لالٹین کی واپسی

عبدالقادر حسن  جمعرات 20 اکتوبر 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا کتنی بھی آگے چلی جائے اور اس کا جہاں تک جی چاہے پہنچ جائے ہم نہ صرف یہ کہ وہیں کھڑے رہیں گے بلکہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائیں گے۔ اس کی اطلاع ہمیں اپنی حکومت نے سرکاری سطح پر دی ہے کہ وہ آنے والے دنوں اور راتوں کے ایک حصے کو گیس فراہم نہیں کر سکے گی اور آپ وہی رہیں گے جہاں پہلے تھے۔ یعنی گیس کے بغیر چاہیں تو جل مریں یا لکڑی کی آگ میں آنکھیں سرخ کرتے رہیں۔ اب آپ اسی نئے زمانے میں زندگی گزاریں گے۔

حکومت کے اس انقلابی اعلان سے مجھے اپنے گاؤں کا بچپن یاد آ گیا جب چولہے لکڑی کی آگ سے جلتے تھے۔ اس آگ کو جلانے کے لیے پہلے تو سانس کی پھونکیں مار مار کر آنکھیں سرخ کرنی پڑتی تھیں پھر کسی لکڑی کو آگ لگ جاتی تھی تو دوسری لکڑیاں یہ آگ پکڑ لیتی تھیں اور چولہا جلانے والی خاتون خانہ سکھ کا سانس لیتی تھی کہ آگ جل ہی گئی اور چولہے پر دھری دیگچی اب اس گرمی سے وہ کام کرنا شروع کر دے گی جو اسے دیا گیا ہے اور اس طرح زندگی ایک قدم آگے چل دیتی تھی۔ زندگی کا یہی بڑھتا ہوا قدم گھر بھر میں نئی زندگی کی لہر دوڑا دیتا تھا۔

لکڑیوں کی آگ کا یہ زمانہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا۔ گھر میں لکڑیاں جمع رکھی جاتی تھیں اور ان میں جو خشک ہوتی تھیں وہ الگ کر دی جاتی تھیں تاکہ آگ جلانے میں آسانی ہو۔ ان خشک لکڑیوں کی گھر میں بڑی عزت ہوتی تھی اور یہ باورچی خانے کی زینت ہوتی تھیں۔ گیس وغیرہ کا تو نام و نشان نہ تھا یہی خشک لکڑی گیس کا نعم البدل تھی اور آپ کو یاد دلا دوں کہ گھر میں خشک لکڑیاں الگ سے رکھی جاتی تھیں، اگر بارش کا خطرہ ہوتا تو سب سے پہلے ان خشک لکڑیوں کو بارش سے بچایا جاتا تھا۔ چولہے کی آگ کا آغاز ایسی ہی کسی خشک لکڑی سے ہوتا اور یہی چولہے کی آگ زندگی کا دوسرا نام ہوتی تھی۔

سگھڑ خواتین خشک لکڑیوں کا ذخیرہ رکھتی تھیں اور دودھ گرم وغیرہ کرنے کے لیے یہی لکڑیاں ایک ایسی آگ کا کام دیتی تھیں جو قابل نفرت ہونے کے باوجود گھر بھر میں پسند کی جاتی تھی اور جس کے بغیر چولہا نہیں جلتا تھا اور کھانا پینا مشکل بن جاتا ۔ آگ نہ ہو گی تو چولہا نہیں جلے گا اور چولہا نہیں جلے گا تو پھر زندگی کچی رہے گی اسے پکانے کے لیے آگ کی ضرورت ہوتی ہے اور آگ جلائی جاتی ہے خود نہیں جلتی۔ اور اس کو جلانے کے لیے ایسے آلات کی ضرورت ہوتی ہے جو گھر میں تیار رکھنے پڑتے ہیں۔

بات شاید بلاوجہ ہی لمبی ہو گئی ہے۔ آگ صرف چولہے کے لیے ہی لازم نہیں ہوتی یہ روشنی کے لیے بھی لازم ہے، دیا آگ کے بغیر نہیں جلتا اور لالٹین جو روشنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے آگ سے ہی جلتی ہے۔ اس طرح چولہے کی آگ ہو یا لالٹین کی روشنی یہ سب اسی آگ کی محتاج ہیں جو ایک دبلی پتلی دیا سلائی سے جل اٹھتی ہے۔ ہمارے حکمران شاید اس کو جانتے ہیں کہ چولہا کیسے جلتا ہے اور روشنی کیسے ہوتی ہے عوام پر اس گرم اور روشن آگ کو ممنوع قرار دے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ انھیں اور بھی بہت کچھ دے اور انھیں اپنی ذاتی زندگی میں ایسی پرانی دقیانوسی چیزوں کی ضرورت نہ پڑے لیکن اتنی عرض بے جا نہیں ہو گی کہ وہ ان باتوں میں عوام کا خیال رکھیں جو آگ اور دیے کے محتاج ہیں اور جن کے بغیر ان کی زندگی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ حالات نے انسانوں کے ہر طبقے کے لیے اس کی ضروریات مخصوص کر دی ہیں جو اس طبقے پر آسان ہونی چاہئیں تاکہ زندگی کا سلسلہ ہر سطح پر چلتا رہے اور انسان اپنی ضرورت پوری کرتے رہیں۔

حکومت کو اپنے احکامات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے نتیجے میں ان کا کیا حال ہو سکتا ہے۔ اب معمول کی زندگی کے لیے گیس وغیرہ بند کی جا رہی ہے اور حکومت جو چاہے کر سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اب پھر سے لالٹین کے دور میں پہنچ جائیں اور روشنی کے لیے کسی حکمران کے محتاج نہ رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔