کمزور طبقات 

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 29 ستمبر 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے وزیراعظم نے اپنے  پیغام میں فرمایا ہے کہ ’’آج کے دن کمزور طبقات کو فراموش نہ کریں‘‘ چونکہ حکمرانوں کا خصوصی دنوں پر جاری کیا جانے والا پیغام عموماً عوام کے نام ہوتا ہے۔ اس لیے ہم وزیراعظم کے مخاطب عوام ہی کو سمجھ سکتے ہیں لیکن کمزور طبقات کا ذکر آئے تو منطقی طور پر طاقتور طبقات ہی ذہن میں آتے ہیں کیونکہ کمزور طبقات کی مدد گار عوام یعنی کمزور طبقات کی تعداد 80 فی صد سے زیادہ ہے۔ اس 80 فی صد میں 53 فی صد وہ ہیں جو غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

ہمارے یقینا وزیراعظم جانتے ہوںگے کہ غربت کی لکیر کہاں سے شروع ہوتی ہے اورکہاں ختم ہوتی ہے۔عید قربان ہو یا عیدالفطر ملک کے 80 فی صد غریب طبقات کے لیے ان مواقع پر احساس محرومی شدید ہو جاتا ہے۔ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے 53 فی صد عوام بے چارے تو عید کے مفہوم ہی سے ناواقف ہوتے ہیں کیوں کہ عید کے لوازمات ان کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم عوام کا بہت خیال کرتے ہیں اور ان کے دل میں عوام کا بہت درد ہے دنیا بھر میں وزیراعظموں جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز عمائدین کو خصوصی دنوں پر بعض زیرک افراد تقریر لکھ کر دیتے ہیں اور  وزیراعظم عوام کی نبض عوام کی نفسیات سے آگہی رکھنے والے تقاریر رائٹر کی لکھی ہوئی تقاریر پڑھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔

وزیراعظم کی اپنی تقریر سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ملک میں کمزور طبقات موجود ہیں اور وزیراعظم کو ان کے معاشی ماہرین یہ بھی بتاتے ہوںگے کہ کمزور طبقات کی ملک میں تعداد کیا ہے اور وہ کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور ذہنی پسماندگی کی شدت کی وجہ سے آج بھی پاکستان کے ’’کمزور طبقات‘‘ غربت اورامارت کو تقدیر کے کھیل ہی سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے نہ وہ غربت کے خلاف جہاد کرتے ہیں نہ امارت کے خلاف ڈنڈا اٹھاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ غربت اورامارت کو خدا کی مرضی سے تعبیر کرتے ہیں اور خدا کی مرضی کے خلاف بھلا بندہ کس طرح آواز اٹھاسکتا ہے؟

وزیراعظم ملک کے بڑے صنعت کار کہلاتے ہیں، اﷲ کے فضل سے اقتدار بھی ان کی مٹھی میں ہے۔ اس موقعے پر مجھے انڈین فلم کا ایک گانا یاد آرہاہے جس کے بول کچھ یوں ہیں ’’ننھے منے بچے تیری مٹھی میں کیا ہے۔ مٹھی میں ہے تقدیر ہماری، ہم نے اس کو اپنے بس میں کیا ہے؟

اصل مسئلہ یہی ہے کہ ننھے منے بچوں یعنی نئی نسل کی مٹھی میں اس کی تقدیر ہے لیکن وہ اپنی تقدیر سے ناواقف ہے اور اسے یہ بتایا جارہا ہے کہ تقدیر کا مالک خدا ہے اور خدا ہی بندے کی تقدیر لکھتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے بندے کی تقدیر بندے کے ہاتھ میں ہے، بات صرف اتنی ہے کہ بندے نے اسے اب تک اپنے بس میں نہیں کرسکا ہے جس دن وہ اپنی تقدیر کو اپنے بس میں کرلے گا اس دن وہ کمزور سے طاقت ور بن جائے گا لیکن اس کے لیے سیاسی اور سماجی شعور اور علم کی ضرورت ہے اور ان دونوں ہتھیاروں کو ان طاقتور طبقات نے اپنی اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے جب وہ ان دو ہتھیاروں سے لیس ہوجائے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ طبقات کمزورکیوں ہوتے ہیں اور طاقتورکیوں ہوتے ہیں۔

ملک کی دولت کے اسی فی صد حصے پر 2 فی صد لٹیرے کیوں قابض ہیں اور اپنی اسی فی صد دولت کو ان ڈاکوؤں کے قبضے سے کس طرح چھڑایا جاسکتا ہے تاکہ اس کا شمار کمزور طبقات میں نہ ہوں اور وہ بھی عیدین شایان شان طریقے سے مناسکے۔

وزیراعظم محض کمزور طبقات کو طاقت ور بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کروا کر تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں ویسے تو ہمارا محترم شریف خاندان لگ بھگ چالیس سال سے اقتدار میں ہے لیکن 1988 کے بعد سے ہمارے ملک میں رُکا ہوا جمہوریت کا پرنالہ جب جاری ہوا تو میاں صاحب اب تیسری بار وزیراعظم کے منصب جلیلہ پر فائز ہیں، ہمارے ملک میں غربت سمیت جتنی خرابیاں موجود ہیں حاضر سروس حکمران اس کی ذمے داری سابق حکومتوں پر ڈالتے ہیں اور یہ موٹی سی بات بھول جاتے ہیں کہ ’’سابق‘‘ میں وہ خود بھی شامل ہیں۔

صوبہ پنجاب میں ہماری کل آبادی کا کوئی 63 فی صد حصہ رہتا ہے اس پس منظر میں اہل سیاست کہتے ہیں کہ پنجاب کا حکمران پورے ملک کا حکمران ہوتا ہے جب پنجاب میں بھی ایک ہی خاندان کی حکومت ہو اور مرکز میں بھی وہی خاندان برسر اقتدار ہو تو اس کے لا محدود اختیارات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا۔ اس قدر اختیارات سے لیس ہمارا حکمران خاندان اب تک کمزور طبقات کو طاقتور کیوں نہیں بناسکا؟

یہ ایک منطقی سوال ہے اور اس سوال سے جڑا ایک سوال یہ ہے کہ طبقات کمزور اور طاقتور کیوں ہوتے ہیں؟ ماضی کے بادشاہوں اوران کے غلام جاگیرداروں نے کمزور اور طاقتور غریب اور امیر کے اسرار کو چھپانے کے لیے مذہب اور مولوی کو استعمال کیا اور غریب کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی کہ غربت اور امارت عزت اور ذلت سب تقدیر کے کھیل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔