سندھ میں اچھی طرز حکومت کے امکانات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 19 اکتوبر 2016
اہم مسئلہ شادی کی دعوتوں کا ہے امراء اور متوسط طبقے میں شادی کی دعوت کا مقابلہ ہوتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

اہم مسئلہ شادی کی دعوتوں کا ہے امراء اور متوسط طبقے میں شادی کی دعوت کا مقابلہ ہوتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

سندھ میں اچھی طرزحکومت کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ مراد علی شا ہ نے شادی ہال دس  بجے بند کرنے شادی کی دعوت میں پیش کیے جانے والے کھانوں کی تعداد کو محدودکرنے اوربازار شام سات بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاجروں نے حسب روایت فیصلے ماننے سے انکارکیا۔اب وزیر اعلیٰ کے اعصاب کا امتحان شروع ہوگیا ہے، یہ فیصلے نافذ ہوگئے تو سندھ بھی عوامی مفاد کے فیصلوں کی بنیاد پر دوسرے صوبوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ سنجیدہ حلقوں میں ہمیشہ سے اس بات پر بحث ہوئی ہے کہ کمرشل ازم بڑھ رہا ہے۔

صاحب ثروت اور نودولتیے اپنی شادی کی تقریبات پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، پھر متوسط طبقہ ان روایات سے متاثر ہوتا ہے۔ نچلا طبقہ متوسط طبقے کی پیروی کرتا ہے اور لوگوں میں غیر قانونی طریقے سے آمدنی بڑھانے کے رجحانات بڑھ رہے ہیں وہ لوگ جو ملازمت پیشہ ہوں پروفیشل، تاجرصنعت کار دکاندار اپنے عزیزوں کی شادی کے لیے خطیر رقم خرچ کرتے ہیں انھیں ان مہنگی روایات پر عمل کرنے کے لیے قرض اٹھانا پڑتا ہے  یا وہ پھر غیر قانونی آمدنی حاصل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو لوگ اس دوڑ میں شریک نہیں ہو سکتے ان کے بچوں کی شادیوں کے لیے بے پناہ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، یوں سماجی معاشی مسائل اور قانون شکنی ایک مثلث کی شکل اختیارکرتی ہے، ہرشخص ایک غیرفطری ماحول کا شکارہوتا ہے۔

شادی کی رسومات کے حوالے سے اہم معاملہ جہیزکا تھا، بہت سی بچیاں جہیز نہ ہونے کی بناء پرشادیوں نہیں کرپاتیں یا کم جہیز ہونے کی بناء پر سسرال میں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لڑکیوں کو سسرال میں جلانے یا ہلاک کرنے کے واقعات ایک وقت میں اخبارات کی زینت بنتے تھے ایوب خان کے دور میں جہیزدینے پر اور جہیز کی نمائش پر پابندی کے بارے میں قانون سازی ہوئی یوں پاکستان میں جہیزکا مسئلہ بہت زیادہ سنگین نہیں ہوا مگر یہ اب بھی سنجیدہ سماجی مسئلہ ہے۔

ایک اہم مسئلہ شادی کی دعوتوں کا ہے امراء اور متوسط طبقے میں شادی کی دعوت کا مقابلہ ہوتا ہے۔ جھنگ سے تعلق رکھنے والی ایک سیاسی رہنماء کے بیٹے کی لندن سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں ولیمے کی خبریں اور تصاویراخبارات میں شایع ہوئیں، دعوتوں میں شریک ہونے والے بعض معتبر افراد کہتے ہیں کہ ہر دعوت میں ہزار افراد کی شرکت سے ایک ریکارڈ قائم ہو گیا۔

وزیراعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں اس مسئلے پر قانون سازی ہوئی شادی اور ولیمے میں صرف مشروبات پیش کرنے کی اجازت دی گئی اورشادی ہال 12 بجے تک بند کرنے کا پنجاب میں اس فیصلے پر بھر پور عمل ہوا جب تک نواز شریف حکومت قائم  رہی کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں یہ پابندی لگی رہی پھر اس فیصلے کی خلاف ورزیاں شروع ہوئیں وزراء نے اپنے عزیزوں کی شادیوں میں مختلف نوعیت کے کھانوں کی نمائش کی۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے نے بھی یہ روش اختیار کی جب 2008میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو شادی کی تقریبات میں صرف مشروبات پیش کرنے کی پابندی بغیر اعلان کے ختم ہوئی۔ شادی ہالوں نے علاقے کے تھانوں سے معاملات طے کر لیے  رات بارہ بجے کے بعد تقریبات جاری رکھنے پر فی گھنٹہ پانچ ہزار روپے پیشگی وصول کیے جانے لگے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ رقم ہرعلاقے کے تھانے میں دی جاتی تھی۔ تھانوں کی مختلف موبائلوں میں سوار سپاہیوں کے لیے کھانے کا مسئلہ بھی شادی ہالوں سے منسلک ہوگیا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جو رقم علاقے کے تھانے میں دی جاتی تھی وہ ڈپٹی کمشنرکے دفتر تک تقسیم ہوتی تھی ۔کراچی کے مخصوص حالات کی بناء پر شادی ہال وقت پر بند ہونا ایک اچھا فیصلہ تھا دیر سے تقریبات ختم ہونے سے جرائم کی  شرح بڑھ گئی تھی۔ جونیجو دور میں شادی کی تقریب سے واپس جانے والی لڑکی کے اغواء اور قتل کی واردات نے لوگوں کے دل ہلا دیے تھے مگر پھر آہستہ آہستہ رات کو دو سے تین بجے تک تقریبات ختم ہونے لگیں ۔

شہباز شریف نے  جب2008 میں وزیر اعلیٰ  پنجاب کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے دس بجے شادی کی تقریبات ختم کرنے اور ون ڈش کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کروایا حتیٰ کہ یہ قانون وزیراعظم کی نواسی کی شادی پر بھی لاگو ہوا مگر سندھ حکومت نے اس معاملے پر توجہ نہیں دی۔ دیہی علاقوں میں شادی کی تقریبات عموما دن میں ہوتی ہیں مگرکراچی اورحیدر آباد جیسے شہروں میں یہ ایک سنگین مسئلہ تھا۔ سماجی امورکی ماہر ڈاکٹرآزادی کا کہنا ہے کہ حکومت کے رویے کے علاوہ عام آدمی کا ذہن بھی پابندیوں کوختم کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

ان کا مشاہدہ ہے کہ جب شادی کی تقریبات میں کھانے پیش کرنے پر پابندی تھی تو لوگ اپنے عزیزوں کے گھروں میں کھانے کا انتظام کرتے تھے بعض لوگوں نے تو بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھلانے کے لیے ٹو کن سسٹم ایجاد کر لیا تھا ۔ ان لوگوں کے مہمان ٹوکن لے کر ان کے طے کردہ مخصوص ہوٹل میں جاکر پرتعیش ڈشوں سے محظوظ ہوتے تھے۔ ڈاکٹرآزادی کا موقف ہے کہ جب تک عوام کو اس قانون کی افادیت سے آگاہ نہیں کیا جائے گا ۔اس قانون کے حقیقی نتائج سامنے نہیں آئیں گے اس طرح بازار سات بجے بند کرنے کا بھی معاملہ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ امریکا، یورپ اورخلیجی ممالک میں بازار علی الصبح  کھلتے ہیں اور شام کو بند ہو جاتے ہیں۔

اس طریقے کے بہت سے فائدے ہیں لوگ صبح سے ہی خریداری شروع کردیتے ہیں ٹریفک اورتوانائی کا کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوتا۔ دکانداراور ان کے ملازمین وقت پر اپنے گھروں میں پہنچتے ہیں اور رات بہترگزرتی ہے یوں بازار شام کو بند ہونے سے بجلی کی بچت ہوتی ہے اور ٹریفک کے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔کراچی میں صبح صرف بیکری گوشت اور سبزی کی دکانیں کھلتی ہیں۔ دوپہر بارہ بجے کے بعد بازار کھلنے شروع ہوتے ہیں خریداری کا ماحوال چار بجے سے بنتا ہے ،گرمیوں میں تو چھ سات بجے بازاروں کی رونق دوبالا ہوتی ہے اور رات نو دس بجے تک دکانیں کھلی رہتی ہیں۔

دکاندار اور ان کے ملازمین رات گئے تک اپنے گھروں کو پہنچ پاتے ہیں۔ اس صورتحال میں صبح سے سہ پہر تک کا وقت ضایع ہوتا ہے، شام کو جب دفاتر بند ہوتے ہیں ،گھر جانے والے افرادکی گاڑیوں کے علاوہ خریداری کرنے والے افراد کی خریداری کا بھی رش شروع ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی شہر میں ایک بجے سے ٹریفک جام ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شام کو ٹریفک کی بدترین صورتحال ہوتی ہے، رات کو نو سے دس بجے تک شہر کی سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے۔

یوں گیس پٹرول اور ڈیزل کے ضیاع کے علاوہ ماحولیات کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بجلی کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے، اس طرح بجلی کی چوری کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔ شام کو بازار بند ہونے سے دکانداروں کی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ خریداری کا دورانیہ بڑھنے سے گاہکوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد لوگ اس صورتحال کے عادی ہو جائیں گے۔ اب معاملہ اس فیصلے پر عمل درآمد کا ہے۔

سول سوسائٹی کے ایک وفد کے ہمراہ راقم کو 2005میں بمبئی جانے کا موقع ملا۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے پاکستانی وفدکے اعزاز میں شاندار ڈنرکیا۔ ڈنر میں شرکت کے لیے عظیم اداکار دلیپ کمار اور ان کی اہلیہ سائرہ بانوخاص طور پر شر کت کے لیے آئے ۔اس ڈنرکی ایک خاص بات تو یہ تھی کہ دلیپ کمارکے علاوہ سب لوگوں نے قطار میں لگ کر کھانے لیے، پھرکھانے کے بعد ورائٹی شو ہوا، دونوں ملکوں کے فنکار بہترین نغمے سنا رہے تھے، گلوکاروں میں وزیراعلیٰ کے صاحبزادے بھی شامل تھے، ہر طرف رقص وسرور کی فضاء تھی ۔ دلیپ کمارکو سب سے آخر میں خطاب کرنا تھا، سب کی خواہش تھی کہ یہ محفل صبح تک جاری رہی، اچانک اسٹیج سیکریٹری نے یہ اعلان کیا کہ ریاست مہاراشٹرا کے قانون کے  تحت وزیراعلیٰ ہاوس میں تقریبات بارہ بجے تک ختم ہونی چاہیں۔

اس قانون کی پاسداری کرتے ہوئے یہ تقریب ٹھیک بارہ بجے ختم ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔  وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے یہ اعلان کرکے کہ وہ کسی ایسی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے جس میں زیادہ ڈشیں پیش کی جائیں گی امیدکا راستہ دکھایا ہے۔اس فیصلے کی چیئرمین بلاول زرداری ،تمام وزراء ،اراکین اسمبلی اورتما م جماعتوں کے اراکین اسمبلی کو پابندی کرنی چاہیے جب اعلیٰ ترین سطح پر اس فیصلے پر عمل ہو گا تو نچلی سطح پر اس فیصلے کی پابندی ہوگی اور ایک وقت آئے گا یہ لوگوں کی عادت میں شامل ہو جائے گا۔ اس فیصلے کے تحت پولیس کا  کردار بڑھ جائے گا، پولیس والے صرف رشوت کی شرح بڑھا دیں گے مگر اس فیصلے کے تحت پولیس کو پابندکیا گیا ہے کہ وہ شادی ہال کی انتظامیہ سے رابطہ کریں یوں دلہا دلہن یا اس کے والدکی گرفتاری کی خبریں ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوزکے طور پر نظر نہیں آئیں گی۔

ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے سیاسی جماعتوں اور غیرسرکاری تنظیموں کوکردارادا کرنا ہوگا۔ پانی وبجلی کے وزیرخواجہ آصف نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی تحریک انصاف اوردوسری جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ان فیصلوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ تاجروں کو ایجی ٹیشن پر ابھارنے والے اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے، حقیقی مقتدرہ کے تحت کام کرنے والی ایجنسیوں کو یہی رویہ اختیارکرنا چاہیے غیر سرکاری تنظیموں کو آگاہی کی مہم چلانی چاہیے تاکہ عوام ان فیصلوں کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیں،ایک بڑی سماجی تبدیلی کا آغاز ہوسکتا ہے  وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اس فیصلے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔