تجارتی پالیسی کیلیے فنڈز کا اجرا شروع نہ ہوسکا، بجٹ کٹوتی کا امکان

اظہر جتوئی  جمعرات 29 ستمبر 2016
رواں یاآئندہ ماہ سے فنڈنگ شروع ہونے کی امیدہے، توانائی کامسئلہ حل کر دیا، انڈسٹری کچھ کرکے دکھائے،’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

رواں یاآئندہ ماہ سے فنڈنگ شروع ہونے کی امیدہے، توانائی کامسئلہ حل کر دیا، انڈسٹری کچھ کرکے دکھائے،’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزارت خزانہ نے تجارتی پالیسی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے  وزارت تجارت کو رواں سال کے لیے مختص 6ارب روپے کی رقم یکمشت دینے سے انکار کر دیا ہے، یہ رقم وزارت تجارت کو ہر 2 ماہ بعد دی جائے گی، رواں مالی سال تجارتی پالیسی کی مختص رقم پر کٹ لگنے کا امکان ہے۔

وزارت تجارت کے حکام کے مطابق پاکستان کی برآمدات میں اضافے اور ملک میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے اسٹریٹجک ٹریڈپالیسی فریم ورک 2015-18 کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور طے پایا تھا کہ تجارتی پالیسی کے پہلے 2 سال 6، 6 ارب روپے اور تیسرے سال 8 ارب روپے وزارت تجارت کو فراہم کیے جائیں گے لیکن وزارت خزانہ نے گزشتہ مالی سال جو تجارتی پالیسی کا پہلا سال تھا کوئی رقم وزارت تجارت کو نہیں دی۔

اب تجارتی پالیسی کا دوسرا سال شروع ہو چکا ہے اوروزارت تجارت کے بار بار مطالبے کے باوجود اس کے پہلے 3 ماہ ختم ہونے کو ہیں لیکن کوئی رقم فراہم نہیں کی گئی ہے، اس سلسلے میں اب وزارت خزانہ نے وزارت تجارت کو یکمشت رقم کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور کہا ہے کہ تجارتی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے مختص رقم میں سے ہر 2 ماہ کے بعد 1ارب روپے جاری کیے جائیں گے، اس طرح پالیسی سے پہلے 2 ماہ کی رقم وزارت تجارت کو نہیں ملی اور رواں سال کے لیے مختص 6 ارب روپے میں سے بھی صرف 5 ارب روپے مل سکیں گے۔

اس حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ کے رابطہ کرنے پر وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ابھی تک تجارتی پالیسی کے لیے مختص رقم سے کچھ نہیں مل سکا تاہم وزارت خزانہ نے ہر 2 ماہ بعد 1ارب روپے دینے کا وعدہ کیا ہے، رواں یا آئندہ ماہ کے شروع میں 1 ارب روپے ملنے کی امید ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تجارتی پالیسی پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے، اس حوالے سے سیمینارز کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پالیسی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے، حکومت نے انڈسٹری کے لیے توانائی کے مسائل حل کر دیے ہیں، اب کچھ کر کے دکھانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔