دس سالوں میں پاکستانی اسکالرز کے بین الاقوامی ریسرچ پیپرز میں 4 گنا اضافہ

سہیل یوسف  جمعرات 20 اکتوبر 2016
کراچی یونیورسٹی میں واقع ڈاکٹر خان انسٹی ٹیوٹ آف بایو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ میں دو خواتین سائنسداں مصروفِ تحقیق ہیں۔ فوٹو: سہیل یوسف

کراچی یونیورسٹی میں واقع ڈاکٹر خان انسٹی ٹیوٹ آف بایو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ میں دو خواتین سائنسداں مصروفِ تحقیق ہیں۔ فوٹو: سہیل یوسف

لندن: بین الاقوامی خبررساں کمپنی تھامسن رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ 10 برس میں پاکستان سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالہ جات ( ریسرچ پیپرز) میں 4 گنا اضافہ ہوا جو ایک حیرت انگیز اور خوشگوار پیش رفت ہے۔ 

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بلحاظ فی صد یہ پیش رفت تمام برکس ممالک سے زیادہ ہے جن میں چین، بھارت، برازیل اور روس شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی سائنسی تحقیقی برادری کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ایک وسیع پس منظر میں پاکستان کی تحقیقی کاوشیں ماند نہیں ہوئی ہیں۔

سال 2006 میں پاکستانی اسکالرز اور ماہرین کے صرف 2 ہزار ریسرچ پیپزر چھپے تھے لیکن 2015 میں یہ شرح 9 ہزار سے بھی بڑھ گئی جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس دوران اعلیٰ پیمانے کے حوالہ جاتی (سائٹیڈ) پیپرز کی تعداد جو 2006 میں 9 تھی وہ 2015 میں 98 تک ہوگئی ہے۔ اعلیٰ حوالہ جاتی تحقیقی مقالہ جات کی فہرست میں پاکستان کی شمولیت ایک اہم سنگِ میل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ تحقیقی مقالوں کی اشاعت ایک حد تک کسی بھی ملک میں سائنسی تحقیق اور ترقی کو ظاہر کرتی ہے تاہم اس کے دیگر اشاریے بھی ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان سے انجینیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں شائع ہونے والے مقالات قدرے معیاری ہیں۔ تاہم نیچرل سائنسز میں بھی واضح بڑھوتری کا رحجان دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان سے شائع ہونے والے اسکالرز کے کام کو دیگر برکس ممالک کے ماہرین کے مقابلے میں زیادہ حوالے دیئے جاتے ہیں جو شاید ان کے کام کی اہمیت کو ثابت کرتے ہیں۔

رائٹرز کی مکمل رپورٹ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔