فلم میکرز کی اکثریت ناتجربہ کار مگر ہر مرتبہ کچھ نیا کر رہی ہے، صنم سعید

کلچرل رپورٹر  بدھ 19 اکتوبر 2016
سٹیلائٹس اورانٹرنیٹ کے دور میں شناخت بنانے اوربرقرار رکھنے کے لیے پہلے کی نسبت دوگنا محنت کرنا پڑرہی ہے۔ فوٹو: فائل

سٹیلائٹس اورانٹرنیٹ کے دور میں شناخت بنانے اوربرقرار رکھنے کے لیے پہلے کی نسبت دوگنا محنت کرنا پڑرہی ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: پاکستان میں اعلیٰ معیار کی فلمیں بننے لگیں، ماضی اور آج کی فلم میکنگ میں بہت تبدیلی آچکی۔ کردار ہی فنکار کی پہچان بنتا ہے، اسی لیے اسکرپٹ اور کردار سے مطمئن ہوئے بغیر کوئی پروجیکٹ سائن نہیں کرتی۔ ان خیالات کا اظہار معروف ماڈل واداکارہ صنم سعید نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ فلم بین سمجھدار ہوچکا وہ انٹرٹین کے ساتھ کچھ نیا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے فلم میکرز کو ہر بار پہلے سے زیادہ محنت اور پیپرورک پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کامیڈی ، ایکشن ، رومانٹک  سمیت ہر قسم کی فلم بننی چاہیے، وقت کے ساتھ باکس آفس کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں  پاکستانی فلمیں بنانے والوں کی اکثریت ناتجربہ کار ہونے کے باوجود فلم بینوں کے لیے  ہر بار کچھ نیا لے کر آرہے ہیں۔

ماضی اور آج کی فلم انڈسٹری میں بہت تبدیلی آچکی ہے،اس شعبے کو پڑھے لکھے لوگ جوائن کر رہے ہیں ۔صنم سعید نے کہا  کہ فلم میں کام کرنے کا تجربہ انتہائی خوشگوار رہا ہے، میری دو فلمیں ’’ماہ میر‘‘ اور ’’بچانا‘‘  جو موضوعات کے اعتبار سے ایک دوسرے بالکل مختلف تھیں۔ ’’ماہ میر‘‘ معروف شاعر میر تقی میر کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم تھی جب کہ ’’بچانا‘‘ کمرشل مسالہ فلم تھی۔

میری تیسری فلم ’’دوبارہ پھرسے‘‘ اور ’’آزاد‘‘ کامیڈی رومانٹک فلمیں ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ  ماڈلنگ کے ساتھ اداکاری سے بھی بھرپور لطف اندوز ہورہی ہوں۔ اداکاری اورماڈلنگ دونوں شعبوں میں تعداد سے زیادہ کوالٹی پر توجہ دیتی ہوں، اسی لیے کم مگر معیاری پروجیکٹس میں ہی نظر آتی ہوں۔ سٹیلائٹس چینلز اور انٹرنیٹ کے اس دور میں اپنی شناخت بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے پہلے کی نسبت دوگنا محنت کرنا پڑرہی ہے۔کوشش کرتی ہوںکہ جو بھی کردار کروں وہ دیکھنے والوں کو پسند آئے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔