نیویارک کے لیے ایک قبر، مشرق وسطیٰ کی تلخ آواز

ڈاکٹر امجد طفیل  جمعـء 30 ستمبر 2016
میں نہیں سمجھتا کہ شاعری معاشرے کو تبدیل کر سکتی ہے، علی احمد سعید ایسبر۔ فوٹو: فائل

میں نہیں سمجھتا کہ شاعری معاشرے کو تبدیل کر سکتی ہے، علی احمد سعید ایسبر۔ فوٹو: فائل

مشرق وسطیٰ پیغمبروں کی سرزمین، جہاں رشد و ہدایت کے الوہی خزانے برسے اور جس نے اپنی تقدس کی سب سے زیادہ قیمت ادا کی۔ مشرق وسطیٰ گزشتہ ایک سو سال میں اس تواتر سے خون میں نہایا ہے کہ صلیبی جنگوں کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں حالیہ ابھار نام نہاد ’’عرب بہار‘‘ (Arab Spring) کی صورت میں آیا، جس نے اس خطے کے ملکوں کے چہرے پر خزاں کے گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔

بیسویں صدی میں سب سے زیادہ قیمت فلسطینیوں نے ادا کی ہے۔ پھر لبنان اور مصر نے اور اب سب سے ہول ناک انسانی المیہ شام کی سرزمین پر رونما ہو رہا ہے، لاکھوں ہلاک اور زخمی ہوئے اور سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں اپنی زمین سے یوں اکھڑے کہ انہیں کوئی پناہ گاہ میسر نہیں۔ اس صورتِ حال کے پیچھے عالمی سرمایہ دارانہ استعمار بالخصوص صہیونیت اور امریکا ہے۔

ایسے میں اگر ایک عرب شاعر ’’نیویارک کے لیے ایک قبر‘‘ کا خواہش مند ہے، تو ہمیں اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ایک سو سال سے موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے والے ایسی خواہش پال لیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ ’’دریچۂ عالم‘‘ میں اس سے پہلے محمود درویش کی شاعری اور السوانی کے ناول پر اظہار خیال کیا جا چکاہے، اب ’’ادونیس‘‘ کی شاعری پر بات کرتے ہوئے مثلث کے تیسرے زاویے کو جوڑا جا رہا ہے کہ اس سے اُس تصویر کو تخلیقی اعتبار سے مکمل کرنے میں کچھ مدد ملے گی، جو مشرق وسطیٰ میں تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے۔

علی احمد سعید اسبر (Esber)  المعروف ’’ادونیس‘‘ کو عرب دنیا کا سب سے عظیم زندہ شاعر مانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس کی شاعری کے تراجم دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہوئے ہیں، جو اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔

ادونیس کا شمار اُن لکھنے والوں میں ہوتا ہے، جو شعر و ادب کے سیاسی استعمال کے قائل نہیں مگر جن کی تحریروں کا سیاسی تناظر بہت نمایاں ہے اور جو اپنی معاصر صورتِ حال کے ساتھ نہ صرف پوری طرح جڑے ہوئے ہیں بلکہ اُس کے تخلیقی بیان پر قادر بھی ہیں۔ ادونیس ایک ایسا تخلیق کار ہے، جو اپنے بیان کی سچائی کے سامنے کسی مخالفت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اس لیے وہ 1956 سے فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔

ادونیس فکری سطح پر دائیں بائیں کی ظاہری تقسیم سے اوپر اٹھ کر اپنی تخلیقی ذات کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ عرب ملکوں کے سیاست دان، حکمران اور مذہبی حلقے اس سے ناخوش ہیں۔

عرب قوم پرست اور ترقی پسند بھی اسے طعنہ و دشنام سے نوازتے ہیں۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مفکر، نقاد اور کٹر سیکولر لکھنے والا ہے اور اپنے لیے (Pagan Prophet) کا لقب پسند کرتا ہے۔ اس نے فنی سطح پر بھی عربی شاعری میں قابل قدر اضافے کیے ہیں۔ اسے عربی زبان میں نثری شاعری کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اپنے شاعرانہ لب و لہجے اور اپنی تخلیقی انفرادیت سے اس نے اپنے ستر سالہ تخلیقی سفر میں عرب شاعروں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔

’’ادونیس‘‘ شاعری اور تخلیقی فن کار کے بارے میں بہت دل چسپ تصورات رکھتا ہے مثلاً، اپنے ایک مضمون میں وہ شعر و سیاست کے تعلق کے بارے میں لکھتا ہے:

’’میں نہیں سمجھتا کہ شاعری معاشرے کو تبدیل کر سکتی ہے۔ اگر آپ معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو معاشرے کاڈھانچہ تبدیل کرنا ہوگا۔ خاندان، تعلیم اور سیاست کے تصورات کو تبدیل کرنا ہوگا۔ شاعری اشیا اور الفاظ کے رشتوں کو تبدیل کر سکتی ہے۔ اس کے ذریعے ایک نئی دنیا کا تصور پیدا کیا جا سکتا ہے۔ شاعری کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کرنے کا مطلب یہ ہوگا، جیسے ہم محبت کے بارے میں نظریات بنا رہے ہوں۔‘‘

’’ادونیس‘‘ تخلیق کار کو ایک انقلابی تو مانتا ہے لیکن وہ انقلابیوں سے مختلف بھی جانتاہے:

’’ایک تخلیق کار ہمیشہ انقلابی ہوتا ہے لیکن وہ کبھی انقلابیوں جیسا نہیں ہو سکتا۔ وہ نہ تو ان جیسی زبان (نہیں) بول سکتا (ہے) اور نہ ہی ان جیسے سیاسی ماحول میں کام کر سکتا ہے مثلاً، میں تشدد کے شدید (کے) خلاف ہوں لیکن گوئیرا کے نہیں، گاندھی کے ساتھ ہوں۔‘‘

علی احمد سعید ’’ادونیس‘‘ کی شاعری کو اردو میں انورسن رائے نے ترجمہ کیا ہے۔ انورسن رائے ناول نگار شاعر اور مترجم کے طور پر اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ زیرِ نظر ترجمے اس بات کے شاہد ہیں کہ انہوں نے لفظی ترجمے سے ہٹ کر شاعری کے باطن میں اترتے ہوئے اُس تخلیقی جوہر کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے، جس کو مترجم اردو زبان میں منتقل کر سکتا ہے، ورنہ تو اپنے تعارفی مضمون ’’ترجمے کے ناممکنات‘‘ میں انھوں نے بطور مترجم اپنی نارسائیوں کی طرف خود بھی اشارے کیے ہیں۔ شاعری اور شاعری کے ترجمے کے بارے میں انورسن رائے کا درجہ ذیل بیان بہت اہم ہے، اِسے ذہن میں رکھے بغیر ہم زیرِ نظر ترجمے کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتے

’’شعر کہتے ہوئے زبان اور ابلاغ کے وہ منطقی تقاضے کیسے از خود معطل ہو جاتے ہیں جو فکشن اور تنقید لکھتے ہوئے ہر لفظ اور جملے پر مسلط رہتے ہیں؟ اس لیے جب فکشن، تنقید، کسی فلسفیانہ یا نفسیاتی تحریر کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو یقین کیا جاتا ہے کہ زبان کا استعمال اُس نوع کا ذاتی، داخلی، علامتی یا استعاراتی نہیں ہوگا جیسا کہ شعر میں ہو سکتا ہے۔ ہاں صورتِ حال اور مسائل و معاملات ہو سکتے ہیں لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ شعری اور غیرشعری دونوں طرح کے متون کے تراجم میں ابلاغ اور اظہار کی دشواریاں یکساں طور پر دیکھنے میں آتی ہیں۔‘‘

’’ادونیس‘‘ اپنی شاعری میں تخلیقی اظہار کو زیادہ اہم جانتا ہے، اس کے باوجود اپنی نظم ’’نیویارک کے لیے قبر‘‘ لکھتے ہیں، تو بار بار ان کے لہجے کی شدت پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیتی ہے :

’’نیو یارک ایک عورت۔ ایک عورت کا مجسمہ‘‘

جو ایک ہاتھ سے لہرا رہی ہے چیتھڑے جن کا نام ہے آزادی

ان صفحات پر جنہیں ہم کہتے ہیں تاریخ

اور دوسرے ہاتھ میں لیے ہے دم گھٹنے کا شکار

ایک بچہ جس کا نام ہے زمین‘‘

آپ نے دیکھا کہ شاعر کے طنز کا تیر کتنا تیکھا ہے اور وہ چند جملوں میں امریکی استعمار کی اصل صورتِ حال قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ ’’ادونیس‘‘ اپنے عرب ہونے پر فخر کرتا ہے لیکن وہ کسی نسلی تفاخر کا شکار نہیں، وہ اپنے ثقافتی ورثے پر فخر کرتا ہے لیکن جانتا ہے کہ سرمائے کے بازار میں اب عربوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ صارفیت کی ثقافت نے ہر چیز کو بکاؤ مال میں تبدیل کر دیا ہے، اس کے باوجود وہ انسانی عظمت کا قائل ہے، وہ زندگی کی جنگ ’’آدمی‘‘ کو فیصلہ کن عنصر قرار دیتے ہیں۔

’’کسی بھی جنگ میں سب سے ضروری عنصر ہوتے ہیں ہتھیار

لیکن فیصلہ کن نہیں

آدمی ہتھیار نہیں ہوتا لیکن آدمی ہوتا ہے فیصلہ کن عنصر

نہ تو کوئی جیت آخری ہوتی ہے اور نہ کوئی شکست

ایک عرب کی طرح دہراتا ہوں، کہاوتیں اور مقولے

وال سٹریٹ میں جہاں ہے رنگ کے سونے کے دریا

بہتے چلے آتے ہیں اپنے ماخذوں سے، ان کے درمیان میں نے دیکھا

عرب دریا لیے آ رہے ہیں لکھوکھا بریدہ اعضا

جیسے بڑے دیوتا کے حضور پیش کی جا رہی ہو قربانی‘‘

آگے چل کر جب ’’ادونیس‘‘ اپنی شاعری میں نیویارک اور دمشق کا موازنہ کرتا ہے تو وہ ظالم اور مظلوم کے درمیان واضح لائن کھینچ دیتا ہے۔ شاعر نے یہ نظم برسوں پہلے لکھی لیکن تخلیق کی طاقت ملاحظہ کریں کہ یہ زمان و مکاں کی حدوں کو پھلانگ کر آج کے حالات کی ہوبہ ہو عکاسی معلوم ہوتی ہے :

اس کے باوجود نیویارک احمق نہیں ہے! وہ ہے ایک لفظ

لیکن جب میں لکھتا ہوں۔ دمشق، میں ایک لفظ نہیں لکھتا، ہاں بل کہ لفظ کی نقل اتارتا ہوں حماقت -د-م-ش-ق۔۔۔ ایک آواز، میرا مطلب ہے ایک جھونکا ہوا کا‘‘

اسی تسلسل میں وہ امریکی سرمایہ دارانہ استعمار کو ساری دنیا میں جنگ کی صنعت چلانے کے حوالے سے ہدف طنز بناتا ہے:

(نیویارک نظام ہے پاور لوف اور لوگ ہیں برائے تجربات۔۔۔ جنگ، جنگ، جنگ)

گھڑی بتاتی ہے وقت

(مشرق سے آ رہا ہے ایک خط

اِسے ایک لڑکے نے اپنی شریانوں سے لکھا ہے

میں اِسے پڑھتا ہوں:

گڑیا اب نہیں رہی فاختہ

وہ بن چکی ہے فیلڈ گن، ایک مشین گن

ایک شاٹ گن۔۔۔ روشنی کی سڑکوں پر لاشیں جوڑ رہی ہیں

ہنولیٰ کو یروشلم سے، یروشلم کو نیل سے)‘‘

’’نیویارک کے لیے ایک قبر اور دوسری نظمیں‘‘ ادونیس کی نظموں کے کئی سلسلے شامل ہیں۔ اس حوالے سے یہاں ایک سلسلہ ’’سمندر کا چہرہ‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں پچیس نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں سے ہمیں شاعر زندگی کے کئی ایک چھوٹے بڑے معاملات پر تخلیقی اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے خوابوں اور اپنی خواہشوں کے مقابل ہے۔ وہ اپنی باطنی ذات کو شاعرانہ لبادے میں پیش کرتا ہے۔ اس سلسلے کی ایک نظم ملاحظہ ہو:

ایک نظم

(ایک خواب)

میں وقت کی آواز سنتا ہوں

نظم

ایک ہاتھ ہے، یہاں اور وہاں

نظم ہے

دو متلاشی آنکھیں

کیا آبی کنولوں نے

اپنی کٹیاؤں کے دروازے بند کر لیے ہیں؟

کیا آدمی نے

کوئی کنوارہ دروازہ کھولا ہے

ایک ہاتھ یہاں اور وہاں : اور فاصلہ

حرکت کرتا ہے بچے اور معتوب کے درمیان

تاکہ چھپا ہوا ستارہ ظاہر ہو سکے

اور دنیا اپنی شفافیت پا سکے‘‘

نظموں کا ایک سلسلہ ’’آئینہ‘‘ کے تلازمے سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں خالدہ، خزاں کی لاش، بیسویں صدی، بادل، شہادت، کاسۂ چشم اور آرقیس کے لیے آئینہ کا استعارہ الگ الگ نظموں میں بیان ہوا ہے۔ ’’خالدہ‘‘ ادونیس کا شاعرانہ کردار ہے، جس کے حوالے سے شاعر نے محبت کے جذبات کی خوب صورت عکاسی کی ہے۔ ’’خالدہ کے لیے ایک آئینہ‘‘ نظم کو پانچ حصوں، لہر، زیر آب، کھونا، تھکن اور موت کے ٹکڑوں میں ُبنا گیا ہے، یہاں ہم اس نظم کا تیسرا ٹکڑا ’’کھونا‘‘ نقل کرتے ہیں :

’’ایک بار میں ترے ہاتھوں میں گم ہوا

میرے ہونٹ محاصرے کے گرویدہ ہوئے

انہیں ایک وحشی فاتح کی طلب تھی

تب تم نے پیش قدمی کی

تمہاری کمر ایک سلطان تھی

تمہارے ہاتھ فوج کے ہتھیار

تمہاری آنکھیں جائے پناہ اور ایک دوست

ہم پیوست ہوئے

ایک ساتھ خود کو کھویا، شعلوں کے جنگل میں داخل ہوئے

میں نے پہلا قدم اٹھایا اور تم نے راستے کو وا کر دیا

’’ادونیس‘‘ کی شاعری کو اردو میںترجمہ کرکے انورسن رائے نے ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے، جس کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ ہاں ایک بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کتاب کی طباعت کے دوران اختیاط سے کام نہیں لیا گیا یعنی پروف کی اغلاط بہت زیادہ ہیں اور بعض جگہ تو مفہوم کو سمجھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

کتاب میں شامل ڈاکٹر سعادت سعید کا مضمون کچھ فالتو اور دوست نوازی معلوم ہوتاہے۔ ہاں کتاب کے آخر میں ’’ادونیس کی زبانی‘‘ میں شامل دو تحریروں ’’شعر و سیاست‘‘ اور ’’لازکیہ سے پیرس تک‘‘ شعری مجموعوں کی فہرست، تنقید اور تراجم کی فہرست کتاب کی افادیت میں اضافہ کرتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔