ٹھاکر صاحب زبان کو لگام دیں

سلیم خالق  منگل 27 ستمبر 2016
ایسا نہیں ہوگا کہ بھارت کے بغیرپاکستانی کرکٹ ختم ہو جائے: فوٹو: فائل

ایسا نہیں ہوگا کہ بھارت کے بغیرپاکستانی کرکٹ ختم ہو جائے: فوٹو: فائل

قارئین ذرا آپ ذہن پر زور دیں گذشتہ کئی برس کے دوران پاکستان اور بھارت کے کتنے میچز ہوئے؟ کتنی بار بھارتی ٹیم پاکستان آئی اور ہماری ٹیم وہاں گئی؟

رواں سال مزید کتنے میچز ہوںگے اور آئندہ کتنے ہونے کا امکان ہے؟ اس کا جواب انتہائی آسان ہے چلیں میں ہی بتا دیتا ہوں، گذشتہ سات برس میں دس باہمی ون ڈے انٹرنیشنل میچز ہوئے، ان میں سے بیشتر چیمپئنز ٹرافی، ورلڈ کپ اور ایشیا کپ کے تھے، ایک بار بھارت نے دل پر پتھررکھ کر مدعو کیا تو سارا منافع خود لے اڑا، دونوں ٹیموں کا آخری ٹیسٹ دسمبر 2009 میں ہوا تھا، 9 سال میں 8 ٹوئنٹی 20 انٹرنیشنل میچز ہوئے،مستقبل قریب میں کوئی امکان بھی نہیں ہے، یہ حقائق دیکھنے کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کھیل کے میدان میں بھی ایک دوسرے سے کتنے دور ہیں، پاکستان میں سیاسی شخصیات بورڈ حکام کا تقرر کرتی ہیں بھارت میں وہ خود میدان میں آ جاتی ہیں۔

اس لیے یہ کہنا کہ ’’کھیل کو سیاست سے دور رکھا جائے‘‘ بالکل بے تکا سا بیان ہے، اس کا ثبوت انوراگ ٹھاکرہیں وہ اب ترقی کر کے بھارتی بورڈکے صدر تک بن چکے مگر ہر سیاستدان کے جیسے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا بخوبی جانتے ہیں، یقیناً جب دھرم شالہ سے پاک بھارت ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میچ سیاسی وجوہات کی بنا پر منتقل ہوا تو انھوں نے بھی شور مچایا کہ ’’سیاست میں کھیل کو شامل نہیں کرنا چاہیے‘‘ اس وقت انھیں سیاسی باتیں یاد نہ آئیں کیونکہ ان کی ایسوسی ایشن میچ کی میزبانی سے حاصل شدہ بھاری منافع سے محروم ہو رہی تھی حالانکہ تب ایک واقعے کو پاکستان پر تھوپ کر بھارت نے جنگ جیسا ماحول بنایا ہوا تھا، اس وقت میچ کولکتہ منتقل ہوا اور اسٹیڈیم بھی کھچا کھچ بھرا رہا،اب جبکہ کسی مقابلے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اچانک انوراگ ٹھاکر کے اندر کا سیاستدان جاگ گیا اور وہ اپنی ہی کہی ہوئی باتیں بھول کر پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے لگے۔

انھوں نے واضح کر دیا کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور کئی الزامات بھی تھوپ دیے، سوال یہ ہے کہ جناب پہلے ہی کون سا آپ ہماری ٹیم کو بلا رہے یا یہاں آ رہے تھے، بھارت سے ہماری ٹیم نے 9 برس سے کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا ، ہمیں اس کا کیا نقصان ہوا؟ ٹیم تو بڑے بڑے حریفوں کو ہرا کر نمبر ون بن گئی، ہم مانتے ہیں کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں پیچھے ہیں مگر اس میں ہماری اپنی غلطیاں شامل ہیں جو ٹھیک کر کے جلد کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے، بھارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر کی کرکٹ اس کی مارکیٹ کے سبب چلتی ہے، مگر پاکستان کو تو اس سے (سوائے ٹی وی رائٹس) زیادہ فائدہ نہیں ہوتا، ہمارے ملک میں تو کئی برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی پھر بھی بورڈ کے پاس بڑا پیسہ ہے، انگلینڈ جیسے مہنگے ملک میں بیشترآفیشلز کئی ماہ کیلیے گئے اور کروڑوں روپے خرچ کر دیے کوئی غریب بورڈ ایسا نہیں کر سکتا، اگر بھارت آئندہ کئی سال مزید پاکستان کے ساتھ نہ کھیلے تب بھی پی سی بی دیوالیہ نہ ہو گا ۔

وہ آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو نہیں کھلاتا تو اب ہماری اپنی پی ایس ایل شروع ہو چکی ہے، ایسا نہیں ہو گا کہ بھارت کے بغیر پاکستانی کرکٹ ختم ہو جائے، البتہ اب پی سی بی کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، شہریارخان نے گذشتہ عرصے جس طرح بھارتی بورڈ کی سیریز کیلیے منتیں کی تھیں اس سے ہمیں بڑی جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا، وہ بیچارے بھی کیا کرتے انھیں حکومت نے دوستی بڑھانے کیلیے یہ ٹاسک دیا تھا، وہ سمجھے پہلے کی طرح اب بھی اپنی سفارت کاری کا تجربہ بروئے کار لا کر سیریز کرا دوں گا مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، الٹا وہاں بلا کر بھارت نے بے عزتی بھی کی، بیچارے چیئرمین یہ نہ سمجھ پائے کہ اب زمانہ بدل گیا، پہلے میڈیا محدود تھا اب بے تحاشہ چینلز آ گئے اور یہ سوشل میڈیا کا بھی دور ہے ، جنگ میڈیا پر بھی لڑی جا رہی ہے، پہلے بھارت میں ایک پاکستان مخالف فلم بنتی تھی تو ہم شور مچاتے تھے اب تو ہر وقت ان کے چینلز زہر اگلتے رہتے ہیں۔

اس سے عوامی سطح پر ایک دوسرے کیخلاف نفرت بھی بڑھ چکی ہے،سوشل میڈیا پر دیکھیں تو اس کا بخوبی احساس ہو جائے گا، ایسے میں منافقت بھی ترک کر دینا چاہیے، فائدے کے وقت دشمنی کیوں بھول جاتے ہیں، آئی سی سی ویسے پاک بھارت کرکٹ تعلقات کو آپس کا معاملہ کہہ کر دخل نہیں دیتی مگر جب اس کے ایونٹ میں دونوں کا مقابلہ ہو تو انعقاد کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے، اب اگر بھارت چاہتا ہے کہ کھیل اور سیاست ایک ساتھ رہیں، عوام مزید دشمن بنیں تو ٹھیک ہے سال میں جو ایک، دو میچز کھیلتے ہیں وہ بھی نہ کھیلیں، دیکھتے ہیں تب ایونٹ میں لوگ کتنی دلچسپی لیتے ہیں، آپ ذرا سوچیں ہر بار آئی سی سی ایونٹ میں پاک بھارت میچ کیوں ہوتا ہے، اس کی وجہ یقیناً بھاری منافع ہے، براڈ کاسٹ ڈیل کی مالیت بھی اس سے بڑھ جاتی ہے، میں نے انگلینڈ تک میں پاک بھارت میچز کے ٹکٹ گوروں کو بلیک کرتے دیکھا، اب آئندہ سال چیمپئنز ٹرافی ہونا ہے۔

اس میں بھی روایتی حریفوں کا میچ ہوگا ، اگر ہمت ہے تو وہ نہ کرائیں اور پھر دونوں ٹیمیں فائنل میں پہنچ جائیں تو ٹاس سے فاتح کا فیصلہ کریں، پھر دیکھتے ہیں آئی سی سی اور بھارت کو کتنا منافع ہوتا ہے۔ بھارت کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اداکاروں کو نکالنے اور کھیل کے روابط نہ رکھنے سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوں گے، نفرت کا جو بیج بویا تھا وہ اب پودا تو بن چکا، اسے درخت نہ بننے دیں ، دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کے بجائے کرکٹ میچ ہوں تو لوگ بغیر نقصان اس سے لطف اندوز ہوں گے،اسی طرح ٹھاکر صاحب آپ بھی اپنی زبان کو لگام دیں، بغیر ثبوت الزام لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، صرف مالی مفاد کے وقت دوستی کا پرچار کرنے کے بجائے ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کریں جس سے دونوں ممالک میں اختلافات کی بنیادی وجہ ختم کرنے میں مدد ملے،نفرت کا پرچار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔