’بس مجھ سے وہی ایک حادثہ ہوا تھا‘

ساجد فاروق  جمعرات 20 اکتوبر 2016
سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کو آئے روز پیش آنے والے حادثوں پر صرف افسوس ہی کیوں ہوتا ہے؟ انہیں غصہ کیوں نہیں آتا کہ آخر یہ ہوا کیوں؟ کس کی غلطی تھی؟ کیونکہ یہ حادثہ نہیں بلکہ قتل عام تھا۔

سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کو آئے روز پیش آنے والے حادثوں پر صرف افسوس ہی کیوں ہوتا ہے؟ انہیں غصہ کیوں نہیں آتا کہ آخر یہ ہوا کیوں؟ کس کی غلطی تھی؟ کیونکہ یہ حادثہ نہیں بلکہ قتل عام تھا۔

’’نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اُن تمام لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی اور آگئی، بلکہ یہ سب قتل ہوئے ہیں، جی بالکل آپ نے ٹھیک پڑھا یہ لوگ قتل ہوئے ہیں اور ان کے ذمہ دار صرف وہ ڈرائیور نہیں جو ان بسوں کو چلا رہے تھے بلکہ اس قتل میں بہت سے ادارے اور لوگ شریک ہیں۔ میں بھی پہلے ڈرائیور تھا، 5 سال میں نے لاہور سے کراچی بس چلائی ہے۔ پھر ہمت جواب دے گئی، کیونکہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سننے کو ملتا، کبھی مالک غصہ کرتا کہ بس آہستہ کیوں چلاتے ہو تو کبھی مسافروں کی پھٹکار سننے کو ملتی کہ جلدی چلاو انہیں دیر ہو رہی ہے، اڈے مینجرز کی اپنی بک بک، بیوی بچوں سے دوری، لاہور سے کراچی تک پہنچنے میں 18 سے 19 گھنٹے لگ جایا کرتے تھے۔ ڈرائیوری کے دوران مجھ سے ایک حادثہ بھی ہوا اور سزا سے بچنے کے لیے میں فوری طور پر اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ پھر میں نے توبہ کرلی اور یہ گنے کی ریڑھی لگالی۔‘‘

اس نے رس نکالنے کیلئے گنے کو بیلنے میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ مگر تم بھاگے کیوں؟ ٹریفک حادثہ تھا اور غلطی سامنے سے آنے والے کی بھی ہوسکتی ہے۔ میرے اس سوال پر اُس نے اسٹیل کے بنے ہوئے برتن سے جوس کو گلاس میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔

’’جو بھی تھا سامنے سے آنے والی بس کا بھی ڈرائیور بھی میری طرح کا ہی ہوگا اسے کون سا کوئی پائلٹ یا ڈاکٹر چلا رہا ہوگا، اس پر بھی بس مالکان اور اڈے مینجرز کا دباؤ ہوگا کہ کم سے کم وقت میں لاہور سے کراچی پہنچنا ہے۔ اس نے بھی میری طرح پہلے کئی سال بسوں کے دروازے پر کھڑے ہو کر مسافروں کے لئے آوازیں لگائی ہوں گی، پھر ٹکٹ بیچے ہونگے، پھر اپنے استاد سے بس ریوریس کرنا سیکھا ہوگا، اور تب ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوگا، اگر مالکان پہنچ والے ہونگے تو ہوسکتا اسے بس کو آگے پیچھے کرتے ہی ڈرائیونگ لائسنس بنوادیا ہوگا، میں نے 5 سال ڈرائیونگ کی مگر جیب میں ڈرائیونگ لائسنس کے بجائے مالکوں کا کارڈ ہی رکھا جس کی پشت پر ایک قانون نافذ کرنے والے کے دستخط کے ساتھ یہ لکھا ہوتا تھا کہ، ’’رقعہ حامل ہذا میرا خاص بندہ ہے، اس کا خاص خیال رکھیں‘‘۔

پھر مجھ پر خدا کی مہربانی ہی رہی کہ مجھ سے کوئی حادثہ نہیں ہوا، بس ایک وہی ہوا، وہ بھی سامنے والے بس کے ڈرائیور کو اونگھ آگئی تھی۔ جب تک بس سیدھی چلتی رہی کام ٹھیک رہا مگر جب موڑ آیا تو میری جگہ کوئی شے بھی ہوتی تو یہی ہونا تھا، باقی اس نے اپنی سائیڈ بچا کر دوسری سائیڈ میرے آگے کردی تھی اور میں نے فُل بس گھمائی مگر پچھلے حصے کو بچا نہیں سکا اور ویسے بھی مالکان کا پہلا سبق یہی ہوتا ہے کہ ایکسیڈنٹ ہوجائے اور ڈرائیور مرجائے تو ٹھیک ہے ورنہ فوراً وہ وہاں سے بھاگنے کی راہ لے، ورنہ لوگوں نے سب سے پہلے اسے مارنا ہے کیونکہ جو بھی ہے ذمہ دار تو وہی ہے جو اسٹئیرنگ پر بیٹھا ہے۔

اس نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے جوس کا گلاس میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں جوس پینے کے لئے رکا تو اس وقت ایف ایم پر خبر چل رہی تھی کہ ضلع رحیم یار خان کے نواح میں سہجہ کے مقام پر دو بسوں کی ٹکر میں 30 مسافر جاں بحق جبکہ متعدد افراد شدید زخمی ہوئے۔ میں نے فوری طور پر ڈرائیورز کو ہی قصور وار ٹھہرایا مگر جوس والے نے اپنی زندگی کا ایک باب کھول کر رکھ دیا۔

اس ان پڑھ جاہل انسان کو بھی یہ پتہ ہے قصور اسی کا ہوتا ہے جو اسٹئیرنگ پر بیٹھا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ جو ایک رسم چل نکلی ہے کہ ہر حادثے کے بعد اعلیٰ حکام کا یہ رٹا رٹایا ٹیپ،

’’وزیر اعلیٰ نے قیمتی جانوں کے زیاں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی اور اظہار تعزیت کی ہے۔ حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کو علاج معالجہ کی بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے انتظامیہ سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی ہے‘‘۔

ان کے وہ 24 گھنٹے کب پورے ہوتے ہیں؟ انہیں دکھ اور افسوس ہی کیوں ہوتا ہے؟ انہیں غصہ کیوں نہیں آتا کہ آخر یہ ہوا کیوں؟ کس کی غلطی تھی؟ یہ حادثہ نہیں قتل عام تھا۔ کیا ہمارے ادارے ان منہ زور بسوں میں اسپیڈ کنٹرول ڈیوائسز نہیں لگوا سکتے بلکہ چائنا سے تو یہ اور بھی سستی مل سکتی ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کے کاروباروں میں ایک اہم کاروبار ٹرانسپورٹ کا بھی ہے۔ ان کی بسیں بھی محفوظ رہیں گی اور ان میں سفر کرنے والے مڈل کلاسیے مسافر بھی۔ کیا ہی بہتر ہو کہ حکمران ایک حکم جاری کردیں کہ جہاں بھی ایسے حادثے ہوں تو اس بس کمپنی کے مالکان، محکمہ کے وزیر، مشیر، انتظامیہ اور چمچے نہ صرف ان جنازوں کو کندھا دیں بلکہ اگلی صف میں ہاتھ باندھ کر پوری نماز جنازہ بھی ادا کریں تاکہ ان کے ضمیر سامنے پڑے ہوئے لاشے دیکھ کر جاگ جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔