- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
یہ بھارتی دھمکیاں
میرے بھارت جیسے دیکھے بھالے ملک کی طرف سے دن رات جنگ کی دھمکیاں سن سن کر کان پک گئے ہیں اور اب تو جی چاہتا ہے کہ بھارت ہمارے خلاف یہ شوق پورا کر ہی لے تاکہ روز روز کی بھارتی بک بک ختم ہو اور بھارت اپنا جنگی شوق پورا کرکے اپنی مراد پوری کر لے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ بھارت کو جنگ کا اس قدر شوق کیوں ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود جنگ کا نام سن کر تڑپ اٹھتا ہے یعنی گھبرا جاتا ہے اور اس قدر کہ اس کی ایک مثال خود مجھ پر بیت چکی ہے، افسوس کہ میرا وہ بریف کیس میرا ایک نیا ملازم لے گیا۔
جس میں بھارتی گھبراہٹ کی مثالیں محفوظ تھیں اور بھارت جیسے بڑے ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کپکپی طاری ہو گئی تھی جس کا بھارتی اعتراف موجود تھا۔ میں یہ پہلے بھی بتا چکا ہوں اور ایک پرانی بات دہرانے کو جی نہیں چاہتا لیکن بھارت باز نہیں آتا اور یہ پرانی بات زبان پر لانی پڑ جاتی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک پاکستانی وفد کے ساتھ میں بھی بھارت گیا اور بطور ایک صحافی کے اس پر کچھ لکھا بھی۔ میں چونکہ اپنے ایک حکمران کے ساتھ تھا اس لیے میں نے ذرا تفصیل میں جانا مناسب سمجھا اور اس ضمن میں اپنے گاؤں کا بچپن یاد کیا ۔
جس کی سب سے بڑی عیاشی اپنے بنیے (کراڑ) کی ہٹی سے کچھ میٹھا خریدنا ہوتی تھی چنانچہ میں نے دلی میں اپنے کالم میں لکھا کہ میں اس بار شاپنگ کے لیے بھارت نہیں آیا کیونکہ یہ شاپنگ میں نے بچپن میں گاؤں میں جی بھر کر کر لی تھی جس کے لیے میری ماں مجھے گندم کے اتنے دانے دے دیتی تھی کہ میں وہ بیچ کر اپنی پسند کی کوئی چیز خرید لیتا تھا، اس طرح میں نے ہندو بنیا سے خریداری کا شوق بچپن میں ہی پورا کر لیا تھا۔ یہ ایک عام سی بات تھی لیکن یہ خود میرے لیے بھی حیران کن بن گئی جب میں نے دوسرے دن کے بھارتی اخباروں میں باقاعدہ ادارتی نوٹ میری اس گستاخی پر شایع کیے گئے ایسی پذیرائی تو بھارت میں کسی لیڈر کو بھی نہیں ملی ہو گی۔
میں شدید تعجب کے عالم میں گویا غرق تھا کہ اسی عالم میں ہمارے پاکستانی وفد کے ایک معزز رکن میرے پاس آئے اور صدر صاحب کی طرف سے مبارک باد دی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں نے شاید کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہے حالانکہ یہ ایک روٹین کا عام سا کالم تھا لیکن بھارتی حکمرانوں نے اسے عام سے نکال کر خاص بنا دیا اور ہم سب پاکستانیوں کو حیران کر دیا۔
ابھی یہ حیرانی طاری تھی کہ بھارت میں ایک سرکاری کارکن جو غیر سرکاری بن کر رہتے تھے میرے پاس آ گئے۔ جناب راجندر سیرین۔ راجندر نے کہا کہ ہمارے ایک بڑے افسر تمہارے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ایک صحافی کو ایسا موقع ملے تو کیا بات ہے چنانچہ میں اس بڑے افسر کے پاس حاضر ہوا جو پاکستان میں کئی اہم کام کرتے رہے تھے اور جناب خورشید قصوری کے آکسفورڈ میں ہم جماعت بھی تھے۔ انھوں نے اپنا بھارتی موڈ بدل کر کہا کہ میں اب اپنے آپ کو حکومت کا مہمان سمجھوں اور جہاں چاہوں وہاں کی سیر کروں، میں نے ظاہر ہے کہ شکریہ کے ساتھ معذرت کر دی۔ اگرچہ راجندر سیرین بھی حیران تھے کہ ایک معمولی سی بات پر اس قدر ہنگامہ کیوں برپا کیا گیا۔
میں اس دلچسپ واقعہ کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں اور اب جب بھارت کی طرف سے بار بار ہر روز جنگ کی دھمکیاں مل رہی ہیں تو مجھے بھارت کا رویہ یاد آ رہا ہے کہ یہ کتنا ہلکا ملک ہے کہ ایک عام سے کالم نویس کے کالم پر پورا بھارت لرزہ براندام ہو گیا اور شاید پہلی بار کسی تحریر پر ملک بھر میں اخبارات میں کالم لکھے گئے اور اسے ایک مسئلہ بنا لیا۔ مجھے ہمارے سرکاری وفد کے ایک صاحب نے خاص ملاقات کر کے بتایا کہ صدر صاحب اس صورت حال پر بہت محظوظ ہیں۔ یہ صدر جناب ضیاء الحق تھے جو ان دنوں دلی میں سرکاری دورے پر موجود تھے اور بھارتی رویے پر تعجب کر رہے تھے اور اسے انجوائے کر رہے تھے۔ میرا عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم پاکستانی بھارتی دھمکیوں کو خوش دلی کے ساتھ قبول کریں۔
میں پاکستان کی ایک مارشل ریس کا فرد ہوں جس میں سے انگریز فوجی بھرتی کیا کرتے تھے اور انھیں اپنی سامراجی جنگ میں جھونک دیتے تھے۔ میرے ایک بھائی بھی ناراض ہو کر فوج میں بھرتی ہو گئے لیکن ان کی ناراضگی جلد ہی ختم ہو گئی اور ان کی جگہ دو بھرتیاں دے کر ان کو فوج سے واپس بلایا۔
دیہات کے نوجوانوں کا فوج یا پولیس میں بھرتی ہونا بہت پسند کیا جاتا ہے لیکن یہ پسند زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی اور فوجی سختیاں دیکھ کر تو گھر یاد آتا ہے لیکن بعض اوقات گھر کی یاد سوہان روح بن جاتی ہے اور بڑی مشکل کے ساتھ گھر واپسی ہوتی ہے۔ ہمارے ایک فوجی جو کوئٹہ میں تبدیل کر دیے گئے تھے بتاتے تھے کہ وہاں اتنی سردی پڑتی ہے کہ گھر کی یاد میں جب آنکھ سے آنسو نکل آتا ہے تو وہ آنسو چہرے پر جم جاتا ہے اور بعض اوقات جلد صاف کرتے وقت نیچے سے خون بھی نکل آتا ہے۔
یہ تو جنگ سے پہلے کی بات ہے کہ جنگ کے دوران کیا کچھ پیش آتا ہے اس کا صرف تصور ہی کپکپی طاری کر دیتا ہے۔ ہم پاکستانی جنگ کے عادی ہیں اور انگریزوں نے بھی ہمیں جنگ کی ترتیب دی ہے ویسے بھی مسلمان جنگ و جدل پر خوش ہوتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں اور جب کبھی کسی کو ملک اور قوم کے لیے جنگ کا موقع ملتا ہے تو شہادت کے شوق میں بہت آگے نکل جاتا ہے۔ بہرحال جنگ مسلمانوں کے لیے کوئی ہولناک کام نہیں ہے جب کہ ہمارے بھارتی پڑوسی ایسے نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود نہ جانے کیوں وہ جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں جیسے دھمکیوں میں ہی ان کا کام نکل آئے گا، بہر کیف بھارتی ہوش سے کام لیں اور اپنے آپ اور ہمیں تنگ نہ کریں یہ امریکا وغیرہ تو ایسے مشغلوں سے بہت خوش ہوتے ہیں جن کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔