یہ بڑے صحافی

عبدالقادر حسن  جمعرات 29 ستمبر 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جس زمانے سے ہم آپ گزر رہے ہیں وہ حیرت انگیز حد تک کاروباری ہے اس قدر کہ خود انسان کا وجود بھی کاروبار کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ آزادانہ بسر کیا اور اسی آزادی میں اپنے عزیزوں سے بھی الگ رہا۔

یہاں تک کہ اپنی اولاد سے بھی دور رہا وہ اپنی زندگی بسر کرتے رہے اور میں اپنی۔ ان کا میری زندگی یعنی صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور میرا ان کی ملازمانہ زندگی سے جب ایک بار ان کی ملازمت کے حصول میں ان کی مدد کی تو یہ کہہ دیا کہ نوکری مجھے پسند نہیں ہے لیکن اب جب آپ لوگ اپنی پسند کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ایک عرض ہے یا مشورہ کہ اب آپ نے یہ نوکری اپنی ہمت اور سمجھ بوجھ سے کرنی ہے اس میں میرا یا کسی کا کوئی سفارشی تعلق نہیں ہو گا، کہیں سے کوئی مدد امداد نہیں ملے گی۔

مختصر سی فیملی نے اپنی ملازمت میں مجھے کبھی تکلیف نہیں دی اگر کبھی دی بھی تو شرمندگی اٹھانی پڑی۔ ایک کے سسر نے کسی زعم میں میری ترقی کے لیے متعلقہ افسر سے میری سفارش کی، اس نے مڑ کر دیکھا اور اتنا کہا کہ آپ جس کی سفارش کر رہے ہیں وہ تو میرا بھتیجا ہے بات ختم۔ میری بیٹی نے قدرتی طور پر تعلیم و تدریس کا شعبہ پسند کیا اور اس میں وہ درجہ بدرجہ زیادہ ہی ترقی کر گئی۔ جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بچے اس سے بھی زیادہ لائق نکلے اور انھوں نے اپنی اہلیت سے سب کو پریشان کر دیا۔

غرض اس طرح میں اپنی اولاد کی طرف سے مطمئن رہا۔ اگرچہ میں اپنی طرف سے اپنے بارے میں کبھی مطمئن نہیں رہا لیکن اس کی وجہ شاید میری ملازمت سے ناپسندیدگی ہے۔ میں نوکر پیشہ نہیں ہوں ایک آزاد صحافی ہوں اس لیے میں اپنی ملازمت میں کبھی کامیاب نہیں رہا۔ میں یہ بات اپنی نئی نسل سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کریں، سفارش کی ہر گز توقع نہ کریں مثلاً آپ جن سے سفارش کرانا چاہتے ہیں وہ کیا پیدائشی افسر تھے، بالکل نہیں سب نے اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔

آپ بھی اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کر سکتے ہیں لیکن ذاتی طور پر عرض کرتا ہوں کہ ملازمت کی طرف نہ جائیں اور اپنا آزاد پیشہ اختیار کریں۔ ملازمت کے معنی ہیں کسی کے حکم پر زندگی بسر کرنا جو ایک انسانی شرف کے مطابق نہیں ہے۔ مجھ سے جب میرے ایک جہاندیدہ استاد نے پوچھا کہ تم کیا بننا چاہتے ہو تو میں نے انھیں پسند کی نوکری کا شعبہ بتا دیا۔ یہ سن کر وہ تھوڑی دیر کے لیے چپ سے ہو گئے اور پھر کہنے لگے اگر تم نے اپنے جیسے انسانوں کی غلامی اور نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو تمہاری مرضی۔ میں تمہارے اندر جو صلاحیت دیکھ رہا ہوں وہ پڑھنے لکھنے کی ہے۔

تمہاری زبان میں جو لکنت ہے وہ قدرت نے کسی دوسری خوبی کے عوض عطا کی ہے یعنی اس نے تمہیں لکنت کی جگہ بولنے سے زیادہ لکھنے لکھانے کا کام دیا ہے تم اس میں زیادہ کامیاب رہو گے جو تمہاری زبان کی لکنت کا بدل ہو گا۔ آگے تمہاری مرضی اور تمہاری ہمت۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ نوکری کرتے ہو یا کوئی آزادانہ کام۔ مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ تم کاشتکاری کرو کچھ نے کہا کہ تمہیں پڑھنے لکھنے کا شوق ہے اس لیے پڑھائی لکھائی کی طرف توجہ کرو بہرحال قسمت میں یہ پڑھائی لکھائی تھی اور وہ بھی لکھائی زیادہ چنانچہ میں ایک رائٹر بن گیا اور اس میں میرے مولوی استاد نے زیادہ مدد کی جو کئی مشرقی زبانوں کے ماہر تھے، اس طرح میں آج ایک مشرقی قسم کا رائٹر ہوں اور بڑے اطمینان کے ساتھ وقت بسر کر رہا ہوں۔

یہ صحافت بھی اپنے استادوں کا مشورہ تھا جو میرے استادوں کے مطابق کامیاب رہا اور میں ایک صحافی بن گیا، اگرچہ صحافی بھی ایک درمیانے درجے کا لیکن کوشش میں ہوں کہ اس میں کچھ ترقی کر جاؤں، صحافت کے شعبے میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش جاری ہے اور افسوس یہ ہے کہ اس کوشش میں بعض ناپسندیدہ عناصر بھی داخل ہو گئے ہیں جب کہ صحافت ایک ’پیغمبرانہ‘ پیشہ تھا جو انسانوں کی اصلاح کے لیے نہایت موثر ذریعہ تھا۔

اب بھی صحافت انسانی اخلاق کی اصلاح اور اس کی آراستگی کے لیے ایک نہایت ہی موزوں ذریعہ ہے بشرطیکہ اس شعبے کو اچھے لوگ مل جائیں جو اسے انسانی زندگی کو خوبصورت بنانے پر مصر ہوں اور اس میں ان کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ یہ پیشہ ہی اسی کام کے لیے ہے۔ بہرحال صحافت کے شعبے میں جن لوگوں نے خلوص کے ساتھ محنت کی، اسے بامقصد بنانے کی کوشش کی وہ اس شعبے کی نامور شخصیات ہیں۔

میں نے ایسے صحافی دیکھے ہیں جو فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے اور بے لوث تھے۔ انھوں نے اپنی محنت کے ساتھ زندگی بسر کی اور کسی لالچ کے بغیر وقت بسر کرلیا۔ ان کے پاس ان کی نیک نامی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ میں نے بڑے بڑے صحافی دیکھے جو ہر روز پیدل دفتر جاتے اور کسی وقت اندھیروں میں پیدل گھر جاتے اور رات کا کھانا گرم کراتے اور یہ حلال کی روٹی بڑے شوق سے کھاتے۔ ایک سیاستدان نے ایک صحافی کو کچھ رقم بھجوائی جو اس نے معذرت کے ساتھ لوٹا دی، بعد میں انھوں نے ایک بوری آٹے کی بھجوائی جو اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کر لی کہ آپ کی چونکہ آٹے کی مل بھی ہے اس لیے شکریہ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔