شجر کاری کے سرکاری پروگرام

سعد اللہ جان برق  منگل 27 ستمبر 2016
barq@email.com

[email protected]

اخبارات میں ایک مرتبہ پھر ’’شجر کاری‘‘ کی گونج اور گرین کے پی کے کا سلسلہ شروع ہوا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں ہے کہ شجر کاری کیا ہوتی ہے ،کیسے ہوتی ہے اور کیسی ہونی چاہیے، چنانچہ گزشتہ موسم بہار میں ’’ملین ٹریز‘‘ کا غبارہ ٹھس ہو گیا ۔کچھ سرکاری محکموں نے زیادہ تر پی ٹی آئی کے مشروٹوں نے اور کچھ مال ’’مفت دل بے رحم‘‘ والے عوام نے تقریباً تمام پودوں کو ضایع کر دیا، دراصل پاکستان میں منصوبہ بندی نام کی چیز تو سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے، بس ایک پارٹی کو کسی کام میں اپنا بھلا نظر آتا ہے تو اچانک بغیر کسی منصوبہ بندی اور پروگرام کے غلغلہ بلند ہو جاتا ہے، بیانات آتے ہیں اشتہارات شایع ہوتے ہیں اور پھر اعلان ہوتا ہے کہ ہو گیا

کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا

جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا

یہ ملین ٹریز، شجر کاری اور گرین کے پی کا طوفان بھی اچانک بغیر کسی سوچ سمجھ یا غور و فکر کے اٹھا اور چل سو چل ۔  دراصل یہ آئیڈیا نریندر مودی سے شروع ہوا ہے، اس نے ایک کانفرنس میں کہا کہ بھات ایک زرعی ملک ہے اور جب تک ہم ’’گاؤں‘‘ کو ترقی نہیں دیں گے ، ہمارا سب کچھ بے بنیاد اور ہوا میں معلق نظر آئے گا، اس نے کہا کہ ہماری زراعت تین بنیادوں پر استوار ہونی چاہیے، ایک تو بجائے خود زراعت، دوسرے افزائش حیوانات اور تیسری شجر کاری ۔ شجر کاری کے لیے اس نے وہ فالتو زمینیں استعمال کرنے کے لیے کہا جہاں فصلیں ممکن نہیں ہیں ۔

یہی بات ہے جسے ہمارے ہاں خاطر ہی میں نہیں لایا گیا، بس ایک غلغلہ بلند ہوتا ہے۔ پودے فراہم کیے جاتے ہیں جو محکماتی اور سیاسی ہاتھوں کے ذریعے اکثر غلط تقسیم ہو جاتے ہیں چنانچہ اکثر زرخیز ترین زرعی زمینوں کے کناروں پرکھیتوں کی پگڈنڈیوں  وغیرہ میں درخت لگا دیے جاتے بلکہ اکثر تو کچھ لوگ اس کے لیے پورا ایک کھیت مختص کر دیتے ہیں جس سے اس کھیت والے کو تو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن دوسروں کے کھیت تباہ اور بنجر ہو جاتے ہیں اور چونکہ زیادہ تر وہی درخت لگائے جاتے ہیں جو کم مدت میں جلدی بڑھوتری کرتے ہیں مگر یہ کسی نے نہیں سوچا کہ یہ بڑھوتری دراصل ایک طرح کی چوری ہوتی ہے، پاپولر اور یوکلپٹس کے درخت بہت دور سے پانی اور خوراک کھینچ کر اپنی بڑھوتری کے لیے استعمال کرتے ہیں چنانچہ ایسے ایک درخت کی جڑیں دور دور تک کی زمینوں سے خوراک چوری کرتے ہیں۔

جس میں صرف پانی ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سارے اجزا ہوتے ہیں ، نتیجے میں درختوں کے آس پاس چاروں اطراف کے کھیتوں میں خاطر خواہ فصل نہیں ہوتی بلکہ سایہ بھی اگر شامل کیا جائے تو یوں کہیے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا، بلکہ ایک اور خرابی جو بے تحاشا شجر کاری سے پیدا ہوتی ہے وہ تو اکثر خطرناک بلکہ خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک شخص اپنے کھیت کی مینڈھ یا وٹ کے ساتھ درخت سورج کی طرف لگا دیتا ہے، بظاہر تو یہ درخت اس کی ’’حد‘‘ میں ہوتے ہیں لیکن سایہ اور جڑوں کو کون روک سکتا ہے چنانچہ اس سے پڑوسی کا تقریباً آدھا کھیت بیکار ہو جاتا ہے جس سے کئی کئی مقامات پر خطرناک جھگڑے اور دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں، یہ ہم اپنے صوبے کی بات کر رہے ہیں ۔

جہاں زرعی زمین کچھ تو پہلے ہی سے کم تھی کیونکہ آدھی سے زیادہ زمین پر تو پہاڑ کھڑے ہیں ،کچھ آب پاش نہیں ہے اور جو آب پاش ہے اس میں بھی آدھی شور زدہ ہو گئی ہے، ایسے میں اگر موجود زرعی زمین پر درخت لگائے جائیں اور وہ چاروں اطراف میں زمین کو بنجر بنا دیں تو نتیجہ ظاہر ہے ، خود ہمارے وزیراعلیٰ کا اپنا ضلع جو ہمارا بھی ہے یہ الگ بات ہے کہ ان کے ووٹر ہوتے ہوئے وہ ہمارے وجود سے ناواقف ہیں لیکن بنیادی طور پر کسان ہونے کے ہمیں اپنے ضلع کی زرعی صورت حال کا خوب اچھی طرح پتہ ہے۔ جناب وزیراعلیٰ جس گاؤں میں رہتے ہیں وہاں بھی زمین و زراعت کا وجود نہیں ہے اور اکثر لوگ دوسرے پیشے اختیار کرتے ہیں، چنانچہ ان کے گاؤں سے اوپر کا سارا علاقہ پہاڑی اور پانی سے محروم ہے اور یہ ایک پہاڑی سلسلہ تقریباً 30 کلو میٹر کی چوڑائی اور ساٹھ ستر میل کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔

پھر زیادہ سے زیادہ جی ٹی روڈ کے کنارے پانچ چھ کلو میٹر چوڑی اور بیس پچیس کلو میٹر لمبی ایک چھوٹی سی زرعی پٹی ہے کیونکہ جی ٹی روڈ کے نتیجے دریا تک کا علاقہ سیم و تھور زدہ ہے، اب اگر اس چھوٹی سی پٹی میں بھی پاپولر اور یوکلپٹس کے درخت کھیتوں کے کناروں پر لگا دیے جائیں ، ان حالات میں کہ مردان اور چارسدہ کی طرح یہاں کسی کی زیادہ زمینیں نہیں ہیں ۔پراپرٹی اور کنسٹرکیشن کا طلسم اب ٹوٹ رہا ہے، نوشہرہ کی یہ مثال ہم نے ماڈل کے طور پر دی ہے کیوں کہ ہمارے وزیراعلیٰ اس سے اچھی طرح واقف ہیں ورنہ سارے صوبے کی یہی صورت حال ہے، درخت بے شک ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں، لکڑی انسانی زندگی کی بڑی ضرورتوں میں سے ہے اس لیے شجر کاری ہونی تو چاہیے اور زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن یہ جس انداز اور طریقے سے ہو رہی ہے اس کا فائدہ تو شاید اتنا نہ ہو لیکن نقصان بے پناہ ہو گا۔

اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ شجر کاری پر باقاعدہ ماہرین سے رائے لی جاتی جس میں کسانوں اور زمینداروں کی شمولیت زیادہ اہم ہے اور پھر ایک باقاعدہ پروگرام ترتیب دیا جاتا کہ شجر کاری کہاں کہاں اور کیسی کیسی ہونی چاہیے۔ یہ ایک نہایت ہی اہم کام ہے اور اسے یونہی غیر فعال محکموں اور نابلد و ناآشنا پارٹی عہدیدارں کے ذریعے انٹ شنٹ طریقے پر نہیں ہونا چاہیے، ایسے میں پودے ضایع ہوتے رہیں گے جس طرح گزشتہ موسم بہار میں ضایع ہو گئے کہ پارٹی عہدیداروں نے اندھے کی ریوڑیوں کی طرح تقسیم کیے، لوگوں نے انھیں غلط سلط جگہوں پر لگایا اور اب جہاں تک ہم نے دیکھا ہے بیس میں سے ایک پودہ بھی زندہ نہیں رہا ہے، تقسیم کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہم نے پارٹی عہدیداروں سے لے کر جنگلات والوں تک سب سے رجوع کیا کہ ہمیں دو سو پودے کیکر اور پھلاہی کے درکار ہیں، ہر جگہ سے یہی جواب ملتا کہ صرف دو سو ؟

کم از کم پانچ دس ہزار تو مانگو لیکن ملا ایک بھی نہیں اور ہمیں بازار سے لینا پڑے، اب چراٹ اور دوسرے پہاڑوں اور ان کی ترائیوں اور غیر آبپاش زمینوں میں لاکھوں کروڑوں پودوں کی گنجائش ہے، اسی طرح شور زدہ زمینوں میں بھی بے حساب شجر کاری کی ضرورت ہے لیکن اندھے کے ہاتھوں بٹیر کے مصداق پہاڑی اور بے آب علاقوں میں یوکلپٹس اور پاپولر پودے لگائے گئے اور شور زدہ زمینوں میں جہاں زمین کے نیچے پانی نقصان دہ حد تک زیادہ ہے وہاں کیکر اور پھلاہی وغیرہ کے پودے تقسیم ہوئے، اب بھی وقت ہے اگر شجر کاری کی مہم کو کامیاب بنانا ہے اور ضروری ہے کہ کامیاب بنایا جائے کیونکہ اتنا بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم لکڑی بھی باہر سے منگواتے ہیں حالانکہ ہمیں لکڑی برآمد کرنا چاہیے۔ جناب وزیراعلیٰ سے ہماری گزارش ہے کہ اگر شجر کاری واقعی کرنا ہے اور یہ صرف سیاسی نمائشی پروگرام نہیں ہے تو اس کے لیے باقاعدہ ماہر لوگوں کی خدمات حاصل کر کے کام کیا جائے اور ضروری نہیں کہ یہ ماہر سرکاری محکموں کے ہوں یا تحریک انصاف کے عہدیدار ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔