیلے مہمان کو باکسنگ بیگ بنا سکے۔

یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ پروگرام کا میزبان ایک ایسا میزبان ہے جس کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی پینلسٹس کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس واضح صورتحال کے باوجود بھی ناجانے پاکستانی تجزیہ کار کیونکر اِن پروگرامات کا حصہ بنتے ہیں۔ پاکستانی عوام شاید یہ بات نہیں جانتی لیکن بھارت کے چینل پاکستان کی جگ ہنسائی کے لئے انہیں مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں؟ ذرا یہ ویڈیو غور سے دیکھیے۔

کچھ دن پہلے اسی بھارتی پروگرام پرپاکستان سے متعلق وہ الفاط کہے گئے جنہیں سنتے ہی میں نے پروگرام دیکھنا چھوڑ دیا کیونکہ یہ ریمارکس انٹرٹینمنٹ کی بجائے ننگی گالی تھی۔ جسے سن کر پاکستانی مہمان پروگرام سے اٹھ کر جانے کی بجائے صرف اتنا ہی کہہ سکے کہایسی زبان استعمال نہ کی جائے۔ اِس سے بھی افسوسناک صورتحال پھر یہ ہوئی کہ پاکستانی مہمان کا جواب سن کر بھارتی مہمان نے جواب دیا کہ اس زبان میں کچھ بھی غلط نہیں۔ وہ جملہ کیا تھا میں یہاں بیان تو نہیں کرسکتا لیکن صرف اشارہ ہی دے سکتا ہوں کہ پاکستان کو اس کردار سے تشبیہ دی گئی تھی جو پیسے کے لئے عزت کی پروا نہیں کرتی۔

مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستانی مہمان خاص انتہا پسندانہ سوچ کے بھارتی چینلز کے مہمان کیوں بنتے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایسے نااہل نام نہاد تجزیہ کاروں کو بھارتی پروگرام میں بیٹھنے کی اجازت کون دیتا ہے؟اگر پاکستان کا دفاع کرنے کی اہلیت ہی نہیں تو میڈیا کے اس محاز پر کھوکھلے ہتھیاروں کے ساتھ کیوں اور کیسے جاتے ہیں؟ بھارتی میزبان اور بھارتی مہمان لگر بگڑوں کی طرف مل کر پاکستانی پر وار کرتے ہیں، توپوں کا رخ پاکستانی مہمان کی طرف کرکے ہر طرح کا غلیظ گولہ پھینکتے ہیں اور اگر پاکستانی مہمان  تھوڑا بہت جواب دینا بھی چاہے تو اس کی غلیل تک نہیں چلنے دیتے۔

یاد رہے کہ میڈیا کے محاذ پر لڑی جانے والی جنگ ہرگز معمولی جنگ نہیں ہے، بلکہ اِس کی اہمیت تو روایتی جنگ جتنی ہی اہم ہوچکی ہے۔ یہ جنگ ذہنوں اور دلوں کو جیتنے اور دشمن کے عوام کو حقائق بتاکر متاثر کرنے کی جنگ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ دشمن ایک پاکستانی کو اپنے گھر بلا کر میڈیا کی مار مارتا ہے، پھر اسی کا ٹویٹر ٹرینڈ نکال کر ایک ارب آبادی کو تبصروں کے لئے بالکل ہی آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ اور پوری بھارتی قوم میڈیا کے پراپیگنڈے اور پاکستانی مہمانوں کے  کمزور جوابات سے متاثر ہوکر اسے سچ مان لیتی ہےاور پھر بھارت میں سوشل میڈیا پر جو زہر اگلا جاتا ہے۔

قصوروار کون؟

بھارت میں چلنے والی میڈیا وار پر پاکستان کی کمزور وکالت پاکستانی موقف کو تو نقصان پہنچا ہی رہی ہے لیکن عین اُسی وقت بھارت پاکستان سے برابر مقابلے کی  فضا کا تاثر دے کر اپنے دلائل کو سچ ثابت کرکے دنیا کے دل بھی جیت رہا ہے۔ اس صورتحال کے قصوروار براہ راست نااہل پاکستانی تجزیہ کار تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی حکومت اور پیمرا بھی برابر قصوروار ہیں جو ایسے میڈیائی پیادوں کو بھارت میں پٹتا دیکھ کر مسلسل منہ موڑے ہوئے ہیں۔ کیا بھارتی چینلز کی پاکستان میں بندش سے کام ختم ہوگیا؟ کیا سوشل میڈیا پر پھٹنے والے بھارت کا تعصباتی بم پاکستان کا نقصان نہیں کر رہا؟ پاکستانی شہری ٹویٹر پر تو بھارتیوں کو برابر جواب دے رہے ہیں لیکن بھارتی چینلز پر جواب دینے والے کہاں ہیں؟

کیا پاکستان کے ٹی وی چینلز پر کانگریس، بی جے پی کے ترجمان یا بیوروکریٹ اپنا موقف دینے کے لئے آتے ہیں؟ لیکن ہمارے یہاں لو پروفائل ہستیاں تجزیہ کار بننے کے شوق میں بھارتیوں کو بھاگے بھاگے بیپر دیتے ہیں۔ کیا میڈیا پر ملک کا کامیابی سے دفاع نہ کرکے پاکستان کی بدنامی کروانے والے تجزیہ کاروں  پر مکمل پابندی عائد نہیں کر دینی چاہیے؟ میڈیا کی جنگ میں طاقت کا توازن تو یہی ہے کہ اگر بھارتی تجزیہ کار پاکستانی چینلز پر نہیں آتے تو پاکستانی بھی اس کیچڑ میں خود کو گندا نہ کریں۔ اِس لیے حکومت پاکستان سے ہم بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام تجزیہ کاروں پر بھارتی پروگرامز میں شرکت کرنے سے پابندی لگا کر ملک کی عزت کا خیال کرے، کیونکہ یہ بھی ایک جنگ ہے جس کا میدان حکومت نے خود کھلا چھوڑرکھا ہے۔

کیا آپ بھی بھارتی نیوز پروگراموں میں پاکستانی تجزیہ کاروں کی شرکت پر پابندی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔
عاطف اشرف

عاطف اشرف

عاطف اشرف میڈیا سٹڈیز میںPhDاسکالرہیں جوپچھلے 10 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ مصنف ایکسپریس نیوز میں بطور پڑوڈیوسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔تحریر،تحقیق اور ویڈیوپروڈکشن میں گہری دلچسپی رکھنے والے یہ طالب علم میڈِیا کے موضوع پر جرمنی میں چھپنے والی ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ عاطف سے ٹویٹر پر#atifashraf7 جبکہ [email protected] پر آن لائن رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔