مدرسوں کی اصلاحات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 28 ستمبر 2016
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عید الاضحی کے دن شکار پور میں ایک مسجد پر اُس وقت خود کش حملہ آوروں نے لڑائی کی جب وہاں عید کی نماز اد ا کی جارہی تھی ۔ پولیس کے جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس حملے کو ناکام بنا دیا ، پہلی دفعہ ایک خود کش حملہ آور نوجوان گرفتار ہوا ،اس نوجوان نے تفتش کے دوران بتایا کہ کراچی کے مدرسے سے تعلیم حاصل کی ،خود کش حملہ آور خضدار سے شکار پور آئے، مدرسوں میں انتہا پسندی اور اصلاحات کا معاملہ  پھر سنجیدگی اختیار کرگیا۔

آپریشن ضرب عضب کے آغاز پر ایپکس کمیٹی نے جو فیصلے کیے تھے اُن میں ایک فیصلہ مدرسوں کی نگرانی اور ان کی اصلاحات کا ہے۔ سندھ حکومت کی ذمے داری تھی کہ مدرسوں کا سروے کیا جائے۔ زمینی سروے کے علاوہ جیو فینسنگ جب مدرسوں کے نتائج سامنے آئے کہ بہت سے مدرسے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ غیر رجسٹرڈ مدرسوں کا معاملہ حل کرنا بھی ضروری ہے، دہشت گردی کے تدارک کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مدرسوں کو ملنے والی امداد پر بھی تشویش ہے۔ سندھ میں علماء مدرسوں میں اصلاحات کے لیے تیار ہیں۔

برصغیر میں مدارس نے مذہبی تعلیم کے ساتھ علم پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے تاریخ دانوں کا یہ کہنا ہے کہ عربوں نے مدارس کی تعلیم کے ذریعے عروج حاصل کیا۔ عربوں کے دور میں مدارس میں اسلامی مضامین کے علاوہ منطق ، فلسفہ اور بنیادی سائنس کے مضامیں بھی شامل تھے، ان مدرسوں سے بہت سے نامور سائنس دان پیدا ہوئے، جب مسلمان ہندوستان آئے تو یہاں مدارس قائم ہوئے ان مدارس میں اسلامی مضامین کے علاوہ فلسفہ اور دیگر علوم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ ممتاز مورخ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ مغلوں کے دور میں مدارس سے سائنس اور فلسفے کے مضامین ختم ہو گئے مدرسے اب صرف  اپنے مکتب فکر سے متعلق مضامین کی تدریس تک محدود ہو گئے۔

ہندوستانی سماج کی رسومات کے تحت خواتین پر تعلیم کے دروازے بند ہوئے ۔ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے مغلوں کی عظیم سلطنت میں خواتین کے کسی مدرسے کا پتہ نہیں چلتا جو چند خواتین اس دور میں اپنی انتظامی صلاحیتوں ادب و شاعری کی بنا پر مشہور ہوئیں ان کی تعلیم و تربیت ان کے بزرگوں کی دین تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے استاد اور درس نظامی کے مصنف ملا نظام سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ نے مجھے مذہبی علوم تو سکھا دیے مگر سائنس ،بین الاقوامی تعلقات کا علم مجھے نہیں دیا۔

انگریزوں کے دور میں دیوبند مکتبہ فکر کے سب سے بڑے مدرسے کی بنیاد پڑی ۔ اس مدرسے سے مولانا محمود احمد مدنی جیسے عالم اور سر سید احمد خان جیسے ریفارمر پیدا ہوئے۔ اس طرح بریلوی اور شیعہ مکتبہ فکر کے مدرسوں نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان بننے کے بعد مدرسوں کی تعداد بڑھی مگر اُن کا کردار محدود رہا۔

فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کے منصوبے پر عمل کیا تو امریکی سی آئی اے نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے مذہب کا سہارا لیا ، اس پالیسی کے تحت بعض مدارس کی سرپرستی کی گئی۔  سعودی عرب، عراق اور لیبیا  نے اس نیک مقصد کے لیے مالیاتی امداد فراہم کی۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کے اندرونی علاقوں میں متعدد مدرسے قائم ہوئے۔

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا ہے کہ ستر کی دہائی تک مکران کے علاقے میں کوئی مدرسہ نہیں تھا پھر مدرسوں کا جال بچھ گیا اور اس علاقے میں پہلی دفعہ مذہبی کشیدگی پیدا ہوئی۔ گلگت بلتستان تک فرقہ وارانہ کشیدگی عام ہوئی، پیپلزپارٹی کی تیسری حکومت کے وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیراللہ بابر نے طالبان کی فوج تیار کی۔ طالبان نے کابل پر دھاوا بول دیا ور طالبان کی حکومت قائم ہوئی ۔ملا عمرخلیفہ بن گئے اور طالبان کا دور شروع ہوا۔

ملا عمر نے  سعودی منحرف اسامہ بن لادن کی اطاعت کرلی۔ دہشتگردی کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے محقق ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ سی آئی اے نے 80کی دہائی میں چین ،وسطیٰ ایشیائی ممالک اور سوویت یونین میں انتہا پسندی پھیلائی۔ مدارس کے بارے میں جب آزادانہ تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ ہر مکتبہ فکر کا نصاب علیحدہ علیحدہ ہے جو طالب علم ایک فرقے کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہ دوسرے مکتبہ فکر کے مدرسے میں اس طرح تبادلہ نہیں کروا سکتا جس طرح جدید تعلیمی اداروں کے طالب علم کراتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ نصاب میں جدید مضامین شامل ہونے چاہییں ۔ اردو یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ کے ڈین ڈاکٹر غفور بلوچ کا موقف ہے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی آچکی ہے، اب  نصاب میں انگریزی اور کمپیوٹر کے مضامین شامل ہیں مگر سائنس اور جدید علوم اب بھی نصاب میں شامل نہیں۔  اب نصاب میں مختلف مذاہب کے تقابلی جائزے کا مضمون شامل ہے۔  اُن کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے مدارس میں جدید علوم شامل کردیے گئے ہیں۔ ایسا ہی پاکستان میں بھی ہونا چاہیے ۔

مدرسوں کی اصلاحات کے حوالے سے مالیاتی امداد کا معاملہ زیاد اہم ہے ۔خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق بعض غیر ملکی حکومتیں اپنے پسندیدہ مدرسوں کو امداد دیتی ہیں پھر سعودی عرب خلیجی ممالک یورپ اور امریکا میں مقیم پاکستانی اور عرب شیوخ بھی مدرسوں کو امداد فراہم کرتے ہیں ، پھر زکوۃ فطرے کے علاوہ صدقات اور قربانی کی کھالوں سے ہونے والی آمدنی علیحدہ ہوتی ہے عمومی طور پر مدارس میں جدید آڈٹ کے اصولوں کے تحت مالیاتی دستاویزات مرتب نہیں کی جاتیں ۔

ماضی میں سب کچھ زبانی چلتا تھا اب کچھ مدارس نے رجسٹر مرتب کیے مدارس کی اصلاحات کی مخالفت کرنے والے حکومت کو مدارس کے اکاونٹس کے آڈٹ کا اختیار نہیں دینا چاہتے ۔ مذہبی اسکالر ڈاکٹر ابو بکر بلوچ اس صورتحال کو مذہب اور دولت کا ملاپ قرار دیتے ہیں، اس ملاپ کی بناء پر مدرسوں کو چلانے والوں کی زندگیاں تبدیل ہو گئیں ۔ ڈاکٹر ابو بکر کا کہنا کہ اس ملاپ کی بنا پر ہی غیر شفاف صورتحال پیدا ہوئی۔

دہشت گردی کا تدارک کرنے والے افسران اس خدشے کا اظہارکرتے ہیں کہ غیرملکی امداد انتہا پسندانہ لٹریچراور خودکش حملہ آور پیدا کرنے اور اسلحہ خریدنے پر استعمال ہوتی ہیں ۔اس مسئلے کا حل مدرسوں میں جدید مالیاتی نظام کا نفاذ ہے تاکہ ہر سال مدرسو ں کا آزادانہ آڈٹ ہوسکے اور عوام کو آڈٹ کی تفصیلات معلوم ہوسکیں، علمائے کرام اپنے نظام کو شفاف بنا کر اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں، یوں ان کی امداد میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ مدرسوں کے بڑھتے ہوئے کردار کی بناء پر ان میں اصلا حات وقت کی ضرورت بن گئی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔