جہاں غریبوں کو جانا ہے

سعد اللہ جان برق  جمعرات 29 ستمبر 2016
barq@email.com

[email protected]

ویسے تو دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک ’’تپسوی‘‘ پڑا ہوا ہے لیکن اپنے پاکستان میں کچھ اور ہو نہ ہو مگر ’’تپسوی‘‘ ضرور ہوتا ہے۔

یہ ’’تپسوی‘‘ کا لفظ ہم نے ہندو دھرم یا ہندی زبان سے نہیں لیا ہے وہاں تو تپ یا تپسیا عبادت کو کہتے ہیں اور عابد و زاہد تپسوی کہلاتا ہے لیکن ہمارے ایجاد کردہ اس لفظ کا تعلق پشتو لفظ ’’تپوس‘‘ سے ہے جو اصل میں عربی لفظ ’’تفحص‘‘ سے نکلا ہے یعنی پوچھنا، سوال کرنا یا کوئسچن مارک لگانا۔ پھر’’تپسویوں‘‘ میں ایک تو وہ تپسوی ہوتے ہیں جو واقعی آپ سے کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں جیسے پتہ پوچھنا، وقت پوچھنا یا حال چال پوچھنا، لیکن ہم جن تپسویوں کے بارے میں بتانا بلکہ رونا چاہتے ہیں وہ وہی سوال پوچھیں گے جن کا جواب ان کو معلوم ہوتا ہے جیسے آپ کھانا کھا رہے ہیں، پانی پی رہے ہیں یا کچھ لکھ پڑھ رہے ہیں تو تپسوی آپ کو پتھر مارے گا کیا کر رہے ہو … اور پھر آپ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی چالو ہو جاتا ہے جو کچھ آپ کر رہے ہو اس پر بھی روشنی ڈالے گا اور پھر اسی تھیلی سے سوال پر سوال نکالے گا، خود ہی جواب دے گا اور لمبے لمبے تبصرے کرے گا۔

اس کی مثال شعلے فلم کی بسنتی تھی جس نے سواریوں کے کانوں کو سانس تک نہیں لینے دیا اور اپنے کارنامے، حال چال، خیالات، تانگہ گھوڑی سب کے بارے میں بتا دیا، آخر میں اسے خیال آیا تو پوچھو … ’’تمہاری باتوں‘‘ میں سفر کا پتہ ہی نہیں چلا اور تم نے تو میرا نام پوچھا ہی نہیں تب جے نے اس کی شکایت دور کرتے ہوئے پوچھا … تیرا نام کیا ہے بسنتی

انھیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑیئے
مجھے جواب سے قطع نظر ہے کیا کیجیے

عام زندگی میں ایسے ’’بسنتی اور تپسوی‘‘ لوگ تو خیر پھر بھی کسی نہ کسی حد تک قابل برداشت ہوتے ہیں یا کم از کم آپ انھیں ڈانٹ تو سکتے ہیں لیکن جب ایسے ’’بسنتی تپسوی‘‘ لیکھکھ بن کر اخباروں، رسالوں، کالموں اور مضامین وغیرہ میں یہ پوچھنے کا رائتہ پھیلا رہے ہوں تو بالکل بھی اچھے نہیں لگتے ویسے تو عام طور پر ایسے تپسوی بسنتی لوگ چند رسوائے عالم اور بدنام زمانہ قسم کے سوال کرتے رہتے ہیں کہ … ہم کہاں کھڑے ہیں کہاں بیٹھے ہیں لیٹے ہیں یا جارہے ہیں آرہے ہیں اور پھر اس ’’سوال‘‘ کے سائے میں بے چارے معصوم پڑھنے والوں کو فلسفے کے کوڑے لگاتے ہیں۔

کبھی کبھی ان میں کوئی نیا سوال بھی آجاتا ہے جو اصل میں دنیا کا پرانا ترین سوال ہوتا ہے مثلاً ابھی ابھی ہم نے ایک مضمون پڑھا، آپ سے کیا پردہ، پڑھا کس نے… اتنا لوہے کا جگر اور پتھر کا کلیجہ کس کا ہو گا، صرف عنوان پڑھ کر سونگھا ہے، عنوان ہے ’’مہنگی دوائیں ، غریب مریض کہاں جائیں‘‘ ۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اس میں پوچھنے جیسی بات کہاں سے آگئی، جتنا سیدھا سیدھا سوال ہے اتنا ہی سیدھا اس کا جواب ہے، آخر جب دوائیں مہنگی ہوں۔

حکومت اخبارات میں صحت کارڈ کی ثنا خوانی میں مصروف ہو، اسپتال قبضہ گروپ کے ہاتھ میں ہوں، فیس زندگی سے زیادہ قیمتی ہوں … تو غریب مریض کہاں جائیں گے ۔ بتائیں ایک بچے تک کو پتہ ہوتا ہے کہ اسی واسطے تو ہر شہر میں ایسے مریضوں کی پوری پوری کالونیاں بسی ہوئی ہیں جہاں داخلہ مفت اور نکلنا ناممکن ہوتا ہے جی ہاں قبرستان یا مقبرہ ۔ اس غرض کے لیے بہت پرانے زمانے سے ایک رہنماء پشتو ٹپہ کہا گیا ہے کہ

دا زمانہ د غریب نہ دہ
کڈے دے نغاڑی د اللہ ملک تہ دے زینہ

یعنی یہ دنیا یہ زمانہ غریب آدمی کا نہیں ہے فوراً اپنا سامان باندھ اور خدا کی مملکت کا ٹکٹ کٹا۔ یہ تپسوی پن ایسا مرض ہے کہ علامہ اقبال جو فلاسفی کے ڈاکٹر تھے، علامہ تھے، حکیم الامت تھے اور ایک دنیا ان کو دانائے راز سمجھتی ہے لیکن وہ بھی

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

’’کہاں جائیں‘‘ کا مسئلہ تو بعد میں دیکھیں گے یہ لوگ آئے کہاں سے ہیں اور کیوں؟ کسی نے ان کو دعوت کر کے بلایا تھا ان کے بغیر دنیا کا کاروبار نہیں چل رہا تھا؟ یعنی غالب خستہ کے بغیر آخر کون سا کام بند تھا اس وقت تو ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے کہ اس کے گھر چاند سا بیٹا جتنی جلدی تشریف لائے اچھا ہے اور پھر بعد میں غریب بے چارے کس مپرسی خدا مارے ہو جاتے ہیں، ایک لطیفہ دم ہلا رہا ہے ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا یار میں حیران ہوں کہ یہ ’’چوزہ‘‘ اتنے سخت انڈے سے نکل کیسے آتا ہے۔

دوسرے نے کہا نکلنا چھوڑ مجھے تو یہ حیرت ہے کہ یہ انڈے میں گھس کیسے جاتا ہے؟ تو ہم بھی ’’کہاں جائیں‘‘ کی فکر نہیں کر رہے ہیں کیوں کہ وہ تو طے ہے اور یہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کو کہاں جانا ہے، لیکن ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جناب عالی! آپ آئے کہاں سے ہیں اور کیوں؟ جب کھانے کے بھی واندے ہیں پہننے کے بھی اور رہنے کے بھی اور اب پھر مہنگی دواؤں کا رونا رو رہے ہیں تو کیا ضروری تھا کہ منہ اٹھائے چلے آئے۔

وہ ایک انڈین فلم جولی ایل ایل بی میں ایک نوجوان امیر زادہ فٹ پاتھ پر آٹھ دس لوگوں کو کچلتا ہے تو مقدمے کے دوران ملزم کا وکیل کہتا ہے کہ فٹ پاتھ سونے کے لیے نہیں ہوتے۔ تب جولی ایل ایل بی بتاتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں کہاں سے آتے ہیں جو ہمارے شہروں کو گندا کرتے ہیں۔ اور یہ واقعی بہت بڑا سوال ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے شہروں سڑکوں اور یہاں وہاں ’’غریب‘‘ تخلص اختیار کر کے پھرتے رہتے ہیں بلکہ اور تو اور اب اسپتالوں تک بھی آپہنچے ہیں اور خواہ مخواہ اپنی غریب سے صحت سہولت کارڈ وغیرہ کو ڈسٹرب کرتے رہتے ہیں اور ان کو آخر ضرورت کیا ہے خواہ مخواہ اسپتالوں، ڈاکٹروں، کلینکوں، صحت کارڈ، سہولت کارڈ یہ کارڈ وہ کارڈ ڈسٹرب کرنے کی۔

اگر ان کا علاج ہو بھی جائے، چلیے فرض کیے لیتے ہیں کہ ملک میں عمران خان جیسے ٹاپ مخیر لوگ بھی ہیں جو ان کو از راہ کرم اور سخاوت کے صحت کارڈ دے دیتے ہیں اخبار میں ہم نے تصویر میں ایسا ہی دیکھا تھا کہ جناب عمران خان اپنے سارے ’’ضروری‘‘ کام چھوڑ کر یہاں تشریف لائے تھے صرف اس لیے کہ ان خدا ماروں کو صحت سہولت کارڈ اپنے دست مبارک سے عطا فرمائے چلو صحت سہولت کارڈ بھی مل گیا ۔ فرض کیجیے امکان تو نہیں لیکن یہ بھی فرض کر لیں کہ ان کا علاج بھی ہو گیا … تو ؟

اس کے بعد یہ کہاں جائیں گے… جنت نشین تو نہیں ہوں گے، مزدوری کریں گے، غربت کا بجوگ سہیں گے… اور گلی گلی قریہ قریہ خوار ہوتے پھریں گے تو کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ مہنگی دواؤں، ناقابل رسائی ڈاکٹروں، آؤٹ آف باؤنڈ اسپتالوں اور صحت کارڈ وغیرہ سے بے نیاز ہو کر آرام سے ’’جنت مکانی‘‘ ہو جائیں اور اس زمین کو مصرف میں لائیں جو ان کے نام پر مخصوص ہو چکی ہے جب وہاں آنا ہی آنا ہے تو پھر بروقت ہی کیوں نہ اپنی منزل تک پہنچ جائیں، خواہ مخواہ ادھر ادھر بھٹکنے اور معاشرے کو ڈسٹرب کیے بغیر سیدھے سیدھے چلے کیوں نہیں آتے

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو؟
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں

سچ تو یہ ہے کہ یہ ان چاہے بے بلائے ناپسندیدہ لوگ ہی سارے فسادوں کی جڑ ہیں اگر یہ کم بخت سیاہ بخت نہ ہوتے تو سرکاری حکام کو اتنی پریشانیاں نہیں ہوتیں ۔ وہ لکڑیوں کے گٹھے کا قصہ تو سنا ہی ہو گا آپ نے کہ ایک شخص کے لیے وہ لکڑیوں کا گٹھا تھا لیکن بہت سارے لوگوں نے ایک ایک لکڑی لی تو … اس ایک لکڑی سے ان کا کیا بنا؟ اگر یہ نہ ہوتے تو ایک شخص کا تو بھلا ہو جاتا اب ان پر جو بے پناہ رقومات ضایع ہوتی ہیں اور رائیگاں چلی جاتی ہیں کیوں کہ ان کو جانا تو وہیں پر ہے جو ان کے لیے مخصوص ہے تو اگر سیدھے چلے جائیں تو کم از کم ان فنڈز سے کسی کا تو بھلا ہو جاتا، لیکن نہیں انھوں نے تو جیسے قسم کھائی ہے کہ جائیں گے تو جائیں گے لیکن خواہ مخواہ دوسروں کو بے آرام کر کے ہی جائیں گے۔

بہرحال باقی تو سب کچھ اپنی جگہ صحت کارڈ بھی اپنی جگہ صحت سہولت پروگرام بھی اپنی جگہ … پارٹی ’’کارکنوں‘‘ کو خدا رکھے وہ سب کچھ ’’سنبھال‘‘ لیں گے۔ لیکن جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ غریب لوگ کہاں جائیں تو اس میں چنتا کرنے کی کوئی بات نہیں ہے وہ جگہ بھی معلوم ہے جہاں ان کو جانا ہے اور وہاں جانے کے لیے ہر قسم کی سہولت اور رہنمائی بھی مفت میسر ہے بلکہ سواری کا مفت انتظام بھی ہے اس لیے یہاں وہاں خوار ہونے سے بہتر ہے کہ آدمی بروقت اپنی منزل پر پہنچ جائے، تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔