دنیا کے بڑے دریاؤں میں آلودگی بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے، رپورٹ

ویب ڈیسک  منگل 27 ستمبر 2016
ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکہ کے بعض دریا گزشتہ 20 برس میں شدید آلودہ ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ، فوٹو؛ فائل

ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکہ کے بعض دریا گزشتہ 20 برس میں شدید آلودہ ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ، فوٹو؛ فائل

لندن: ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے نصف سے زائد دریا آلودگی اور امراض پھیلانے والے جراثیم سے بھرگئے ہیں اور بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20 برس میں 3 براعظموں کے دریاؤں کے پانی کا معیار گرا ہے اور ان میں آلودگی اور بیماری پھیلانے والے جراثیم پھلے پھولے ہیں جو یہاں رہنے والے 30 کروڑ افراد کے لیے پانی سے پھیلنے والے امراض کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اسی دوران ایک اور مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے دنیا کے 10 فیصد جنگلات اور وہاں موجود حیات مستقل طور پر ختم ہوچکی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے تحت جاری اس تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان 3 براعظموں کے دریا ’’پریشان کن‘‘ حد تک آلودہ ہوچکے ہیں اور اس کے پانی سے اگنے والی خوراک اور خود وہاں موجود کروڑوں افراد کے لیے ایک خطرہ بن چکے ہیں، اس طرح ان علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوگی اور خواتین و بچے زیادہ متاثر ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق 3 براعظموں کے آدھے دریا ہر 7 کلومیٹرکے بعد کا آبی علاقہ نامیاتی آلودگی کا شکار ہے جو صنعتوں، کانوں اور انسانی آبادیوں سے دریا میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ پولی کلورینیٹڈ بائی فینائلس ( پی سی بی) سے بھی پاکستانی دریا شدید متاثر ہورہے ہیں۔

یواین ای پی کی چیف سائنٹسٹ کا کہنا ہےکہ پینے کے پانی کا معیار برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور ہم اسے آلودگی سے بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں جب کہ یہ اب بھی ممکن ہے کہ ہم ان دریاؤں کو دوبارہ بحال کرکے انہیں پھر سے تندرست کریں۔

دوسری جانب قائدِ اعظم یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی دریائے راوی اور چناب پر تحقیق کرکے بتایا ہے کہ ان دریاؤں کا پانی صنعتوں اور کھیتوں میں استعمال ہونے والی مصنوعی کھاد سے آلودہ ہوچکا ہے جسے پرسسٹنٹ آرگینک پلیوٹنٹس ( پی او پی) کہا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سالانہ 34 لاکھ افراد آلودہ پانی پینے سے ہلاک ہوجاتے ہیں، اس کی وجہ انسانی فضلہ ہے جو پینے کے پانی میں شامل ہوتا رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔