شام کے حالات کا پس منظر

عرفان علی  بدھ 12 دسمبر 2012

شام اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکا علی الاعلان میدان میں ہے۔ سب سے پہلے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے 28 فروری 2012 کو امریکی سینیٹ میں اپنی وزارت کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ کی درخواست کے لیے جو تقریر کی اس میں شام کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ بشار الاسد کے بغیر شام‘‘ کے منصوبے کے لیے مالی بجٹ مختص کیا جائے ۔ اسی تقریر میں انھوں نے امریکی اتحادی اسرائیل کے دفاع و تحفظ کی بات بھی کی۔

گو کہ یہ بات امریکی قانون ساز ادارے میں فروری 2012ء میں کی گئی لیکن امریکا اور برطانیہ شروع سے بشار الاسد کی شامی حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس اور چین کی جانب سے شام کی حمایت کرنے کے بعد امریکا، برطانیہ، فرانس اور اس کے عرب اتحادیوں اور ترکی نے شام سے دشمنی نبھانے کے لیے ’’ فرینڈز آف سیریا‘‘ کا نقاب پہن لیا ہے۔ اس پلیٹ فارم کا پہلا اجلاس فروری 2012 ء میں تیونس میں منعقد ہوا۔ یاد رہے کہ ملک شام کو عربی میں سوریا اور انگریزی میں سیریا کہا جاتا ہے۔ فرینڈز آف سیریا کا دوسرا اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں اپریل میں منعقد ہوا۔

ترکی کے ساتھ قطر، سعودی عرب اور عرب لیگ بھی امریکا کے ساتھ اس شام دشمن صہیونی سازش میں شریک ہیں۔ فرینڈز کا تیسرا اجلاس جولائی میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہوا۔ شام میں دہشت گردی کا آغاز مارچ 2011ء میں ہوا تھا۔ شام کی حکومت کے خلاف سب سے بڑا اتحاد المجلس الوطنی السوری (سیرین نیشنل کونسل ) ہے۔ اس اتحادکے قیام کا رسمی اعلان اگست 2011ء کو ترکی کے شہر استنبول میں کیا گیا تھا۔ اس میں چھوٹے بڑے 71 گروہ شامل ہیں جن کی اکثریت شام سے باہر زندگی گزار رہی ہے ۔ اخوان المسلمون کے کئی جلا وطن رہنما بھی اس اتحاد میں شامل ہیں۔ اکتوبر 2005ء کے اعلان دمشق جاری کرنے والے شامی قلمکار عبدالرزاق عید، صحافی مشعل کیلو اور حسن عبد العظیم نے بھی کونسل کی حمایت کا اعلان کیا۔

اس کونسل کے ترجمانوں میں سے ایک برہان غالیون پیرس میں مقیم ہیں۔ غالیون نیشنل کو آرڈینیشن باڈی فار ڈیموکریٹک چینج اور لوکل کوآرڈینیشن کمیٹیز کے درمیان بھی پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سوئیڈن میں مقیم کرد رہنما عبدالباسط سید بھی اس کونسل کے ترجمان مقرر ہوئے۔ سابق شامی جج ہیثم المالح، کمال ال لبوانی اور خاتون وکیل کیتھرائن ال ٹالی نے مارچ 2012ء میں سیرین نیشنل کونسل سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے مطابق یہ بدعنوان لوگوں کا اتحاد ہے اور درحقیقت یہ اخوان المسلمون کا لبرل فرنٹ ہے۔ یہ تینوں اہم شخصیات ہیں۔ خاص طور پر ہیثم المالح ایک اہم رہنما ہیں۔ وہ سیرین فار آل کانفرنس، غالیون کے اتحاد اور نیشنل کونسل ٹو دی ریوولوشن کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہے تھے۔

تازہ ترین پوزیشن یہ ہے کہ امریکا نے اس کونسل کی قیادت تبدیل کروا دی ہے۔ترکی میں31 مئی سے 2 جون 2011ء تک تین روزہ اجتماع منعقد کیا گیا جو انطالیہ اجتماع کے نام سے مشہور ہوا۔ آرگنائزیشن فار ڈیموکریسی اینڈ فریڈم ان سیریا کے ڈائریکٹر اور ایک اپوزیشن رہنما ربال الاسد نے اس اجتماع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اجتماع میں شام کے عوام کے حقیقی نمایندے شریک نہیں ہوئے تھے حالانکہ ربال الاسد خود اسرائیل کا حامی اورلبنان کے سعد حریری گروپ کا ایک مہرہ ہے۔ اپوزیشن اسی نوعیت کے اختلافات کا شکار ہے۔ ایک صہیونی امریکی تھنک ٹینک نے اگست 2011ء تک شام مخالف اتحاد اور گروہوں کا جو خاکہ بنایا تھا، اس میں کرد رہنماؤں، قبائلی رہنماؤں، علاقائی شیخوں کے علاوہ، کل گیارہ گروہ شامل تھے۔

ان میں بلجیم کے شہر برسلز میں قائم کیے گئے اتحاد نیشنل کوالیشن ٹو سپورٹ دی سیرین ریوولوشن کا نام بھی شامل تھا۔ سال 2011ء میں ہی شام میں غیر ملکی مداخلت کے ثبوت منظر عام پر آنا شروع ہو گئے تھے۔ آغاز میں متحدہ عرب امارات اور لبنان کے سعد حریری گروپ کے کردار کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ کہا گیا کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست شام کے دشمنوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ان کے ملک کے ’’ثرایا ‘‘ موبائل سیٹ، ٹوئٹر پیغامات اور فیس بک کے ذریعے شام میں بغاوت کو ہوا دی گئی۔ اردن اور متحدہ عرب امارات کی موبائل سم استعمال کی جانے لگیں۔ جانوروں کے ذریعے اسلحہ اسمگل کیا گیا۔ سابق لبنانی رکن اسمبلی ناصر قندیل نے اپریل 2011ء میں ہی انکشاف کر دیا تھا کہ شام کی حزب اختلاف کی اہم شخصیات شام میں سبوتاژ کے لیے لبنان میں جمع ہوئی ہیں۔

قندیل نے کہا کہ18 جنوری 2011ء کو سعد حریری کا مشیر ہانی حمود پیرس گیا۔ وہاں امریکی سفارتکار ڈان شپیرو سے ملاقات کی جو اسرائیل میں تعینات صہیونی سفارتکار تھا۔ وہاں اس نے لبنان میں تعینات سابق امریکی سفارتکار جیفری فیلٹ مین اور لبنان کے مارچ 14 گروپ کے اہم رہنما اور سابق وزیر مروان حمدے سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سعد حریری کے اخبار المستقبل کے فیرس خشان کوشام کی حزب اختلاف سے ملوانے کے لیے بلوایا گیا۔ اس کے مشورے پر شام کے اپوزیشن گروپ کے افراد نجی جیٹ طیارے میں پہنچائے گئے اور ایئر پورٹ پر ان کی تلاشی بھی نہیں لی گئی۔ لبنان کی المستقبل تحریک کے سیکریٹری جنرل احمد حریری نے شام کے شہر تریپولی (طرابلس) میں ہوٹل کوالٹی ان میں آپریشنز روم بنائے۔ امریکا میں مقیم فرید غادری، سابق شامی رکن اسمبلی مامون ال حمصی اور ربال الاسد نے لبنان میں پوزیشن سنبھالی۔ یہ سب اسرائیل کے کٹر حامی ہیں۔

سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ بند ر بن سلطان نے قطر کو دھمکی دی کہ اگر قطر میں مقیم معروف عالم یوسف القرضاوی اور الجزیرہ ٹی وی چینل نے شام کے خلاف مہم میں حصہ نہ لیا تو قطر میں حکومت کے خلاف وہابی تحریک شروع کر دی جائے گی۔ ایک اخبار نے رپورٹ شایع کی تھی کہ شام کے خلاف جعلی ناموں سے کارروائی کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق امریکا اور یورپ سے ہے۔ پیرس میں مقیم اپوزیشن نے دو متضاد موقف اختیار کیے۔ ایک نے اصلاحات کا نعرہ لگایا اورکہا کہ شام میں امریکا اورسعودی عرب سمیت ہر مداخلت غلط ہے۔ دوسرا گروہ صہیونی لابی سے تعلق رکھتا ہے۔

فرید ال غادری کے گروہ نے جون 2007ء میں اسرائیل کادورہ بھی کیا تھا۔ رفیق حریری قتل کیس کا جھوٹا گواہ اور حریری کا مشتبہ قاتل زھیر ال صدیق کے پیرس میں قیام کے انتظامات بھی اسی گروہ نے کیے تھے۔ ’’اعلان دمشق‘‘ کے چیئرمین عبدالرزاق عید اور اس کے بیٹے کو سعد حریری کی تحریک المستقبل کی جانب سے فنڈنگ کی گئی۔ پیرس اسکوائر پر اپوزیشن گروپ کے رہنما ہیثم منا نے اپنے مظاہرے میں دوسرے گروپ کے لوگوں کو امریکی ایجنٹ کہہ کر ان کی شرکت کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی بنا پر عبدالرزاق عید کے بیٹے نے اس پر حملہ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ پیرس میں شامی سفارتخانے سے اس کے روابط ہیں۔

تحریک المستقبل سے تعلق رکھنے والے لبنان کے رکن اسمبلی جمال جراح نے ایک تین رکنی دہشت گردی سیل کو اسلحہ اور مالی معاونت بھی کی۔ شام یا خطے کی صورتحال سمجھنے کے لیے امریکی سی آئی اے کے انتہائی نزدیک سمجھے جانے والے امریکی کالم نگار ڈیوڈ اگناشیئس کا کالم پڑھ لینا چاہیے جو لبنان کے انگریزی اخبار ڈیلی اسٹار میں شایع ہوا۔ ان دنوں موصوف نے لکھا تھا کہ آنے والے ہفتوں میں مشرق وسطیٰ میں پراکسی وار (نیابتی جنگ) میں شدت آ سکتی ہے۔فرید ال غادری نے صہیونی اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسیٹ میں خطاب بھی کیا۔ اس پرشامی حکومت نے اس کی شامی شہریت منسوخ کردی تھی۔ اس کے والدکی خدمات کے اعتراف میں سعودی عرب نے اسے سعودی شہریت دے رکھی ہے ۔

امریکی محکمہ دفاع سے ٹھیکے لینے والی کمپنی میں غادری نے 2 سال تک کام کیا۔ امریکا میں مقیم غادری نے امریکا ہی میں جماعت اصلاح شام تشکیل دی ہے ۔ مامون ال حمصی نے حال ہی میں کہا ہے کہ قتل عام کے ذریعے شام کو اقلیت سے پاک کردیا جائے گا۔ 2006 میں شام سے فرار کرنیوالے غادری نے 2007 میں امریکی صہیونی نیو کونز گروپ کی پراگ سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں ان کی اطالوی نڑادخاتون اسرائیلی سیاستدان فیاما نیرنسٹائن کے ساتھ ملاقات کی تصویردنیا بھر میں نشر ہوئی تھی۔ وہ مامون کے بازو میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے خلاف سرگرم عمل رہنے والی فیاما القدس میں غیر قانونی یہودی بستی گیلو میں قیام پذیر ہے ۔ پراگ کانفرنس میں مامون نے فرید ال غادری سے بھی ملاقات کی تھی جس پر فیاما نے ایک مضمون بھی تحریر کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔