ہمسائے

غلام عباس  جمعـء 7 اکتوبر 2016
رفتہ رفتہ اس نے درختوں کے تنوں سے لپٹنا، مکانوں کا احاطہ کرنا اور پہاڑیوں پر لمبے لمبے سائے ڈالنا شروع کیا۔ فوٹو: فائل

رفتہ رفتہ اس نے درختوں کے تنوں سے لپٹنا، مکانوں کا احاطہ کرنا اور پہاڑیوں پر لمبے لمبے سائے ڈالنا شروع کیا۔ فوٹو: فائل

اس پہاڑی پر وہ فقط دو ہی گھر تھے۔ مکان تو اصل میں ایک تھا مگر بعد میں اس کے مالک نے اس کے بیچوں بیچ لکڑی کی ایک پتلی سی دیوار کھڑی کرکے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا اور اب اس میں الگ الگ دو خاندان رہتے تھے۔

پہاڑوں پر مکان ویسے ہی چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس پر دو حصوں میں بٹ جانے سے اس کی مکانیت محض نام کو رہ گئی تھی۔ چنانچہ اس کے رہنے والوں کو اگر یہ تسلی نہ ہوتی کہ وہ گرمی کا زمانہ پہاڑ پر بسر کررہے ہیں تو بہت ہی آزردہ رہا کرتے۔

لکڑی کا بنا ہوا مخروطی وضع کا یہ مکان، جس پر سرخ روغن کیا گیا تھا، پہاڑی کی ایک ڈھال پر واقع تھا۔ اس تک پہنچنے کے لیے لکڑی کا ایک لمبا زینہ چڑھنا پڑتا تھا۔ مکان کے سامنے تھوڑی سی زمین تھی جس کو ہموار کرکے پھلواری بنانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر وہ پھلواری بے توجہی کا شکار ہوکر رہ گئی تھی۔ اور اب اس میں ڈیلیا کا ایک آدھ پودا ہی رہ گیا تھا جو بڑی ڈھٹائی سے اس کی یاد کو قائم رکھنے پر مصر تھا۔

اس پھلواری کے سرے پر لکڑی کا ایک بنچ رکھا تھا۔ اس پر بیٹھیے تو نیچے وادی کا حسین مگر اداس اداس منظر دکھائی دیتا۔ جتنی دیر سورج غائب رہتا ہلکی ہلکی نیلی دھند مکڑی کے جالے کی طرح اس منظر پر چھائی رہتی اور ایسا نظر آتا جیسے پانی میں عکس دیکھ رہے ہوں۔ جب سورج نکلتا تو دھندایکایکی سنہری ہوکر اس مرقع کو اور بھی حسین بنا دیتی، مگر چند ہی لمحوں بعد آنکھوں میں چکاچوند ہونے لگتی اور دیکھنے والا جلد ہی اپنی نظریں پھیرلیتا۔

اگست کی ایک صبح کو ابھی آفتاب نے مشرقی سلسلۂ کوہ کی پہاڑیوں کے بیچ میں سے سر نکالا ہی تھا کہ ایک چھوٹا سا لڑکا ایک گھرمیں سے نکلا۔ اس کی عمر مشکل سے آٹھ نو برس کی ہوگی۔ اس نے سرخ اون کا پل اوور اور نیکر پہن کرکھا تھا، پاؤں میں بادامی رنگ کا فل بوٹ تھا جس کے کنارے مینہ سے بھیگ بھیگ کے سیاہ پڑگئے تھے۔

لکڑی کے برآمدے سے اترتے ہی لڑکے کی نظر بے اختیار ساتھ والے گھر کی طرف اٹھ گئی مگر اس کا دروازہ ابھی بند تھا۔ لڑکے کی نظریں اس کی طرف سے اس طرح مایوس پلٹیں گویا وہ کوئی مٹھائی یا کھلونوں کی دکان ہو جسے دکاندار اپنی سستی کی وجہ سے وقت پر نہ کھولتا ہو۔ اس کے بعد اس کی نظر سامنے ڈیلیا کے پودے پر پڑی جس میں ایک بڑا سا پھول صبح کی سنہری دھوپ میں بڑی تمکنت سے جھم جھما رہا تھا۔

اس پھول نے لڑکے کے دل کو لبھایا اور وہ لپک کر اس کی طرف گیا۔ وہ کئی لمحوں تک حیرت سے اس کی طرف تکتا رہا۔ اوس کی ننھی ننھی بوندیں اس کی پنکھڑیوں پر لرز رہی تھیں اور ان میں پھول کا عنابی رنگ جھلکتا ہوا بہت بھلا لگتا تھا۔ لڑکے نے ایک بار پھر ساتھ والے گھر پر نظر ڈالی اور پھر بڑی احتیاط سے پھول کو توڑ لیا۔

وہ خوشی خوشی پھول کو ہاتھ میں تھامے ساتھ والے گھر کے برآمدے میں پہنچا اور کمرے کے دروازے کو آہستہ آہستہ دھکا دیا۔ مگر وہ اندر سے بند تھا۔ اس دروازے کے اوپر کے حصے میں شیشے جڑے ہوئے تھے جن میں سے اندر کا اودے رنگ کا ملگجا سا پردہ نظر آرہا تھا۔ وہ کچھ دیر دروازے کے پاس ہی کھڑا رہا جیسے سوچ رہا ہو دروازہ کھٹکھٹائے یا نہیں کہ اتنے میں لکڑی کے فرش پر بھاری بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور ساتھ ہی چٹخنی کے کھلنے کی آواز آئی۔

لڑکا سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا اور اس کا وہ ہاتھ جس میں ڈیلیا کا پھول تھا آپ سے آپ پیٹھ کے پیچھے چلاگیا۔ ایک بھاری بھرکم آدمی شب خوابی کا لباس پہنے، کمبل کی بکل مارے ایک ہاتھ سے مسواک کرتا، دوسرے میں تھیلا تھامے باہر نکلا۔ پہلے تو اس نے لڑکے کی طرف توجہ نہ دی مگر برآمدے سے نیچے قدم رکھتے ہی وہ مڑا۔

’’کیا بات ہے اکبر میاں؟‘‘ اس نے لڑکا سے پوچھا۔

’’جی کچھ نہیں۔‘‘ لڑکے کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ اس کی آنکھوں کی چمک اچانک مدھم پڑگئی۔

’’بیری سے کھیلنے آئے ہو؟‘‘

’’جی…‘‘ اور وہ مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔

’’بیری تو سورہی ہے ابھی۔‘‘

لڑکے نے نظریں جھکالیں مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔

’’تمہارے ہاتھ میں کیا ہے اکبر میاں؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

’’جی پھول ہے۔‘‘ اور اس نے ڈرتے ڈرتے پھول سامنے کردیا۔ اس کا چھوٹا سا ہاتھ شبنم سے ابھی تک گیلا ہورہا تھا۔

’’بیری کے لیے؟‘‘

’’جی…۔‘‘

’’بیری تو سورہی ہے اور پھر ابھی سویرا بھی تو ہے۔‘‘

لڑکے نے اس کا بھی کچھ جواب نہ دیا۔

’’آج اتوار ہے نا؟ تم اور بیری دن بھر خوب کھیلنا۔‘‘

یہ اس شخص نے چلتے چلتے کہا، پھر مسواک کرتا ہوا کاٹھ کے زینے سے اترگیا اور اس پگڈنڈی پر ہولیا جو بل کھاتی ہوئی نیچے پہاڑی کے دامن تک چلی گئی تھی۔ جب تک پگڈنڈی کے پیچ و خم اس شخص کو کبھی چھپاتے کبھی دکھاتے رہے، اکبر برابر برآمدے میں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔

آخر جب وہ نظروںسے اوجھل ہوگیا تو اکبر نے ایک اور مایوسانہ نظر ساتھ والے کمرے پر ڈالی اور پھر برآمدے سے اتر کر وہ ڈیلیا کے پودے کے پاس چلاآیا جس میں اب کوئی دل کشی نہیں رہی تھی۔ وہ شاخ جس سے اس نے پھول توڑا تھا لنجی لنجی سی نظر آرہی تھی، جیسے کہہ رہی ہو ’’اب مجھ میں اور کوئی پھول نہیں آئے گا۔‘‘

اکبر پودے کے پاس سے ہٹ آیا اور بنچ پر بیٹھ گیا۔ سورج اب لمبے لمبے پیازی بادلوں کو پیچھے چھوڑ کر پہاڑیوں کے جھرمٹ سے نکل آیا تھا اور اس نے نڈر ہوکر اپنا سفر طے کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ دھند جو نچلی وادی پر چھائی ہوئی تھی، دھیرے دھیرے دھوپ میں تحلیل ہورہی تھی اور نیچے کا منظر لمحہ بہ لمحہ نکھرتا آرہا تھا۔ آس پاس کے مکانوں کی کھڑکیوں میں انسانی چہرے نمودار ہونے شروع ہوگئے تھے۔ طرح طرح کی اضطراری حرکتیں ان سے ظاہر ہورہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ دماغ نے، جس پر ابھی نیند کا اثر تھا، جسم کی حرکات پر قابو رکھنا شروع نہیں کیا۔

نیچے دور سے اکبر کے سکول کی گرجا نما عمارت نظر آرہی تھی جس پر بادنما مور بنا ہوا تھا۔ ایک مکان کی انگنائی میں، جو نشیب میں واقع تھا، ایک گرہستن چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر الگنی پر ڈال رہی تھی۔ قریب ہی دیودار کی ایک شاخ پر ایک خوش رنگ چڑیا اپنی لمبی چونچ سے اپنی دم کے بال سونت رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ اداسی سے چہک بھی اٹھتی تھی۔

اکبر اس نظارے میں ایسا محو ہوا کہ اسے خبر بھی نہ ہوئی اور اس نے ڈیلیا کے پھول کی ایک پتی نوچ لی۔ جب اسے اپنی اس حرکت کا علم ہوا تو اس نے ایک ایک کرکے ساری پتیاں نوچ ڈالیں اور ڈنٹھل کو ہوا میں اچھال دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ڈنٹھل کو نیچے دور تک کھڈ میں گرتے دیکھتا رہے گا، مگر وہ تھوڑی ہی دوری پر ایک جھاڑی میں اٹک کررہ گیا۔

ایکا ایکی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ سورج کی ساری دوڑ دھوپ کو بادلوں کے ایک جھرمٹ نے چھپا لیا اور پھر ایک ہی دم بوندیاں آنے لگیں۔

گرہستن نے منہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور پھر جلد ہی سارے کپڑے الگنی پر سے اتارلیے۔ جس گھر سے اکبر نکلا تھا اسی میں سے ایک اور لڑکا دوڑتا ہوا برآمدے میں آیا۔ اس کا لباس بھی قریب قریب ویسا ہی تھا جیسا اکبر کا تھا مگر اس کی عمر پانچ برس سے زیادہ نہ تھی۔

’’بھائی جان۔‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ ’’امی بلارہی ہیں۔‘‘

اکبر نے کچھ جواب نہ دیا۔

’’بھائی جان۔ امی کہتی ہیں ناشتہ کرلو۔‘‘

اکبر نے اب بھی کچھ جواب نہ دیا۔ وہ بدستور گھر کی طرف پیٹھ کرکے بنچ پر بیٹھا رہا۔

لڑکا اندر چلاگیا مگر پل بھر کے بعد وہ پھر آیا۔

’’بھائی جان امی خفا ہورہی ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

’’سن لیا، سن لیا۔‘‘ بالآخر اکبر نے گردن پھیری۔ ’’آتا ہوں، آتا ہوں۔‘‘

چھوٹا لڑکا پھر اندر چلاگیا۔ ایک لمحہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایک عورت جس کی جوانی ڈھل چکی تھی، بڑے بڑے پھولوں والی بنفشیٔ رنگ کی ساڑی کو کولہے پر سے سنبھالتی ہوئی برآمدے میں نمودار ہوئی۔

’’اکبر بیٹے۔‘‘ اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اندر کیوں نہیں آتے۔ میرے لعل، ناشتہ کیوں نہیں کرتے، بوندیاں آرہی ہیں اور تم مینہ میں بیٹھے بھیگ رہے ہو۔ واہ بھئی واہ۔ اور کہیں زکام ہوگیا تو۔ ابھی تو بیماری سے اٹھے ہو۔ جلدی سے آجاؤ میرے پیارے۔‘‘

’’میں آہی رہا تھا امی جان۔‘‘ اکبر نے بنچ سے اٹھتے ہوئے کہا، پھر وہ مینہ سے بچنے کی ذرا بھی کوشش نہ کرتا، سہج سہج قدم اٹھاتا ہوا برآمدے میں آیا، اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے ایک بار پھر ساتھ والے گھر کے دروازے پر نظر ڈالی۔

مینہ کوئی پاؤ گھنٹہ تک برسا کیا۔ اس کے بعد ایک دم مطلع صاف ہوگیا اور سورج نے پہلے سے بھی زیادہ بلند ہوکر اپنا سفر شروع کردیا۔

دونوں لڑکے پھر اسی طرح سے نکلے۔ اکبر ڈیلیا کے پودے کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور چھوٹا لڑکا ساتھ والے گھر کے برآمدے میں پہنچا اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بے دھڑک دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔

’’بیری!‘‘ اس نے چلّا کر کہا۔

’’بیری!!‘‘ اس نے جواب کا انتظار کیے بغیر اور بھی زور سے چلّا کر کہا۔ ’’تمہیں بھائی جان بلارہے ہیں۔ سچ مچ کا ہوائی جہاز ہے ان کے پاس۔ آؤ دیکھو۔‘‘

’’کیا ہے منیر میاں؟‘‘ اندر سے ایک ننھی سی آواز آئی۔

’’دروازہ کھولو۔‘‘ منیر نے کہا۔

’’چٹخنی لگ رہی ہے، میرا ہاتھ نہیں جاتا، امی غسل خانے میں ہیں۔‘‘

’’رات ماموں ہمارے لیے بڑا اچھا ہوائی جہاز لائے۔‘‘ منیر نے کہا۔

’’کہاں ہے وہ ہوائی جہاز؟‘‘

’’بھائی جان کے پاس۔‘‘

’’اچھا میں آتی ہوں۔‘‘

پانچ منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی سات برس کی ہوگی، برآمدے میں آئی۔ اس نے ہلکے سبزرنگ کا پھولدار ریشمی کرتا اور کلی دار پاجامہ پہن رکھا تھا۔ فراک کے اوپر فیروزی اون کا کوٹ نما سویٹر تھا۔ دونوں شانوں پر ایک ایک چٹیا تھی جس کے سرے پر سفید ربن بندھا ہوا تھا۔ سینے پر آسمانی رنگ کے ہوائی ریشم کا ننھا سا دوپٹہ لہرا رہا تھا۔ پاؤں میں چھوٹے چھوٹے سبز سویڈ کے سینڈل تھے۔

ان دونوں بھائیوں کو بنچ پر بیٹھے دیکھ کر وہ ایک جھونکے کی طرح ان کے پاس پہنچی۔ جیسے ہی منیر کی نظر اس کے چہرے پر پڑی، وہ ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگا۔

’’اوہو ہو بیری!‘‘ اس نے کہا۔ ’’کتنا پوڈر مل رکھا ہے تم نے۔ تمہاری پلکیں کیسی سفید ہورہی ہیں پوڈر سے۔‘‘

’’کب؟‘‘ لڑکی کی ساری چونچالی کافور ہوگئی۔

’’چپ رہو منیر۔‘‘ اکبر نے چھوٹے بھائی کو ڈانٹ بتائی۔

’’ذرا شیشے میں جاکر منہ تو دیکھو۔‘‘ منیر نے کہا۔

بیری نے انگلی سے اپنے گال کو چھوا۔ تھوڑا سا پوڈر اس کی انگلی کے سرے پر لگ گیا۔

’’دیکھا…‘‘

’’بس جی بس۔‘‘ بیری نے اچانک بگڑ کر منیر کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نہیں بولتے تم سے۔‘‘

’’منیر تم چپکے نہیں رہے تو میں پیٹ دوں گا تمہیں۔‘‘ اکبر نے منیر پر آنکھیں نکالیں۔

’’اکبر میاں۔‘‘ بیری منیر کو بالکل نظر انداز کرکے، گویا وہ وہاں موجود ہی نہ تھا، اکبر کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’کہاں ہے وہ ہوائی جہاز جو تمہارے ماموں رات لائے ہیں؟‘‘

’’ابھی دکھاتا ہوں۔‘‘

’’ہے کہاں وہ؟‘‘

’’گھر میں رکھا ہے۔‘‘

’’تولاؤ ابھی۔‘‘

’’ابھی لاتا ہوں۔‘‘

’’نہیں ابھی لاؤ۔‘‘

’’گھر میں رکھا ہے چل کے دیکھ لو نا اندر۔‘‘

’’نا بھئی ہم نہیں جانے کے تمہارے گھر۔‘‘ بیری نے آنکھیں پھرا کر کہا۔ ’’اس دن تمہاری امی خفا ہوئی تھیں ہم پر۔‘‘

’’واہ۔ تم پر تھوڑا ہی خفا ہوئی تھیں۔ وہ تو مجھ سے کہہ رہی تھیں۔‘‘

’’تو تم یہیں لے آؤنا ہوائی جہاز!‘‘

’’اچھی بات۔ تم یہیں ٹھہرو، جانا نہیں۔ ابھی لاتا ہوں۔‘‘ اور وہ گھر کی طرف دوڑا۔ منیر ٹکٹکی باندھے بیری کے چہرے کو تک رہا تھا، مگر بیری نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہ دیکھا۔ وہ نیچے وادی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ عین اس وقت وہ شخص، جو صبح کمبل اوڑھے تھیلا لے کے گیا تھا، کاٹھ کے زینے پر چڑھتا دکھائی دیا اور بیری مارے خوشی کے ’’ابا جان‘‘ ’’ابا جان‘‘ چلاتی ہوئی اس کی طرف دوڑی۔

جس وقت اکبر ہوائی جہاز لے کر گھر سے باہر آیا تو بیری، ابا کے تھیلے کو، جو پھل اور سبزی وغیرہ سے لبالب بھرا ہوا تھا، ایک طرف سے پکڑے ان کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں داخل ہورہی تھی۔ پانچ منٹ گزرگئے۔ اکبر اور منیر بنچ کے پاس کھڑے بیری کی راہ دیکھا کیے، وہ باہر نہ آئی۔ اکبر نے منیر کو ہوائی جہاز دے کر کہا۔ ’’یہ ہوائی جہاز لے جاکر بیری کو دکھا دو۔‘‘

’’آپ نہیں چلتے؟‘‘

’’نہیں میں یہیں ٹھہرتا ہوں۔ کہنا بھائی جان تمہیں بلارہے ہیں۔ شاباش۔‘‘

لکڑی کا یہ ہوائی جہاز جس پر ہلکا ہلکا آسمانی رنگ کیا گیا تھا، خاصا بڑا تھا۔ منیر اسے بڑی مشکل سے سنبھالتا ہوا بیری کے دروازے پر پہنچا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا مگر اسے اندر جانے کی جرأت نہ ہوئی۔

’’بیری۔‘‘ اس نے باہر ہی سے چلّا کر کہا۔ ’’لو دیکھ لو یہ رہا ہوائی جہاز!‘‘

بیری آم چوستی ہوئی دروازے کے پاس آئی۔

’’چیخ کیوں رہے ہو تم… اچھا تو یہ ہے ہوائی جہاز جو کل تمہارے ماموں لائے ہیں؟ افواہ کتنا بڑا ہے!‘‘

’’بھائی جان سامنے کھڑے ہیں، تمہیں بلارہے ہیں۔‘‘

بیری اور اکبر کی آنکھیں چار ہوئیں۔ اکبر اسے دیکھ کر بنچ سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور مسکرانے لگا۔

’’منیر میاں۔‘‘ بیری نے کہا۔ ’’اپنے بھائی جان سے کہو میں ٹھہر کے آؤں گی، ہم آم چوس رہے ہیں اس وقت۔‘‘

منیر ہوائی جہاز لے کر اکبر کے پاس پہنچا۔ دونوں بنچ پر بیٹھ گئے اور وادی کی سیر دیکھنے لگے۔ دس منٹ گزرگئے مگر بیری نہ آئی۔

آسمان پر رفتہ رفتہ بادل پھر چھاگئے تھے۔ اب کے بادل بہت گھنے اور قریب تھے۔ چنانچہ ہر طرف بھاپ ہی بھاپ پھیل گئی جس نے ہر چیز کو اوجھل کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک دم زور کا جھماکا پڑنے لگا۔ اکبر اور منیر کو ہوائی جہاز اٹھا کر گھر میں گھستے ہی بنی۔

یہ بارش کوئی گھنٹہ سوا گھنٹہ رہی اور اس کے بعد پھر دھوپ نکل آئی۔

’’بیری۔‘‘ اکبر ایک ہاتھ میں بڑی سی گیند لیے جس پر انگریز بچوں کی رنگین تصویریں بنی ہوئی تھیں اور دوسرے میں ایک بڑی سی کتاب تھامے بیری کے دروازے پر کھڑا تھا۔

’’بیری۔‘‘ اس نے دوبارہ آہستہ سے کہا۔

’’کیا ہے اکبر میاں؟‘‘ بیری نے اس کی طرف آتے ہوئے پوچھا۔

’’تم تو آئیں ہی نہیں!‘‘

’’کب؟‘‘

’’اس وقت۔‘‘

’’واہ مینہ جو پڑرہا تھا موسلادھار۔ کہاں ہے ہوائی جہاز؟‘‘

’’وہ تو میں نے رکھ دیا۔ لو یہ دیکھو تصویروں کی کتاب!‘‘

’’اسی لڑکی کی کہانی ہوگی جو چٹیا نہیں کراتی تھی؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’واہ یہ تو ہم دیکھ چکے ہیں۔‘‘ اس نے تنک کر کہا۔

’’اچھا تو آؤ گیند سے کھیلیں۔‘‘

’’ہم گیند سے نہیں کھیلتے بھئی۔ امی کہتی ہیں پھسلن ہورہی ہے۔ باہر نہ جانا، پاؤں رپٹ گیا تو کھڈ میں گر کر ہڈی پسلی چور چور ہوجائے گی۔‘‘

’’اچھا تو ہم تمہارے برآمدے ہی میں کھیلیں گے۔‘‘

’’بھائی شام کو کھیلیں گے۔ اس وقت تو ہم ابا اور امی کے ساتھ کپڑا خریدنے جارہے ہیں۔‘‘

اور سچ مچ تھوڑی ہی دیر بعد بیری ابا کی انگلی پکڑے، جنہوں نے اس وقت ڈھیلا ڈھالا انگریزی سوٹ اور ہیٹ پہن رکھا تھا، کاٹھ کے زینے سے اترتی دکھائی دے رہی تھی۔ پیچھے پیچھے اس کی امی مصری وضع کا سیاہ ریشمی برقع پہنے پان چباتی ہوئی آرہی تھی۔ اکبر بنچ پر بیٹھا ان لوگوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتا رہا۔ اس کی نظر بار بار بیری پر پڑتی تھی جس نے اب کلی دار پاجامہ اور دوپٹہ اتار کر فراک پہن لیا تھا۔ دور سے اس کی گوری گوری بھری بھری پنڈلیاں بہت بھلی لگتی تھیں۔ اس کے کان کے پاس بھورے بالوں کی ایک لٹ ہوا سے اڑ اڑ کے بار بار اس کے منہ پر آپڑتی تھی جسے وہ اپنے ننھے سے ہاتھ سے ہٹا ہٹا دیتی تھی۔

اکبر بنچ پر بیٹھا دیر تک اس چھوٹے سے سست گام قافلے کو پگڈنڈی کی بھول بھلیاں میں غائب ہوتے اور ابھرتے دیکھا کیا۔ آخر جب وہ پہاڑی کے سب سے نچلے موڑ پر آخری جھلک دیکھا کر اوجھل ہوگیا تو اس نے اپنی نظریں اس طرف سے ہٹالیں۔

بارش کبھی کی تھم چکی تھی مگر ہوا کا کوئی تیز جھونکا چلتا تو دیوار کے درختوں سے بوندیاں جھڑنے لگتیں۔ دور کہیں نالا تھا جس کا پانی بارش کی وجہ سے زور شور سے بہنے لگا تھا۔ اس کی شائیں شائیں کی آواز یہاں ایسی صاف سنائی دے رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا نالا کہیں آس پاس ہی ہے۔

ایک درخت پر ایک بڑا سا نیل کنٹھ اپنی کھوکھلی آواز سے چیخا، پر تولے، ہوا میں ایک زقند بھری اور پھر دوسرے درخت پر آبیٹھا۔ بظاہر اس نقل مکانی کی کوئی وجہ نظر نہ آتی تھی۔

دورافق کے پاس وہ پہاڑیاں، جو عموماً بادلوں کے غبار میں کھوئی کھوئی رہتی تھیں، اچانک مطلع صاف ہوجانے سے اب واضح طور پر نظر آرہی تھیں۔ وہ دور تک ایک کے پیچھے ایک اس طرح دکھائی دے رہی تھیں جیسے شرمیلی لڑکیاں بڑی عمر کی لڑکیوں کی اوٹ لے کر جھانک رہی ہوں۔ بعض پہاڑیاں ہری بھری تھیں اور بعض لُنڈ مُنڈ، مگر وہ آپس میں ایسی خلط ملط ہورہی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی لحاف کو بے ترتیبی سے ہٹا کر بستر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے اور لحاف کی کہیں تو اوپر کی سبز مخمل دکھائی دے رہی ہے اور کہیں اندر کا خاکستری استر۔

اکبر اس نظارے کو بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا کہ اسے معلوم بھی نہ ہوا کہ اس کے تین ہم جماعت اس کی بنچ کو گھیرے ہنس رہے ہیں۔

’’اوہو! تم لوگ۔‘‘ وہ چونک اٹھا۔ ’’تم کب آئے؟‘‘

’’اکبر۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’یہاں بیٹھے کیا کررہے ہو، چلو ہمارے ساتھ فٹ بال کھیلنے!‘‘

’’تم جاؤ، مجھے کام ہے بھئی۔‘‘ اکبرنے کہا۔

’’واہ۔ یہ خوب کہی۔‘‘ دوسرے لڑکے نے کہا۔ ’’نہیں تمہیں چلنا ہوگا۔ دیکھو ہم نے آج ہی تو یہ نیا فٹ بال خریدا ہے۔‘‘

’’نہیں میں آج نہیں جاؤں گا۔‘‘

’’آخر کیوں؟‘‘

’’مجھے کام جو کرنا ہے بھئی۔‘‘

’’کیسا کام؟‘‘

’’کیسا کام… واہ سکول کا کام جو دیا تھا ماسٹر صاحب نے!‘‘

’’تم تو سچ مچ نہیں چلوگے؟‘‘

’’نہیں آج نہیں کل۔‘‘ اور وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھر کی طرف چل دیا۔

’’رہنے دو بھئی۔‘‘ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’نہیں چلنا تو نہ چلے۔‘‘ اور وہ بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ شام کے چھ بج چکے تھے جب بیری اپنے ابا اور امی کے ساتھ واپس آئی۔ اس نے ایک بقچہ اٹھا رکھا تھا۔

ابا جیب سے چابی نکال کر کمرے کا دروازہ کھولنے لگے، امی برقع اتار کر برآمدے کی ایک کرسی پر بیٹھ گئیں۔ وہ بہت تھکی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

ذرا سی دیر میں بیری گھر میں بقچہ چھوڑ کر باہر بنچ کے پاس آگئی جہاں اکبر بیٹھا ہوا تھا۔

’’بیری تم آگئیں!‘‘ اور وہ جلدی سے بنچ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ’’کپڑا خرید لیا؟‘‘

’’ہاں۔ میرا بڑا خوبصورت ریشمی سوٹ بنے گا۔ اس پر بڑے بڑے گلاب کے پھول ہیں اور پھر ابا نے ہمیں بنارسی اوڑھنی بھی لے دی اور نئی سینڈل بھی۔ پھر ہم نے سینٹ بھی خریدا، لپ اسٹک بھی اور نیل پالش بھی۔‘‘ اس کی آنکھیں خوشی سے ناچ رہی تھیں۔

’’بیری تم…۔‘‘

’’مجھے بیری نہ کہا کرو جی۔‘‘ ایک لمحہ میں وہ بگڑگئی۔

’’پھر کیا کہا کروں؟‘‘

’’میرا نام ہے امیرالنساء بیگم۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کے لہجہ میں بڑوں جیسی سنجیدگی پیدا ہوگئی۔

’’مگر تمہاری امی تو تمہیں بیری ہی کہتی ہیں۔‘‘

’’اونہہ۔‘‘

’’اور تمہارے ابا بھی۔‘‘

’’انہیں کہنے دو۔‘‘

ہم بھی تمہیں بیری ہی کہیں گے… بیری!‘‘

’’دیکھو جی میں پھر کہے دیتی ہوں، مجھے بیری نہ کہا کرو۔‘‘

’’اگر کہوں تو…؟‘‘

’’ہم تم سے نہیں بولیں گے… جاؤ میں تم سے نہیں بولتی، میں گھر جاتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اکبر کی طرف سے منہ پھیرلیا، پل بھر کو رکی، پھر گھر کا رخ کر پھلواری میں دوڑتی ہوئی تتلی کی سی ادا کے ساتھ آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اکبر نے اسے واپس بلانے کی کوشش نہیں کی، وہ چند لمحے دم بخود کھڑا رہا، پھر سہج سے آکر اسی بنچ پر بیٹھ گیا۔

ذراسی دیر میں سورج ڈوب گیا اور آس پاس کی پہاڑیاں قرمزی بادلوں میں کھوگئیں۔ نیچے وادی میں جابجا سفید سفید دھوئیں پھوٹ رہے تھے، درختوں کی چوٹیوں سے، مکانوں کی چھتوں سے، پہاڑوں کی ڈھالوں سے، جس سے وادی کا منظر دھندلا دھندلا ہوگیا تھا۔ اکبر کی نظر اپنے سکول کی عمارت پر پڑی جس کے بادنما مور کو اس وقت ابخرات کے غبار نے نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔

بلاشبہ اس کے ہم جماعت ابھی سکول کی گراؤنڈ میں فٹ بال کھیل رہے ہوں گے۔ اس کو اس بات کا افسوس نہیں تھا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں گیا اور نہ اس کی پروا کہ شاید وہ اس سے ناراض ہوگئے ہوں۔ رہا سکول کا کام تو اس کی بھی اس کو زیادہ فکر نہ تھی۔ شاید کوئی بہانہ کارگر ہوجائے اور وہ اگلے روز ماسٹر کی جھڑکیوں اور تھپڑ سے بچ جائے۔

ہوا میں اب خاضی خنکی پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے مٹھیاں بھینچ کر بغلوں میں دبالیں اور شانوں کو سکوڑ لیا۔ شاید اسے بیری کو بیری نہیں کہنا چاہیے تھا… وہ سوچ رہا تھا، خوامخواہ کی لڑائی اس نے مول لی۔ وہ اب خاصی بڑی ہوگئی ہے۔ سبزسبز رنگ کے پھول دار ریشمی کرتے اور کلی دار پاجامے میں وہ کتنی سمجھ دار معلوم ہوتی تھی۔ اکبر کی آنکھیں بھر بھر آرہی تھیں مگر وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔

اب شام ہوچکی تھی۔ نیچے وادی پر اندھیرا پھیلتا جارہا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے درختوں کے تنوں سے لپٹنا، مکانوں کا احاطہ کرنا اور پہاڑیوں پر لمبے لمبے سائے ڈالنا شروع کیا۔ ذرا سی دیر میں اکبر کا سکول، گھنٹہ گھر اور دوسری عمارتیں نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین سے آسمان تک ایک سیاہ چادر تن گئی جو انسان، حیوان، شجر، حجر ہر شے کو اپنے میں لپیٹنے لگی اور بالآخر اس نے اکبر کو بھی چھپالیا، اس کے جسم کو ہی نہیں اس کی روح کو بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔